2024ء شہباز شریف کاسال تھا اور2025ء میں بھی یہی منظرنامہ نمایاں لگ رہا ہے۔ جب دو ہزار چوبیس، کا آغازہوا تو سیاسی اور معاشی طور پر انتہائی بے یقینی کی فضا تھی۔ بہت سارے کہہ رہے تھے کہ اس برس بھی انتخابات نہیں ہوں گے اور دوسری طرف پاکستان کے لئے ڈیفالٹ کے خطرات بھی انتہائی سطح پر تھے۔ بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے بھی ریاست اور ریاست سے محبت کرنے والوں کو ڈرایا جا رہا تھا کہ وہ جیل سے باہر آنے والے ہیں۔ ہر روز ان کی رہائی کے حوالے سے ایک نئی تاریخ دی جا رہی تھی مگر عملی طور پر یہ ہوا کہ وہ اپنے اوپر عائد الزامات کا عدالتوں میں دفاع کرسکے اور نہ ہی بے گناہی ثابت سو حکومت کا بدترین مخالف پورے برس جیل میں رہا۔
پی ٹی آئی آٹھ فروری کا الیکشن بھی ہاری اور اس کے بعد وہ دیگر سیاسی جماعتوں (جیسے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم) کے ساتھ مفاہمانہ ماحول بنانے کی صلاحیت کامظاہرہ بھی نہ کرسکی جس کے نتیجے میں اس کی حکومت کے امکانات بن سکتے تھے۔ نتیجہ یہ تھا کہ شہباز شریف پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم بن گئے جوعہدہ چھوڑکر، انتخابات کے بعد مسلسل دوسری بار عین آئینی، جمہوری طریقے سے ایوان وزیراعظم پہنچے۔ شہباز شریف کی کامیابیوں کا سفر اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب انہوں نے اپنے والد کی طرح محترم بڑے بھائی نواز شریف اوربیٹیوں کی طرح عزیز بھتیجی مریم نواز کو جیل سے رہائی دلائی تھی اور دوسرا اہم ترین مرحلہ اڑھائی، پونے تین برس پہلے تحریک عدم اعتماد کی آئینی، جمہوری کامیابی تھی۔
میں ستارہ شناس نہیں ہوں مگر بطور صحافی اور تجزیہ کار میرے ہاتھ سیاست کی نبض پر ضرور ہیں۔ پاکستان میں کسی بھی حکومت کے تسلسل کی د و بنیادی ضرورتیں ہیں، پہلی یہ کہ وہ اپنی کارکردگی کے ساتھ عوام میں اعتمادبرقرار اور دوسرے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر رکھے۔ شہباز شریف انہی دونوں میں کامیاب رہے مگر اہمیت کارکردگی کی زیادہ ہے ورنہ آر ٹی ایس بٹھا کے آنے والے واپس نہ ہوتے جن کی نااہلی کی وجہ سے چین، سعودیہ، یو اے ای اور ترکی جیسے تمام دوست ناراض تھے اور ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار۔
اسی دوران پی ٹی آئی نے اپنی بیرون ملک تنظیموں اور لابنگ فرموں کے ذریعے انتہائی کوشش کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے بیل آوٹ پیکج نہ ملیں، خطوط بھی لکھے اور مظاہرے بھی کئے مگر یہ وزیراعظم شہباز شریف کی بڑی کامیابی تھی کہ پہلے آئی ایم ایف کا پیکج ملا اور پھر وہ اس کارکردگی پر حیران رہ گیا جیسے سٹاک مارکیٹ کا دوگنا ہوجانا، مالیاتی خسارہ ختم ہوجانا، شرح سود کا بائیس سے تیرہ فیصد پر آجانا، افرا ط زر کا اڑتیس سے چار فیصد ہوجانا۔
یہ سب غیر معمولی تھا، حیران کن تھا اور ناقابل یقین تھا مگر یہ سب شہباز شریف کی محنت، دیانت اور لگن نے ہی کرکے دکھایا تھا۔ جدید دور میں ریاستوں کی کامیابیاں ان کی فوجی سے کہیں زیادہ معاشی کامیابیاں ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں ضروری ہے کہ اس کے لئے سیاسی حکومت کا فوج جیسے ادارے کے ساتھ بہتر بلکہ بہترین تعلق ہوکیونکہ یہ سیاسی استحکام دیتا ہے اور اسی سے معاشی استحکام آتا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں ایک اور ادارے عدلیہ کی بڑی اہمیت ہے جو سیاسی منظرناموں کو اسٹیبلشمنٹ ہی کی طرح متاثر کرتا ہے۔ ماضی میں یہ ہوتا رہا کہ فوج اور عدلیہ مل کر عدم استحکام پیدا کرتے رہے، ایک ادارہ مارشل لاء لگاتا رہا تو دوسرا اس کو جائزیت عطا کرتا رہا مگر اب فوج نے سوچ بدلی ہے اور ان ججوں کو بھی ناکامی ملی ہے جو اس دھڑے میں تھے جو وزیراعظموں کو گھر بھیجتا رہا اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا کھل ڈُل کے مخالف رہا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ حکومت کو گھر بھیجنے کی اہلیت، صلاحیت، بلکہ نیت، رکھنے والے ججوں کو گھر جانا پڑا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے ایک جج صاحب چیف جسٹس آف پاکستان بننے والے تھے۔ یہ شہباز شریف کی خوش قسمتی رہی کہ ان کا ساتھ جنرل عاصم منیر جیسے پروفیشنل فوجی ہی نہیں بلکہ قاضی فائز عیسی جیسے آئین کے پابند، دیانتدار اور جراتمند چیف جسٹس سے رہا۔ شہباز شریف پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے حصول میں کامیاب رہے اور چھبیسویں آئینی ترمیم نے چیف جسٹس کی تقرری سے آئینی مقدمات کی سماعت تک کے طریقہ کار کو بدل کے رکھ دیا، بلاشبہ یہ آئینی، سیاسی اور جمہوری حکومت کی بڑی کامیابی ہے جس کے اثرات دیر تک محسوس ہوتے رہیں گے۔ بعدازاں حکومت نے بری، بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت بھی تین سے بڑھا کے پانچ برس کر دی جس سے یقینی طور پر تبدیلی، کے خواہشمند مایوس ہوئے، ناکام ہوئے۔
سچ پوچھیں تو پی ٹی آئی سے سیاسی میدان میں اصل مقابلہ مسلم لیگ نون سے ہی ہے۔ پیپلزپارٹی اس کی اتحادی ہونے کے اشارے دیتی رہی ہے۔ اس پورے برس پی ٹی آئی نے احتجاج کی جتنی کالز دیں وہ سب ناکام ہوئیں۔ انہیں اسلام آباد کے مقام سنگ جانی اور لاہور کے علاقے کاہنہ میں جلسوں کی اجازتیں بھی دی گئیں مگر وہ کسی بھی جگہ پانچ، سات ہزار سے زیادہ لوگ جمع نہ کرسکے۔ پی ٹی آئی نے دس برس پہلے کی روایت پر عمل کرتے ہوئے ایس سی او کانفرنس سبوتاژ اور چینی وزیراعظم کے دورہ رکوانے کی بھی کوششیں کیں مگر بری طرح ناکام رہی۔
پی ٹی آئی نے اپنے بانی کی رہائی کے لئے فائنل کال بھی دی مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی ڈی چوک سے اپنے کارکنوں ہی نہیں بلکہ سازو سامان تک چھوڑ کر وہاں سے ایسے فرار ہوئے کہ اگلے روز ہی اپنے حکومتی علاقے میں نمودار ہوسکے۔ حالات یہ ہیں کہ اکتوبر 2011ء سے لے کر اب تک سیاسی اور جمہوری قوتوں سے مذاکرات سے انکا ر کرنے والی پی ٹی آئی مذاکرات کی بھیک مانگنے پر آ گئی ہے۔ اس پورے برس میں فتنے کے خلاف محسن نقوی اور عطاء اللہ تارڑ کی کارکردگی حیران کن رہی۔
میں نے کہاکہ میں ستارہ شناس نہیں مگر تجزیہ کار ضرور ہوں اور میرا کہنا ہے کہ گزرے ہوئے دوبرس شہباز شریف کے ایک عظیم پاکستان کے بنیاد رکھنے کے تھے جس میں وہ کامیاب رہے۔ کمال یہ ہے کہ شہباز شریف نے حکومتی اتحادیوں کو بھی مطمئن رکھا۔ فوج ہر دور میں ایک جدید پاکستان چاہتی رہی ہے جیسے وہ خود اپنے وجود میں سٹیٹ آف دی آرٹ اوراس کے ادارے پروفیشنل، شانداراور کامیاب ہیں۔
میرا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے تمام عوام سے لے کر صنعت کاروں ہی نہیں بلکہ فیصلہ سازوں تک کو شہباز شریف کی قیادت اور مینجمنٹ ہی سُوٹ، کرتی ہے۔ وزیراعظم نے جس طرح اُڑان پاکستان کی تقریب میں کہا کہ یہ پارٹنر شپ ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے ہے۔ ان دوبرسوں کی جمع تفریق کر لیجئے، آپ اتفاق کریں گے کہ اگر معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو2025ء شہباز شریف اور پاکستان دونوں کے لئے ہی بہت بڑی کامیابیوں کا سال ہوگا، انشاء اللہ!