Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Taleem Ka Muqadma

Taleem Ka Muqadma

یہ پنجاب کے نوجوان فارن کوالیفائیڈ وزیرتعلیم رانا سکندر حیات کے ساتھ ان کی رہائشگاہ پر مکالمہ تھا۔ وہ گرم جوشی سے ان تمام اقدامات کے بارے بتا رہے تھے جو انہوں نے تعلیم کے مشکل ترین شعبے میں اس قلیل عرصے میں لئے۔ ان کے پاس ویڈیوز تھیں جن میں اساتذہ بتا رہے تھے کہ کئی سکولوں میں جہاں طالب علموں کی تعداد محض چالیس، پچاس تھی اب وہاں تین، چار سو سٹوڈنٹس ہوچکے۔

وہ کم طلبا و طالبات والے سکولوں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے بارے بھی پرجوش تھے کہ آدھے سکول این جی اوز کے ساتھ ان پرعزم نوجوانوں کو دئیے گئے ہیں جو واقعی انقلاب لا سکتے ہیں۔ یہ حکومتی ذمے داریوں میں کمی بھی تھی اور ان نوجوانوں پر اعتماد بھی۔ یقین کیجئے پنجاب سمیت ملک بھر میں تعلیم کا مقدمہ بہت مشکل مقدمہ ہے۔ ابھی چند ہی روز پہلے خیبرپختونخوا کے اساتذہ ایک تاریخی دھرنا دے کرمطالبات منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے ان سے ایک ماہ کا وقت لیا ہے، دُعا ہے معاملات بہتری کی طرف جائیں۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا مقدمہ بہت پیچیدہ ہے۔ ایک طرف اساتذہ ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ پچھلے آٹھ برسوں سے اساتذہ کی بھرتی نہیں ہوئی مگر ریٹائرمنٹس مسلسل ہوتی رہیں۔ جہاں چاراور چھ اساتذہ تھے وہاں ایک یا دو رہ گئے۔ جہاں پرائمری سکول کے کم از کم پانچ، چھ کمرے ہونے چاہئے تھے وہاں ایک یا دو بھی ہیں۔ اساتذہ کی یہ شکایات بھی ہیں کہ انہیں پڑھانے کے لئے ہائر کیا جاتا ہے مگر عملی طور پر وہ ڈپٹی کمشنر کے کامے بن کے رہ جاتے ہیں، الیکشن، مردم شماری، گندم کی کٹائی سے لے کرانسداد ڈینگی اور پولیو مہم تک ہر اچھا برا کام ان سے ہی کروایا جاتا ہے مگر اس کے باوجود سرکاری سکول اچھے رزلٹ دے رہے ہیں۔ ابھی میں چند روز پہلے گورنمنٹ ہائی سکول قلعہ مسیتا مریدکے، کے سٹوڈنٹ کی ویڈیو دیکھ رہا تھا۔

کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ لاہور بورڈ میں جماعت نہم کے امتحان میں گورنمنٹ سکول کا طالب سو فیصد یعنی 505 میں سے505 نمبر حاصل کر سکتا ہے، یہی نہیں 504اور503 نمبروں کا اعزاز بھی اسی سکول کے پاس ہے۔ اس سے پہلے میٹرک کے نتائج میں بھی سرکاری سکولوں کے اساتذہ نے خوب داد سمیٹی تھی۔ اب اساتذہ کا دعویٰ ہے کہ حکومت صرف ٹیچرز اور کمروں کی تعداد پوری کردے جو کہ اس کی آئینی، سماجی اور اخلاقی ذمے داری بھی ہے تووہ بہترین نتائج دے سکتے ہیں۔

اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں جناب مزمل محمود کی وکالت کے بعد پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی حمایت کرتا ہوں کہ حکومتی بوجھ جتنا بھی کم ہو اتنا ہی بہتر ہے۔ حکومت ایک سٹوڈنٹ پر تین ہزار روپے خرچ کرتی ہے مگر وہ پیف، پیما اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے کسی بھی ماڈل سے اس سے کہیں کم خرچ کے ساتھ بہتر نتائج لے سکتی ہے۔

اگر میں وزیرتعلیم یا کسی بیوروکریٹ سے پوچھوں کہ کیا ایک لاکھ روپے کے ارد گرد تنخواہ کیسی ہیں تو یقینی طور پر وہ کہیں گے کہ ایک استاد کے لئے بہت اچھی ہے لیکن ان کے اپنے لئے یہ واقعی بہت کم ہوگی مگر یہاں بھی اساتذہ کا مقدمہ ہے کہ ان کے موسٹ سینئر اساتذہ کو اب یہ تنخواہیں نہیں ملیں گی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سکول پانچ سے دس ہزارروپوں کے درمیان تنخواہ دے رہے ہیں۔

مجھے وزیر تعلیم کو سراہنا ہے کہ انہوں نے فی سٹوڈنٹ سابق ادوار کا ساڑھے چھ سو کا معاوضہ بارہ سو روپے کر دیا ہے اور بہترین کارکردگی کے ساتھ اٹھارہ سو روپے۔ نئے ضوابط کے تحت یہ تنخواہ بیس ہزار سے کم نہیں ہوگی (حالانکہ پنجاب کی کم از کم اجرت بھی سینتیس ہزا ر روپے ہے) لیکن کیا یہ ایسا ماہانہ معاوضہ ہے جس کے خواب دیکھے جا سکیں، میں ایسا نہیں سمجھتا۔ حکومت کو فائدہ یہ ہوگا کہ اس کا ٹیچرز کی یونین سے بھی جان چھوٹ جائے گی کہ دس، بیس ہزار روپے لینے والے نجی مالک کے ملازم کیا یونین بنائیں گے۔

میرے بس میں ہو تو میں ہر ٹیچر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے کر دوں مگر یہ بات کالم میں ہی لکھی جا سکتی ہے، سوشل میڈیا پر ہی کی جا سکتی ہے۔ اساتذہ کا ایک دوسرا بہت بڑا مسئلہ ان چودہ ہزار ایجوکیٹرز کا ہے جو طویل عرصے سے اپنی کنفرمیشن کے لئے دربدر پھر رہے ہیں۔ میں نے ان کے ایوان وزیراعلیٰ مال روڈ سے سیکرٹریٹ اور زمان پارک تک سب دھرنے اور احتجاج خود دیکھے ہیں۔ ہر حکومت جاتے ہوئے انہیں لالی پاپ دیتی ہے کہ مستقل کر دے گی مگر اس کے بعد معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوجاتا ہے۔

ایک معاملہ ٹی این اے، کا بھی ہے جو اساتذہ کی قابلیت جانچنے کے لئے لیا گیا اور اساتذہ کی بڑی تعداد نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ اب یہ مقدمہ بھی بہت مشکل ہے۔ عمومی سوچ یہی ہے کہ سرکاری سکولوں کے ٹیچرز کو اپنی قابلیت بڑھانی بھی چاہئے اور ثابت بھی کرنی چاہئے مگر ان کا موقف بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ کیا پولیس اور افسرشاہی سمیت باقی جگہوں پر بھی ایسے ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ دوسرے، یہ تمام ٹیچرز اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور این ٹی ایس کلئیر کرکے آئے ہوئے ہیں، کیا سرکار پیف، پیما اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ٹیچرز سے بھی یہ امتحان لیتی ہے جن کی اکثریت ایف اے، بی اے بھی نہیں۔

میں نے وزیرتعلیم رانا سکندر حیات کی رہائش گاہ پر پرتکلف ڈنر اڑاتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا کہ ٹی این اے ٹیسٹ ہو یا دیگر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ۔ جن اساتذہ رہنماؤں کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا ہے اس فیصلے کو واپس لیں کہ رانا لیاقت ہوں یا کاشف شہزاد چوہدری، یہ ہمیشہ سے تعمیری سیاست کے حامی رہے ہیں۔ وزارت ہمیشہ نہیں رہتی کہ کیا خود کو عقل کل سمجھنے والا مراد راس آج وزیر ہے۔ یونین رہنماؤں نے شکوہ کیا کہ کچھ ٹیچرز نے ان کے ساتھ بے ہودگی کی ہے اور بات فیملیز تک پہنچی ہے۔ میں یقینی طور پر گندی زبان کے استعمال کے سخت مخالف ہوں اور میرے خیال میں جن ٹیچرز نے غلاظت بکی ہے ان کو شوکاز نوٹس بھی ہونے چاہئیں اور ان سے معذرت بھی طلب کی جانی چاہئے مگر ا سکے باوجود ٹرمینیشن بہت بڑی سزا ہے جو نامناسب ہے۔

یہ تمام معاملات اپنی جگہ پر مگر میں رانا سکندر حیات کے ساتھ ہوں کیونکہ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں جیسے انہوں نے سکول نیوٹریشن پروگرام کا آغاز کیا، آوٹ آف سکول بچوں کو سکولوں میں لانے کے لئے سالانہ بیس لاکھ بچوں کا ہدف مقرر کیا، سکولوں میں مسنگ فیسیلیٹیز کے لئے ضلعی کمیٹیاں قائم کیں، سکولوں کی آپ گریڈیشن کا عمل شروع کیا، اساتذہ کو رشوت اور سفارش کے بغیر ای ٹرانسفر کی سہولت فراہم کی، بوٹی مافیا کے خلاف آپریشن کیا، سی ای اوز لگنے کے خواہشمندوں کا ٹیسٹ بھی ہوا اورمیرٹ پر چناو بھی اور اسی طرح وائس چانسلرز کی میرٹ پر سلیکشن۔ وہ کامرس کالجز کو ای کامرس کے جدید اداروں میں بدلنے جا رہے ہیں، مارچ سے میٹرک ٹیک شروع ہو رہا ہے جو واقعی شاندار ہے، انقلابی ہے۔