Tuesday, 07 January 2025
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Ehtejaj Karna Gunah Kyun?

Ehtejaj Karna Gunah Kyun?

یہ خودکریں توماشاء اللہ وسبحان اللہ لیکن وہی کام اگر کوئی دوسرے کریں تو ان کی جانب سے پھر استغفراللہ۔ اسی منافقت اور دوغلے پن نے تو انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ورنہ کچھ عزت اورشہرت توان کی بھی تھی۔ ویسے یہ خودظالم، سنگدل اوردوغلے نہ ہوتے تویہ غریب کارکنوں کوڈی چوک میں چھوڑکررات کی تاریکی میں اس طرح الٹے پاؤں کبھی نہ بھاگتے۔ خود تو انہوں نے اپنی زندگی، حکومت اور اقتدار میں احتجاج، جلسوں، جلوس اور دھرنوں کے سواکچھ کیانہیں۔ ان کی توسیاست ہی احتجاج سے شروع ہوکراحتجاج پرختم ہوتی ہے۔

سیاستدان تب احتجاج کرتے ہیں جب یہ اپوزیشن میں ہوں لیکن انہوں نے توسیاستدانوں کی یہ تاریخ اورروایت بھی اپنی روزروزکے دھرنوں یادھرنیوں اورڈرامہ احتجاج سے منوں مٹی تلے دفن کردی ہے۔ انہوں نے حکومت میں ہوکراس ملک میں اتنے احتجاجی ڈرامے ریکارڈ کئے ہیں کہ اتنے ماضی میں اپوزیشن جماعتوں اورسیاستدانوں نے بھی نہیں کئے ہوں گے۔ بچوں کے تاریخی ڈرامے عینک والاجن کی بھی اتنی قسطیں نہیں چلی ہوں گی جتنی انہوں نے اپنے احتجاجی ڈرامے کی اقساط چلائیں۔ اگریہ کہاجائے کہ کپتان کی گرفتاری کے بعدقوم یوتھ کے تو شب وروزہی احتجاج میں گزرے توبے جانہ ہوگا۔

عام انتخابات کے بعد تو کوئی ایسا دن، ہفتہ اورمہینہ نہیں گزراجس میں یوتھیوں کی جانب سے احتجاج نہ کیاگیاہو۔ وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کے نام پراپنے لاؤلشکرسمیت انہوں نے اسلام آبادپرایک نہیں کئی بارچڑھائی کی۔ اسلام آباد پر چڑھائی سمیت پی ٹی آئی کاوفاقی حکومت کے خلاف ہر احتجاج، جلسہ، جلوس، مظاہرہ اور دھرنا جائز اور صحیح تھا۔ کل تک یہ دوسروں کے سامنے جلسوں، جلوس، احتجاج اوردھرنوں کے فضائل بیان کررہے تھے۔

ان کے ہاں کل تک احتجاج اور دھرنے نہ صرف جمہوری حق اور جمہوریت کاحسن تھے بلکہ یہ ہرشہری کا آئینی، قانونی، اخلاقی اورشرعی حق بھی سمجھاجارہاتھالیکن جب ان کے اپنے صوبے میں ان کے اپنے بلدیاتی نمائندگان اپنے حق کے لئے ان کے خلاف احتجاج کے لئے نکل پڑے تواحتجاج اوردھرنوں کی فضیلت پربھاشن دینے والے یوتھیوں کے یہ سرداراورحکمران سب کچھ ایک ہی لمحے میں بھول گئے اورپھران کے ہاں وہی احتجاج اوردھرنے جن کے کرنے پرپہلے حدسے بھی زیادہ ثواب ملاکرتاتھاوہ اچانک گناہ اور جرم بن گئے۔

خیبرپختونحواکے بلدیاتی ممبران پرپشاورمیں لاٹھی چارج، آنسوگیس کی شیلنگ اورگرفتاریاں یہ صرف افسوسناک ہی نہیں بلکہ احتجاج کوجمہوریت کاحسن اورہرشہری کا حق قراردینے والوں کے منہ پر ایک زورد ارطمانچہ بھی ہے۔ عوامی مسائل اورحقوق کے لئے احتجاج کرنے والے غریب بلدیاتی ممبران پرلاٹھی چارج اورپولیس فورس کے ذریعے دھاوابولنے والوں کو اس ظلم سے پہلے ایک بار اپنے گریبان میں بھی جھانکناچاہئیے تھا۔

صوبائی حکومت کااپنے کپتان یاپارٹی کے لئے احتجاج کرنااگرجائزاورصحیح ہے توپھرصوبے کے ان بلدیاتی ممبران جن کوکئی سالوں سے ترقیاتی فنڈزہی نہیں ملے۔ اب ان کا اپنے جائزحقوق کے لئے احتجاج کرنا کیسے غلط اور ناجائز ہوگیا؟ صوبائی حکمرانوں کوبلدیاتی ممبران پر لاٹھی چارج، شیلنگ اورطاقت کااستعمال کرنے کے بجائے بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز اور اختیارات دینے چاہئیں۔

بلدیاتی نظام کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح پرمنتقلی کے ڈھول تواٹھتے بیٹھتے اورچلتے پھرتے یہ بجارہے تھے۔ یہ اعلان اورفرمان توان کاہی تھاکہ بلدیاتی نظام کے ذریعے اختیار اور اقتدار عوام تک منتقل کیاجائے گا۔ اب یہ کیسا اختیار، کونسا اقتدار اور کیسا نظام ہے کہ کئی سال گزرنے کے بعد صوبے میں بلدیاتی ممبران کوابھی تک ترقیاتی فنڈز بھی نہیں ملے۔ کیا اختیاراوراقتداراس کوکہتے ہیں کہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے بلدیاتی ممبران آج بھی ترقیاتی فنڈزکے لئے ترس اورتڑپ رہے ہیں۔ جس طرح ایم پی ایز، ایم این ایز، وزیروں، مشیروں اور وزیراعلیٰ کو لوگوں نے ووٹ ملک کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کے لئے دئیے ہیں اسی طرح بلدیاتی ممبران اورنمائندگان کوبھی لوگوں نے ووٹ اپنے مسائل کے حل کے لئے دیئے ہیں۔

صوبائی حکمرانوں کوتوعوام کااحساس اورپاس نہیں اورووٹرز، سپورٹرسمیت عام آدمی کی ان تک پہنچ بھی نہیں لیکن بلدیاتی ممبران کا تو ہر وقت ووٹروں سے آمنا سامنا رہتا ہے۔ وزیروں، مشیروں او روزیراعلیٰ تک لوگوں کی پہنچ دوربہت دورہے۔ یہ سنگ مرمرسے بنے ایسے محلات میں رہتے ہیں کہ جہاں عام آدمی کے پہنچنے کاسوال بھی پیدانہیں ہوتا۔ بلدیاتی ممبران کوتوجن لوگوں نے ووٹ دیئے وہ روزانہ ان سے اپنے مسائل کے بارے میں پوچھتے ہیں کیونکہ ان بدقسمت ممبران کاتواٹھنابیٹھناہی اپنے ووڑوں، سپورٹروں اورعوام میں ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ حکومت ہی اگران ممبران کوکچھ نہ دے تویہ ممبران خودسے عوام اوراپنے ووٹروں کے لئے کیاکرسکتے ہیں؟ عوامی مسائل کاحل اگران کے ہاتھ اوربس میں ہوتاتوکیایہ الیکشن لڑتے؟ انتخاب ہی توانہوں نے اس لئے لڑاہے کہ ممبربن کریہ سرکارکے ذریعے لوگوں کی کچھ خدمت کرسکیں۔ اب سرکارکااگریہ حال ہے توخودسوچیں نچلی سطح پرعوام کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ باقی صوبوں میں عوام بلدیاتی نظام کے ذریعے میٹرواورموٹروں تک پہنچ گئے اورایک ہم ہیں کہ ہمارے بلدیاتی ممبران آج بھی سرکارکے دروازے پرکھڑے ہوکرفنڈزکی فراہمی کے لئے رونارورہے ہیں۔ جس صوبے میں عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے بلدیاتی ممبران کایہ حال ہے اب خوداندازہ لگالیں کہ وہاں عوام کا کیا حال ہوگا۔

ایم پی ایز، وزیروں اورمشیروں کوخوش کرنے کے لئے فنڈوپیسے ہیں لیکن غریب عوام اوربدقسمت بلدیاتی ممبران کے لئے سرکارکے پاس فنڈنہیں۔ جب تک بلدیاتی ممبران کوفنڈزاوراختیارات نہیں دیئے جاتے تب تک اس صوبے میں بلدیاتی نظام مضبوط اورفعال نہیں ہوگااورجب بلدیاتی نظام ہی مضبوط اورفعال نہ ہوتوتب تک ترقی اورعوامی خوشحالی کے خواب دیکھنے کاکوئی فائدہ نہیں۔

پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کوبلدیاتی ممبران پرچڑھائی کرنے کے بجائے انہیں مساوی طورپرترقیاتی فنڈزدینے چاہیئے کیونکہ بلدیاتی ممبران کوفنڈجاری کرنے سے ہی ترقی اورتبدیلی کاخواب پوراہوگا۔ پی ٹی آئی کے نادان حکمران اپنے حق کے لئے ہونے والے احتجاج کوجرم اورگناہ نہ بنائیں۔ اپنے حق کے لئے لڑنااوراحتجاج کرنااگرجرم اورگناہ ہے توپھربلدیاتی ممبران سے بڑے مجرم اورگناہ گارپی ٹی آئی والے خودہیں۔