Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Tauba Astaghfar Kijiye

Tauba Astaghfar Kijiye

مجھے حیرت ہوئی کہ ٹوئیٹر پر ملک کولاک ڈاؤن کرنے کے ٹاپ ٹرینڈ کے باوجودوزیراعظم عمران خان نے اس کے برعکس ایک مشکل اور بہادرانہ سٹینڈ لیا کہ وہ ملک کے ان غریبوں کاخیال رکھیں گے جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور ریاست ان کی ضرورتیں پوری کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ عمران خان مشکل فیصلے لینے کی شہرت ضرور رکھتے ہیں مگر وہ سوشل میڈیا ٹرینڈز کے خلاف جائیں، یہ ان کے لئے ایک زیادہ مشکل کام تھا۔ کورونا عمران خان کو دو قسم کے چیلنجز دے رہا تھا، پہلا چیلنج صحت کے حوالے سے ہے مگر اس کے اندر ایک دوسرا چیلنج بھی چھپا ہوا ہے جس کا تعلق معیشت سے ہے مگر پھر وہی ہوا کہ ہمارے وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھریوٹرن لے لیا، ان کے لگائے ہوئے وسیم اکرم پلس نے اپنے ہی کپتان کی وکٹیں اڑا دیں۔

کورونا کے حوالے سے دو واضح امکانات موجود ہیں۔ ایک امکان یہ ہے اگلے پندرہ سے بیس دنوں میں مریضوں کا ایک سیلاب آئے گا اور دوسرا امکان یہ ہے کہ اپریل میں گرمی بڑھتے ہی اس وبا کا ڈاون فال شروع ہوجائے گا یعنی جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں ہمارے مریضوں کی تعدادایک ہزار سے بھی کم ہے مگر ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے کہ اسے بہت آسانی کے ساتھ پانچ، دس کے ساتھ ضرب دی جا سکتی ہے یا عین ممکن ہے کہ سو کے ساتھ۔ کیا میرے رب نے عمران خان کے سامنے اس کایہ بول بھی رکھ دیا ہے جب وہ اپنے مخالفین کی حکو مت کے دوران انتہائی تکبر اور نفرت کے عالم میں ایک کے بعد دوسرا شہر لاک ڈاو ن کرنے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے اگرچہ تب وہ کر نہیں پاتے تھے۔

سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے ہٹ کر، عمران خان کا اندیشہ اور استعمال کیا گیا لفظ بالکل درست تھا کہ اگر لاک ڈاون کیا گیا تو اس کے نتیجے میں ایسی افراتفری پیدا ہوگی جسے سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ پہلے صرف سندھ نے پندرہ روز کے لئے ایک نرم قسم کالاک ڈاون کا اعلان کیا جس میں اشیائے ضروریہ کی دکانیں کھلی رکھنے کی اجازت دی گئی تو ایسے میں ہی ہمارے بہت سارے اداروں میں تنخواہوں کے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ اس کی مثال یوں لیجئے کہ ایک پائپ تیار کرنے کی فیکٹری ہے اور اگر وہ پائپ ہی تیار نہیں کرے گی، اس مارکیٹ میں نہیں بھیجے گی تو اس کا مالک مزدوروں کو تنخواہیں اپنی جیب سے کیسے دے گا۔ ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں غریب سے زیادہ امیر خوفزدہ ہے۔ وہ چاہے گاکہ مزدوروں کو مفت میں ادائیگیاں کرنے کی بجائے اپنی تجوری میں پیسے رکھ لے تاکہ مشکل وقت میں کام آسکیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ہمارے بہت سارے تاجر اب مزدورو ں کی تنخواہ روک لیں گے کہ جب کام ہی نہیں کیا تو تنخواہ کیسی؟

ہمارے بہت سارے مخیر حضرات و خواتین نے پیغامات ارسال کرنے شروع کر دئیے ہیں کہ وہ لاک ڈاون کے دوران مزدوری سے محروم رہ جانے والے گھروں میں راشن فراہم کریں گے مگر ایک بات لکھ لیجئے کہ خیرات کبھی روزگار کا متبادل نہیں ہوتی۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا کہ ہم اس وقت مالی امداد دینے کا دنیا کا ایک بہت بڑا نظام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں چلا رہے ہیں مگر ہم اس میں غریبوں کو کیا دیتے ہیں، مہینے بعدبمشکل دو ہزار روپے، کیا آپ ان چودہ دنوں میں اپنے حجم میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بڑا اور مستعد نظام دے سکیں گے، یہ بات دیوانے کی بڑ لگتی ہے۔

میں آپ کو پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ کورونا نے تھوڑی یا زیادہ تباہی کے بعد چلے جانا ہے لیکن جب اس دوران خوف کے عالم میں فیکٹریاں اور دفاتر بند کر دئیے گئے، ، تعمیراتی کام روک دئیے گئے تو اس لاک ڈاون یا سلو ڈاون کا معاشی نتیجہ اگلے دو سے تین ماہ میں سامنے آئے گا جب بیشتر اداروں کی طرف سے ہر طرح کی ادائیگیاں روک دی جائیں گی اور پھر یہ برس ہا برس آپ کے ساتھ چلے گا، چلیں، سمجھنے کے لئے آپ ایک بہت بڑے ادارے ریلوے کی مثال لے لیجئے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو ترقی کی طرف گامزن تھا مگر ریلوے ملازمین بتاتے ہیں کہ تبدیلی سرکار آنے کے بعد گذشتہ برس جنوری ( یعنی جنوری 2019 ) سے اب تک ریٹائر ہونے والے ملازمین کو ان کے واجبات نہیں ملے۔ یہ وہ واجبات ہوتے ہیں جن کے حوالے سے عمر بھر کسی بھی ادارے کی خدمت کرنے والے گھروں کی تعمیر سے بیٹیوں کی شادیوں تک بڑی بڑی منصوبہ بندیاں کرتے ہیں تو جب ریلوے مزید ٹرینیں بند کر رہا اور اربوں روپوں کے اضافی خسارے کی نوید سنا رہا ہے تو کیا ایسے میں یہ ممکن رہے گا کہ تنخواہیں بھی بروقت ادا کی جا سکیں۔ بھوک اوربے چارگی کا یہ المیہ اس وقت جنم لے گا جب صحت اورزندگی کے حوالے سے کرونا نامی المیہ اپنی موت آپ مر چکا ہو گا۔

اس کو مزید یوں سمجھئے کہ ایک صحافی ہونے کے باوجود وبا آنے کے بعد اور لاک ڈاون سے پہلے میرے گاڑی میں پٹرول کا استعمال آدھا رہ گیا ہے جس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ میں پٹرول کے ہر لیٹر پر جو چالیس، پینتالیس روپے ٹیکس ادا کر رہا تھا، وہاں حکومت کی آمدن بھی آدھی رہ گئی۔ ہمیں کرونا آنے سے پہلے ہی بجٹ میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے شارٹ فال کا سامنا تھا اور اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت کے لئے مئی اور جون میں بجٹ بنانا کتنا دشوار ہوجائے گا۔ مسلم لیگ نون پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ خان میرے ساتھ ایک انٹرویو میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ یہ حکومت بجٹ کے موقعے پر ڈھیر ہوجائے گی۔ لاک ڈاون کے مشورے جناب بلاول بھٹو زرداری اور جناب شہباز شریف کی طرف سے آ رہے تھے بلکہ بلاول نے سندھ حکومت کواس انتہائی اقدام پر مجبور کر دیا تھا۔ اس وقت حالات اپوزیشن کے لئے دونوں صورتوں میں سازگار ہیں یعنی لاک ڈاون سے ملکی معیشت کا بھٹہ پوری طرح بیٹھے گا تو حکومت کی نااہلی اور نحوست پر وہ افراتفری مچے گی کہ اس کے نتائج کا بھی اندازہ نہیں کیا جا سکتا اور اگر لاک ڈاون نہ کیا جاتا اور خدانخواستہ مریضوں کی تعداد میں پانچ سے دس گنا بھی اضافہ ہوجاتا تو بھی حکومت کی نااہلی پر مہر تصدیق ثبت کردی جاتی، شور مچایا جاتا کہ ہم نے کہا تھا کہ لاک ڈاون کر دو تو اس مرض سے بچ سکتے ہو۔ ہمارے کچھ دوست کہتے ہیں کہ وبا کے لئے اللہ پر بھروسہ کرتے ہو تو رزق کے لئے کیوں نہیں کرتے یعنی اللہ پورا کر دے گا اور میں اسے فقرے کو الٹ کر دیتا ہوں کہ جب رزق کے لئے اللہ پر بھروسا کرتے ہو تو وبا کے لئے نہیں کرتے بلکہ اصل معاملہ تو یہ ہے کہ وبا ہو یا رزق، عزت ہویا ذلت، زندگی ہو یا موت اپنی کوششوں کے بعد اللہ ہی پربھروسہ کرنا چاہئے۔

گذشتہ دنوں ایک بحث ہوئی جس میں بعض دوستوں نے کہا کہ جس معاشرے یا ادارے میں زنا بڑھ جائے وہ تباہ ہوجاتا ہے، سب کا اس پر اتفاق رائے تھا مگر ایک دوسری رائے نے اس بڑے گناہ کودوسرے نمبر پر پہنچا دیا، کہا گیا، جس شخص یا ادارے میں بڑائی اورتکبر ہو اس کی تباہی زنا والے معاشرے سے بھی زیادہ تیزی اور شدت کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہم نے موجودہ قیادت میں جس تکبر، انا، غرور، نخوت اور نفرت کو دیکھا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ میرا رب تکبر میں کہی گئی ہر بات اور کئے گئے ہر دعوے کو پلٹ کر منہ پر مار رہا ہے۔ یہ تکبر وہ شے ہے جس نے ہزاروں برس تک سجدے کرنے والے کو راندہ درگاہ بنا دیا تھا۔ کوششیں ضرور کیجئے کہ قرآن کے مطابق انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ کثرت سے، بآواز بلند توبہ استغفار کیجئے، یہ ہم سب کے لئے وقت ِدُعا ہے۔