Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Shahbaz Sharif Ne Mulk Bacha Liya

Shahbaz Sharif Ne Mulk Bacha Liya

بہت سارے سوشل میڈیائی دانشور کہتے ہیں کہ عمران خان نے ساڑھے تین برس حکومت کی، اس میں اس نے کون سی ایسی تباہی پھیر دی جو ستر برس میں نہیں پھیری گئی تھی۔ وہ بہت دنوں تک یہ دلیل بھی دیتے رہے کہ اگر عمران خان نے کچھ خراب کر ہی لیا تھا تو شہباز شریف نے کون سا تیر چلا لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ موصوف اپنے ساڑھے تین برس میں ستر برس کے قرضوں کا ستر فیصد لے کر چلے گئے اور ایک میگا پراجیکٹ نہیں دیا۔ لیٹرینوں پر لکھے ہوئے فون نمبروں سے نشئیوں کے لئے آرام گاہوں سے تک جیسے ویژنری پراجیکٹس، دینے والے نجانے کس منہ سے مسلم لیگ نون کی حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے پاس اگر بہت بڑا کارنامہ ہے تو وہ صحت کارڈ ہے اوراس کی بھی حقیقت یہ ہے کہ یہ نواز شریف کا پراجیکٹ تھا جسے چوری کیا گیا اور پھر اس کے ذریعے بہت زیادہ چوری کی گئی۔

معاملہ تخریب اور تعمیر کا ہے اور اس سے جڑے ہوئے بہت سارے مغالطوں کا۔ تعمیر برسوں، عشروں اورپوری پوری زندگیوں کا کام ہے مگر تخریب چند لمحے مانگتی ہے اور عمران خان تو پھر ساڑھے تین برس تک یہ کام کرتے رہے، بلاتکان کرتے رہے، طاقتوروں کی حمایت کے ساتھ کرتے رہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ آپ ایک ڈریم کار لینا چاہتے ہیں۔ آپ اس کے لئے برس ہا برس رقم جوڑتے ہیں۔

دوسری طرف ایک کمپنی اس کار کو بنانے میں کئی ماہ لیتی ہے۔ جب وہ کار آپ کے پاس آتی ہے تو اس کے پیچھے آپ کی عمر بھر کی کمائی اور محنت ہوتی ہے لیکن اگر آپ اسے تباہ کرنا چاہیں یا اسے کسی اناڑی یا دشمن کے حوالے کر دیں تو اسے ایک لمحے میں کسی دیوار سے جا کے ٹکرا سکتا ہے، کسی پہاڑ سے نیچے گرا سکتا ہے، چلیں، مان لیں کہ وہ نہ دیوار سے ٹکراتا ہے نہ کسی پہاڑ سے گراتا ہے بلکہ وہ اس کا انجن آئل ہی تبدیل نہیں کرتا کیونکہ وہ سست اور نااہل ہے۔ اسے وقت پر انجن آئل تبدیل کرنے کی اہمیت کا ہی علم نہیں ہے اور انجن سیز کر دیتا ہے۔ بظاہر وہ گاڑی ٹھیک ٹھاک لگ رہی ہوگی مگر ماہرین ہی جانتے ہیں کہ اس گاڑی تباہ حال ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ بہت اچھی طرح اسے عمران خان کے دور پر منطبق کرکے سمجھ رہے ہوں گے کہ پاکستان کے ساتھ کیا ہوا۔

نواز شریف کے دور میں پاکستان اچھی خاصی چلتی ہوئی گاڑی تھا بلکہ فراٹے بھر رہا تھا۔ جی ڈی پی گروتھ چھ فیصد پر تھی اور انفلیشن سنگل ڈیجٹ پر۔ ڈالر کو ریورس گئیر لگا کے سو روپے سے نیچے لایا گیا تھا اوراس کے نتیجے میں پٹرول ساٹھ روپے لیٹر تھا اور بجلی کا یونٹ بارہ روپوں کا۔ آصف غفور اور ہم نواؤں کو لگتا تھا کہ اس وقت اکانومی بری نہیں تو اچھی بھی نہیں ہے حالانکہ اس وقت (آج کی طرح) پاکستان کی سٹاک ایکسچینج دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دس اہم ترین سٹاک مارکیٹس میں سے ایک تھی اور جنوبی ایشیاء میں پہلے نمبر پر۔ پھر وہ مکنیک آ گیا جس کا دعویٰ تھا کہ گاڑی مسنگ کر رہی ہے اوراس کا ڈرائیور ٹھیک نہیں ہے۔ اس گاڑی کے پلگ میں کچرا تھا اوراس نے اپنی نااہلی سے اس کا پورا انجن ہی کھول کے رکھ دیا تھا۔

میں مانتا ہوں کہ کرونا کے دوران تمام دنیا کی معیشتوں کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ کرونا ایک طرح سے پاکستان کی معیشت اور برآمدات کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ اس دور میں فیکٹریاں بند ہونے کی وجہ سے چین سے انڈیا اور بنگلہ دیش سے کوریا تک جتنے بھی آرڈر منسوخ ہوئے، بالخصوص ٹیکسٹائل کے، وہ سب کے سب پاکستان کو مل گئے کیونکہ اس دور کی حکومت کرونا ایس او پیز اور پابندیوں کونظر انداز کرکے کپڑوں کے کارخانے چلاتی رہی۔

یہ عالمی ادارہ صحت کے اصولوں اور احکامات کی خلاف ورزی تھی مگر اس کے ذریعے ہمارے صنعتکاروں نے خوب مال کمایا لیکن جیسے ہی دنیا دوبارہ مقابلے پر آئی تو سب کچھ ٹھس ہو کے رہ گیا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اگر لاہور اسلام آباد کے درمیان ڈائیوو اور بلال ٹریولز سمیت تمام اچھی سروسز بند کر دی جائیں تو جن لوگوں نے ضرورت اور مجبوری میں سفر کرنا ہے تو وہ گجر طیارے پر بھی سفر کر لیں گے کیونکہ مجبوری کا نام شکریہ ہے۔ ا س ایک استثنیٰ سے ہٹ کے پاکستان کی معیشت کی ایسی تیسی پھیر دی گئی بلکہ معیشت تو ایک طرف رہی، ایسی تیسی خارجہ تعلقات کی بھی پھیری گئی اور گورننس کی بھی۔

میں دوبارہ گاڑی کی مثال پر ہی آتا ہوں یا آپ ایک مکان یا گھر کی مثال کے طور پر بھی لے سکتے ہیں۔ جیسے ایک گھر کو آپ مہینوں، برسوں یا عشروں میں بناتے ہیں لیکن اسے محض ایک ڈائنامائیٹ سے چند لمحوں میں زمین بوس کیا جا سکتا ہے۔ ایک سکول بنانے کے لئے بہت سارے مراحل ہوتے ہیں مگر دہشت گرد اسے پٹرول کی ایک بوتل سے جلا کے راکھ کر سکتے ہیں۔ یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا۔

پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا یعنی ڈیفالٹ کے کنارے پر۔ اس وقت فوجی جنتا کو ہوش آئی کہ ہم نے یہ کیا کردیا ہے۔ انہوں نے عمران خان کی سرپرستی ختم کی اور سیاستدانوں کو موقع دیا کہ وہ آزادی کے ساتھ حکومت قائم کریں۔ اتحادیوں پر جیسے ہی تنا ہوا ڈنڈاختم ہوا وہ عمران خان کی حکومت چھوڑ کے ایسے بھاگے جیسے کوئی گھوڑا بدک کے بھاگتا ہے۔ اب سوشل میڈیا ئی دانشور فرماتے ہیں کہ عمران خان نے تباہی مچا لی تو شہباز شریف نے کون سا کمال کیا۔

بھائی لوگو، یہ شہباز شریف کا ہی کمال تھا کہ اس نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا لیا ورنہ تم لوگوں کی پلاننگ تھی کہ یہ ملک دیوالیہ ہوجائے (بلکہ خدانخواستہ اس پر کوئی ایٹم بم ہی پھینک دے) اور یہاں جو پٹرول مجبوری کے عالم میں تین سو روپے لیٹر کرنا پڑا وہ تین ہزار روپے لیٹر بھی نہ ملتا اور جو بجلی کایونٹ چالیس یا پچا س روپے تک جا پہنچا وہ چار اور پانچ سومیں نہ ملتا۔ یہ شہباز شریف کا ہی کما ل ہے کہ اس نے پاکستان کو یقینی معاشی اور سماجی موت سے بچا لیا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی کسی کے جسم میں خنجر گھونپے اور گھونپتا ہی چلا جائے اور آپ ڈاکٹر سے کہیں کہ خنجر مارنے والے تو تین منٹ میں مار دئیے، تم اسے ٹھیک کرنے میں تین ماہ کیوں لے رہے ہو۔

میں نے پاکستان کا مالیاتی خسارہ ختم ہونے کی خبرسنی، یہاں البیک سمیت بہت سارے برینڈز آنے کی خبر سنی، سٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ گروتھ دیکھی، مہنگائی اور شرح سود میں کمی ہوتے دیکھی، دنیابھر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان پر اعتماد کرتے دیکھا تو مجھے خوشی ہوئی کہ جس پاکستان کو عمران خان نے خنجر گھونپے تھے اسے شہباز شریف نے بچا لیا ہے۔ جو گاڑی عمران خان نے تباہ کی تھی اسے شہباز شریف نے دوبارہ سڑک پر دوڑا دیا ہے۔ جس گھر کو عمران خان نے گرایا تھا شہباز شریف نے اس کی نئی منزلیں تعمیر کرنا شروع کردی ہیں۔