یہ میرا پی ٹی آئی والوں کے لئے مشورہ ہے کہ وہ سورۃ یٰسین کی تلاوت کااہتمام کریں۔ یہ سورۃ قرآن پاک کادل ہے اور مشکل وقت آسان کرتی ہے۔ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ اگلا برس کیسا گزرے گا تو میرا جواب تھا کہ پی ٹی آئی کا اس وقت جاری بُرا وقت ختم ہوجائے گا اور بدترین شرو ع ہوجائے گا۔
میرا تجزیہ ہے کہ پچھلے اڑھائی برسوں میں پہلی مرتبہ پی ٹی آئی والوں کو احساس ہوا ہے کہ وہ کس مصیبت کا شکار ہو گئے ہیں ورنہ وہ اب اپنی بنائی ہوئی جنت میں رہ رہے تھے جیسے وہ سوشل میڈیا کا صحافی، جو ہر صبح اور شام ایک ہی پوسٹ کرتا ہے کہ وہ واپس آ رہا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر آ رہا ہے اور اس کے نیچے اسے لائیک کرنے والے احمقوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوتی ہے مگر جیل میں بند عمران خان کو اندازہ ہوگیا ہے کہ جیل کا دروازہ سختی سے بند ہوگیا ہے۔
عبداللہ گل بتا رہے تھے کہ جس گیٹ نمبر چار کی باتیں کی جاتی تھیں اب اس گیٹ کو اکھاڑ کے پختہ دیوار بنا دی گئی ہے۔ ویسے اس گیٹ کی باتیں شیخ رشید احمد اپنی سیاسی رحلت سے پہلے کیا کرتے تھے وہ تو پتا ہی اس وقت چلا جب وہ چِلہ کاٹ کے واپس آئے کہ وہ جس قمر جاوید باجوہ کے ساتھ پڑھنے کا دعویٰ کیا کرتے تھے ان کے ساتھ تو کبھی موصوف کی باقاعدہ ملاقات تک نہیں ہوئی تھی۔
ویسے تو ہم پی ٹی آئی والوں کو اس وقت سے زمینی حقائق بتا رہے ہیں جب عمران خان ایوان وزیراعظم سے نکلے تھے مگر بہت سارے لوگ انہیں گمراہ کرتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر سوشل میڈیا کے ہاتھوں یرغمال پارٹی بن کے رہ گئی ہے جس میں تجربے، عقل اور فکرو الوں بلکہ تمیز اور تہذیب والوں کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ درست ہے کہ درمیان میں کچھ ججوں نے قاضی فائز عیسیٰ کے بغض میں کچھ غیر آئینی فیصلے دے کر پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کی کوشش کی مگر وہ دھڑے بندی بھی ناکام ہوگئی۔ کامیابی صرف اس حد تک ہوئی کہ قاضی صاحب کوسسٹم سے آؤٹ کر دیا گیا مگر اس سازش کو کرنے والوں کو خود کیا ملا اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ کچھ پہلے گھر جا چکے تھے اور کچھ اب خطوط لکھ کر دل بہلا رہے ہیں۔
یہ برس جس کا اب دسمبر گزر رہا ہے، پی ٹی آئی کے لئے کافی مشکل رہا ہے۔ پہلے وہ الیکشن سے آؤٹ ہوئے اوراس کے بعد بھی سیاسی، عدالتی اورپارلیمانی ناکامیوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جیل میں بند عمران خان سمجھ رہے تھے کہ وہ دس برس پہلے کی طرح اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے اور اپنے مقاصد حاصل کر لیں گے مگر درست بات تو یہ ہے کہ وہ آج سے دس برس پہلے بھی اس دھرنے کے ذریعے کوئی سیاسی مقصد حاصل نہیں کر سکے تھے۔ اس دھرنے سے نواز شریف کو رخصت نہیں کیا جا سکا تھا بلکہ اس کے لئے ثاقب نثار کے کالے انصاف سے کام لیا گیا تھا اور اس کے بعد انتخابات میں آر ٹی ایس بٹھانا پڑا تھا۔
واپس موجودہ صورتحال پر آتے ہیں کہ ہمارے بہت سارے دوستوں کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات ہونے چاہئیں مگر جب وہ مذاکرات کا جال بچھا رہے تھے تو اس وقت پی ٹی آئی اونچی ہواؤں میں تھی۔ اب اس غبارے سے ہوا نکل چکی۔ وہ، جو کہتے تھے کہ صرف فوج یا آئی ایس آئی کے سربراہ سے ہی مذاکرات کریں گے اب وہ حکومت سے مذاکراتی کمیٹی بنائے پھر رہے ہیں مگر آگے سے کوئی واضح جواب نہیں مل رہا اور سچ تو یہ ہے کہ حکومت اب اس سانپ سے کیوں مذاکرات کرے جسے وہ گنڈویا، بناچکی ہے۔
پی ٹی آئی کی جھولی میں دو ہی کوبرے تھے ایک سوشل میڈیا اور دوسرا احتجاج، دونوں کا زہر نکالا جا چکا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو اس وقت ہوش کے ناخن لینے چاہئے تھے جب سپریم کورٹ کے ایک غیر آئینی فیصلے کے باوجود حکومت دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترامیم کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی اوراس کے بعد اہم قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے اس نے افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت تین سے بڑھا کے پانچ برس کر دی تھی مگر اس کے بعد بھی عمران خان کی ہدایت پر حماقت آمیز چڑھائیاں کی گئیں۔ جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی طرف سے نو مئی کے مجرموں کو سزائیں سنانے کی اجازت آ چکی ہے۔
نو مئی کے چھوٹے موٹے مجرموں کو پہلے ہی گوجرانوالہ اور پنڈی کی عدالتیں سزائیں سنا چکی ہیں اور اب بڑے مگرمچھوں کو سزائیں ہونے کے بعد نو مئی والا معاملہ بھی منطقی انجام پر پہنچ جائے گا۔ عمران خان کے لئے دوسری بڑی مشکل فیض حمید پر فرد جرم ہی نہیں بلکہ عمران خان کے ساتھ مل کر نو مئی برپا کرنے کا ثابت ہونا بھی ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ عمران خان کوسزائے موت ہو مگر میری جتنے بھی قانونی ماہرین سے با ت ہوئی ہے ان کے مطابق جو الزامات ہیں اور ان پر جو دفعات لگتی ہیں ان کی سزائیں عمر قید سے پھانسی تک کی ہی ہیں۔
بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا اسٹیبلشمنٹ ایک اور بھٹو پیدا کرنے جا رہی ہے تو میرا جواب یہ ہے کہ بھٹو کے پاس اس کی بے نظیر جیسی بے مثال بیٹی موجود تھی جس نے اس کا جھنڈا اٹھائے رکھا مگر عمران خان کے پاس چند فیک سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے سوا کون ہے۔ اس کی پارٹی پہلے ہی باقی جماعتوں کا کچرا جمع کرکے بنائی گئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ بدترین تنظیمی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔
یہ ظالمانہ فقرہ ہے مگر حقیقت ہے بہت قریب ہے سو مجھے معذرت کے ساتھ کہنے دیجئے کہ عمران خان کی بہت قریبی ہستیاں بھی انتظار میں ہیں کہ معاملہ ختم ہو اور وہ مالی کے ساتھ ساتھ سیاسی وراثت بھی سنبھال سکیں۔ سچ تویہ ہے کہ عمران خان نے غلطیوں پر غلطیاں ہیں۔ وہ خود کو اس بند گلی میں لے گئے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بہت سارے کہتے ہیں کہ عمران خان باہر جانے کے لئے تیار نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی عمران خان کو باہر بھیجنے کے لئے بھی تیار نہیں کیونکہ وہ نواز شریف کی طرح نہ صابر ہیں اور نہ ہی مدبر کہ وہ مشکل وقت فراست اور تحمل کے ساتھ کاٹ سکیں۔
ریاست جانتی ہے کہ عمران خان کو باہر بھیجنا امریکہ، ہندوستان اور اسرائیل جیسے دشمنوں کے ہاتھو ں میں ایک بم دینے کے مترادف ہوگا۔ میرے پاس موجود خبروں کے مطابق اس پر فیصلہ ہو چکا کہ نو مئی اور چھبیس نومبر کے واقعات پر نہ مذاکرات ہوں گے اور نہ ہی سمجھوتہ۔ ان کا فیصلہ قانون کے مطابق ہی ہوگا اوراس کے بعد ہی میں یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ سورۃ یٰسین کی تلاوت کا اہتمام کیجئے، یہ سورہ قرآن کا دل ہے اور مشکل وقت آسان کرتی ہے۔
واللہ اعلم باالصواب!