پچھلے دو ہفتے مسلم لیگ نون کے لئے کافی مشکل تھے۔ میاں نواز شریف ایک مرتبہ پھر اسی حالت میں چلے گئے تھے جو کچھ عرصہ پہلے تک طاری تھی۔ وہ اپنے ملنے والوں سے بھی مایوسی کی باتیں کر رہے تھے اور اسی دوران انہوں نے فوج اور عدلیہ کے سابق سربراہوں کو دو ہزار سترہ کی سازش میں ملکی تباہی کا مجرم قرار دیتے ہوئے کیفر کردار تک پہنچانے کامطالبہ کر دیا۔
نوازلیگ کے عقاب خوش تھے کہ ایک مرتبہ پھر چونچیں اور پنجے تیز ہونے لگے ہیں لیکن مان لیجئے کہ سیاستدانوں کی چونچیں اور پنجے شکار کرنے کے قابل نہیں ہیں، یہ جب بھی تیز ہوتے ہیں اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ بات میاں نواز شریف سے بہتر کون جانتا ہے جوکئی مرتبہ شکار کرنے کے چکر میں شکار ہوچکے، عدالتیں، پیشیاں اور جیلیں ہی نہیں جلا وطنیاں تک بھگت چکے مگر سچ پوچھیے میں نواز شریف کو بہت زیادہ ذمے دار نہیں سمجھتا۔
نوے کی دہائی میں بھی نواز شریف کی پرفارمنس ستائش کے درجے میں آتی تھی جب موٹرویز بننی شروع ہوئیں اور پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کی جرأت کی یعنی کتابوں، تقریروں اور انٹرویوز میں نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں دنیا کی واحد سپر پاور کو ایبسولیوٹلی ناٹ کہا مگر پھر ان سے ایک غلط فیصلہ ہوگیا۔ اس غلط فیصلے کی بنیادی وجہ بھی دونوں طرف موجود تناؤ تھا جو غیر ضروری تھا اور غلط فہمیوں پرمبنی تھا، یوں مارشل لاء لگ گیا۔
نواز شریف کو جب دوبارہ پاکستان ملا تو وہ لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کا شکار تھا۔ مشرف دور میں بہت سارے ڈالرز آنے کے باوجود انفراسٹرکچر کی بہتری کا عمل رک چکا تھا۔ ہم نواز شریف سے لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ میٹروز، موٹرویز کی تعمیر کا کریڈٹ نہیں چھین سکتے۔ اس امر کی گواہی بھی دی جا سکتی ہے کہ ان کا دور کرپشن فری تھا یعنی انہوں نے نہ خود کرپشن کی نہ کرنے دی مگر اس کے باوجود انہیں اقتدار سے الگ کیا گیا، ان پر الزامات عائد کئے گئے، انہیں ہی جیل میں نہیں رکھا گیا بلکہ ان کی بیٹی کو ان کے سامنے گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے جیل میں ہی اپنی محبوب اہلیہ کی وفات کا سانحہ برداشت کیا اس کے بعد وہ حالات ہوئے کہ انہیں ایک مرتبہ پھر جلاوطنی پر مجبور ہونا پڑا۔ سو نواز شریف کے دکھ کم نہیں ہیں اور اگر وہ ان پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں تو یہ غیر منطقی نہیں، غیر انسانی نہیں، غیر حقیقی نہیں۔
ہمیں زندگی کو آئیڈیلزم اور رئیلزم کے بیچ میں کہیں رکھ کے دیکھنا پڑتا ہے ورنہ دونوں انتہائیں ہمیں پریشانیوں اور مسائل کے سوا کچھ نہیں دیتیں۔ زمینی حقائق یہی ہیں کہ عمران خان نے جو مواقعے گنوائے ہیں انہیں اب نواز شریف نہ گنوائیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں ابھی اتنی طاقتور نہیں ہوئیں کہ وہ فوج اور عدلیہ کے سربراہوں کو اپنا ملزم قرار دے کر سزا دے سکیں۔ دوسرے جب ہم سیاست میں سازشوں اور نقصانات کی سزا کوئی عدالت، کوئی کمیشن یا کوئی ٹریبونل نہیں بلکہ تاریخ اور عوام طے کرتے ہیں۔ کیا یہ ایک سے زائد مرتبہ موقعے نہیں آئے کہ سیاستدان کو موت کی سزا بھی ہوئی اور عمر قید بھی مگر پھر وہ سزا غلط ٹھہری۔
مان لیجئے، مسلم لیگ نون کے کریڈٹ پر پہلے بھی مزاحمت نہیں امن، ترقی اور خوشحالی ہے، میگا پراجیکٹس ہیں، اس کی ٹیگ لائن اب بھی یہی ہے کہ آپ نواز شریف کے دور کے منصوبے ملکی تاریخ سے نکال دیں تو باقی مغلیہ دور کے کھنڈرات بچتے ہیں یا عمران خان کے ہوائی قلعے۔ پی ٹی آئی پہلے اپنی نااہلی اور ناکامی کی وجہ سے آوٹ ہوئی اور پھر نومئی کے واقعات کے بعد پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچی۔ ایسی صورتحال میں نواز شریف کو فوج سے لڑوانے والے اس رہنما کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ ان کے اپنے کچھ اور مقاصد ہوتے ہیں جو ملک اور قوم کے مقاصد سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ نواز شریف کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے رائے سے بہت کم رجوع کرتے ہیں۔ انہیں تصویر کا دوسرا رخ دکھانے، زمینی حقائق دکھانے اوردرست مشورے دینے والوں سے کہیں زیادہ خوشامدی اور واہ واہ کرنے والے زیادہ پسند ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر نوازشریف کی اسی معصومیت کا کچھ لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور ہم جسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے تجربہ کار سیاستدان کہتے ہیں اسے اپنی باتوں کے جال میں پھنسا لیامگر اس بار خوش آئندیہ ہے کہ انہیں سمجھانے اور بتانے والوں میں ان کا بھائی اکیلا نہیں تھا بلکہ ان کی بیٹی بھی اپنے چچا کے ساتھ کھڑی تھی۔ مریم نواز جس تیزی کے ساتھ سیاست کے لوازمات اور ضروریات کو سمجھ رہی ہیں یہ صورتحال آج سے دو، اڑھائی برس پہلے نہیں تھی۔ ان میں کیرزمیٹک لیڈر بننے کی تمام خوبیاں موجود ہیں مگر ضروری ہے کہ جوش کے ساتھ ساتھ ہوش کا کمبی نیشن بھی رکھا جائے۔
پاکستان کو اس وقت بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے اور وہ ہو بھی رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ کہا اور اسے دہرا دیتا ہوں کہ یہ وقت ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے ایک بہترین کمبی نیشن بنانے کا ہے، پاکستان کو ترقی دینے کے جنون میں مبتلا وزیراعظم، سپہ سالار اور قاضی القضاۃ کا کمبی نیشن۔ ابھی نواز شریف اور شہباز شریف اقتدار سے باہر ہیں مگر اس وقت بھی جو فیصلے ہو رہے ہیں وہ قومی تاریخ میں کبھی سنے اور پڑھے نہیں گئے۔
کیا کبھی کسی نے سنا کہ کسی آرمی چیف نے کہا ہو کہ اگر کوئی فوجی اسمگلنگ میں ملوث ہوا تو اس کاکورٹ مارشل ہوگا۔ کیا کسی جمہوری حکومت میں یہ جرأت تھی کہ وہ غیر ملکیوں یعنی افغانیوں کے حوالے سے ایسے فیصلے کرتی۔ کیا کوئی ڈالر مافیا کے خلاف اس سے پہلے اس قسم کے اقدامات کر سکتا تھا اور ان سب سے پہلے کیا یہ فیصلہ ہو سکتا تھا کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ یہ پاکستان کی ہسٹری کا ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے جس میں شریف فیملی اور خاص طور پر نواز شریف دوبارہ ان ہونے کی پوزیشن میں ہیں۔
شہباز شریف اپنے بھائی کے لئے جو قربانیاں دے رہے اور جو محنت کر رہے ہیں وہ بھی تاریخ کا الگ ہی باب ہے۔ ایسے میں نواز شریف کا شکریہ کہ انہوں نے اپنا انتقام یا کم از کم احتساب والا بیانیہ واپس لے لیا اور اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو اقتدار دیتی ہے اور پھر واپس لے لیتی ہے۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ اگر نواز شریف اپنے بیانیے پر قائم رہتے تو وہ لوگ کامیاب ہو جاتے جو ایک مرتبہ پھر جدید پاکستان بنانے والے شریف خاندان کو مشکلات کا شکار دیکھنا چاہتے ہیں۔
بس یہ سمجھ لیجئے کہ آپ کے سامنے ایک پہاڑ ہے اور آپکی منزل پہاڑ کے دوسری طرف ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ مصر ہوں کہ پہاڑ گرا کے ہی دوسری طرف جائیں گے مگر اس طرح تو آپ کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکیں گے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ پہاڑ کو ٹکر نہ ماریں، اس کے ساتھ ساتھ راستہ بنا لیں۔ آپ کا سر ابھی اتنا مضبوط نہیں کہ پہاڑ کو توڑ سکے۔ یہ بدگمانی عمران خان کوبھی بڑی شدت کے ساتھ ہوئی تھی۔