ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936 کو ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے، پوری دنیا خصوصاً عالم اسلام میں اپنی بصیرت و بصارت کا سونا بکھیر کر 10 اکتوبر 2021 کی صبح مانند آفتاب کے غروب ہوگئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان محب وطن اور محب اسلام تھے وہ درویش صفت انسان تھے ان کے بارے میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ڈاکٹر عبدالقدیر بظاہر سائنسدان لیکن وہ اللہ کے ولی تھے، ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا، سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے پابندیاں لگانا افسوس ناک ہے۔
اپنی نظر بندی اور بیٹی عائشہ سے ملاقات پر پابندی لگائی جانے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کربناک دن گزارے، شدید دباؤ اور دکھ کی کیفیت میں مبتلا رہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنی رہائش گاہ پر کتابیں پڑھنے اور ٹیلی وژن دیکھنے کی اجازت تھی لیکن ڈاکٹر قدیر خان اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دینی کتب پڑھتے، تفاسیر، احادیث اور فقہی علوم اور قرآن پاک کی تلاوت کرکے ذہنی سکون حاصل کرتے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو شعر و ادب سے بھی گہرا لگاؤ تھا، انھیں شاعروں میں علامہ اقبال، غالب، جگر اور دوسرے کئی شعرا پسند تھے جن کے اشعار انھیں ازبر تھے، انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ میرے گھر کا ماحول ادبی و علمی تھا۔
"عالمی ڈائجسٹ" کے ایڈیٹر انچیف جلیس سلاسل نے ڈاکٹر خان کا خصوصی انٹرویو کیا تھا، جو ستمبر 1984 کے شمارے میں شایع ہوا، ڈاکٹر صاحب کے حالات زندگی کو جاننے کے لیے اسی انٹرویو سے تھوڑی سی معلومات اپنے قارئین کے لیے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ 1952میں ہائی اسکول پاس کیا اور اسی سال کھوکھرا پار کے راستے پاکستان چلا آیا، اس سفر میں تقریباً 8 میل کا سفر پیدل ننگے پاؤں جلتی ریت میں طے کیا، اجمیر شریف سے مونا باؤ تک ریل کے سفر میں ہندوستانی افسروں اور پولیس والوں کے ہاتھوں جو اذیت اور ذلت اٹھانی پڑی وہ تاحیات یاد رہے گی۔ اس وقت ان ظالموں کو اور نہ ڈاکٹر صاحب کو معلوم تھا کہ وہ آنے والے وقت میں ڈیفنڈر آف پاکستان کا کردار ادا کریں گے۔ پوری دنیا میں ان کا نام روشن ہوگا اور اس ملک کو جو لاالہ الا اللہ کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اسے ایٹمی طاقت بخشیں گے۔
قائد اعظم رائٹرز گلڈز کے ادبی پروگراموں میں کئی بار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے شرکت کی، تقسیم ایوارڈ کے موقع پر ان کی آمد ہم سب ادبا و شعرا، ناقدین و محققین کے لیے باعث فخر تھی، ان کے ہاتھوں سے ہم نے ایوارڈ وصول کیا۔ میرے ناول "سربازار رقصاں " پر مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایوارڈ سے نوازا۔ یہ محفل پروقار تھی اور ہر ایوارڈ یافتہ شخص کی خوشی دیدنی تھی، اس تقریب کا مکمل کریڈٹ جلیس سلاسل صاحب کو جاتا ہے چونکہ وہ ان کی ہی خواہش اور تعلقات کی بنا پر کراچی تشریف لائے تھے، وہ انھیں جلیس بھائی کہا کرتے تھے۔
کراچی وہ اکثر ادبی پروگراموں میں شرکت کرنے تشریف لاتے تھے۔ وہ کراچی میں ہی رہے، تعلیم بھی کراچی میں ہی حاصل کی، کالج اور دوسری درسگاہوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی تدفین بھی کراچی میں ہو، کراچی سے ان کی محبت کا واقعہ قابل غور ہے۔
ایک دن دوران سفر سابق گورنر سندھ جنرل جہانداد خان نے دوران گفتگو ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میرے لیے کوئی خدمت ہو تو بتائیں، انھوں نے جواب میں مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور کہا کراچی، سندھ کے میرے اوپر بہت احسانات ہیں، ایک آخری احسان اور چاہوں گا کہ کراچی میں صرف سات گز زمین کی درخواست ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد اس مٹی میں دفن ہونا چاہتا ہوں، لیکن افسوس ان کی آخری وصیت پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔
ہو سکتا ہے ایک دن ایسا وقت بھی آئے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کی قومی سطح پر خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے جسد خاکی کو مزار قائد میں شایان شان کے ساتھ منتقل کردیا جائے اور پھر فاؤنڈر آف پاکستان اور ڈیفنڈر آف پاکستان ایک ساتھ ابدی نیند سوئیں گے۔
ان کی رحلت پر پوری قوم غم زدہ تھی، ابر رحمت برس رہا تھا، انھیں قومی پرچم میں لپیٹ کر فیصل مسجد لایا گیا تھا اور گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، وزیر داخلہ شیخ رشید نماز جنازہ اور تدفین کے تمام مراحل کی نگرانی کرتے رہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال کی خبر سنتے ہی تخلیق کاروں نے اپنے اپنے قلم سنبھالے۔ پروفیسر خیال آفاقی نے جو بے شمار کتابوں کے مصنف اور قابل قدر شاعر ہیں انھوں نے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کا انھیں کئی بار شرف حاصل ہوا۔ ان کی تازہ نظم سے چند اشعار۔ عنوان ہے "شہید ناسپاساں "
آج صبح نو کو دیکھا تو لگا جیسے کوئی
تعزیت کرنے کے لیے آیا ہو دل حرماں لیے
یہ بھی دیکھا کہ فضا بھی غم میں ہے ڈوبی ہوئی
اور ہوا کھڑی ہوئی سانسوں کا ہے طوفاں لیے
بادلوں پر کی نظر تو یوں لگا کہ آسماں
آیا ہے شاید کسی تکفین کا سامان لیے
ہو گیا خالی صدف تیرا اے شہرِ اقتدار
تو اپنے گوہر یکتا کو سوار ماں لیے
(اکتوبر 2021)
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو وزیر اعلیٰ سندھ نے ان کی علالت کے دوران گلدستہ بھیجا تھا، جس پر انھوں نے شکریہ کا خط لکھا اور اعلیٰ قیادت سے شکوہ بھی کیا کہ کوئی ان کی عیادت کو نہیں آیا، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ان کے سفر آخرت میں شرکت کی۔ اس دعا کے ساتھ:
مثلِ ایوان سحر مرقد فروزاں ہو تیرا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ایک دن ہر شخص کو اللہ کے دربار میں حاضر ہونا ہوتا ہے۔ سو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ملک کی فضا کو سوگوار اور قوم کو اشکبار کرکے رخصت ہوئے، اب ان کی یادیں، ان کی باتیں اور کارنامے انھیں لوگوں کے دلوں میں اور تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھیں گی۔