جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن اپنے پیچھے یادوں کا ایک طویل سلسلہ چھوڑ جاتے ہیں ان کی باتیں، ان کے کام اور ان کی محبتیں ان کے پیاروں کو خون کے آنسو رلاتی ہیں اور پل پل یاد کرنے والوں میں عابدہ اقبال کی چھوٹی بہن شازیہ تسنیم بھی شامل ہیں جو اشکوں کے پھول بناتی ہیں اور ان آنسوؤں کی لڑیوں کو جو گوہر آبدار کی مانند ہوتے ہیں اس انمول تحفے کو اپنی بہن کی خدمت میں پیش کرتی ہیں۔
شازیہ تسنیم صحافی ہیں ایک انگریزی اخبار میں اپنی صحافتی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ 20 اپریل عابدہ اقبال کی برسی کا دن ہے۔ انھوں نے علم و ادب کے اعتبار سے خوب کام کیا، وہ بہترین شاعرہ، افسانہ نگار اور ممتاز صحافی تھیں، فائن آرٹ سے ان کا گہرا تعلق تھا، مختلف اخبارات و جرائد میں اپنے قلم کے جوہر دکھاتی رہیں اور موت نے انھیں ایسے وقت پر آکر اپنی گرفت میں لے لیا جب وہ بام عروج پر پہنچ گئی تھیں۔ وہ رخصت ہوئیں لیکن ان کی تحریریں زندہ ہیں۔
ان کی ایک نظم مجھے یاد آگئی ہے جو جرأت رندانہ کی بہترین مثال ہے، عنوان ہے "پچھتاوا۔"
ہم نوحہ خواں ہیں، ماتم کناں ہیں، ان بیتے ہوئے، تیرہ سو سال پہلے، کی گئی غلطیوں پر جسے، ہم نے کئی نام دیے۔ کبھی اسے مرگ یزید کہا، تو کبھی اسلام کی تجدید کا نام دیا۔ وہ ہم ہی تھے، جن کے ہاتھ، حسینؓ ابن علیؓ، حسینؓ ابن فاطمہ کے خون سے سرخ ہوئے۔ وہ ہم ہی تھے، فریج کا ٹھنڈا پانی پیتے ہوئے، اکثر مجھے وہ بچہ یاد آتا ہے۔ جس کی پیاس کی طلب ایک تیر نے ختم کردی۔
عابدہ اقبال آزاد نے عورت کی بے بسی اور دکھ کو شدت سے محسوس کیا ہے اور یہ درد ان کے شاعری میں در آیا ہے۔
پاکستان میں ہر سال آٹھ مارچ کو مختلف طبقہ فکر کے لوگ عورت کو اس کی جائز آزادی اور اس کے حقوق جو اسے اسلام نے ودیعت کیے ہیں اس کی بات سیمیناروں اور چینلز پر آکر کرتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ آج کے دن اسے نفرت، غلامی اور تشدد سے ضرور نجات مل جائے گی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی دن اس کا استحصال کیا جاتا ہے، وہ کاری کی جاتی ہے، اغوا ہوتی ہے، اس کی منڈی لگائی جاتی ہے اور اسے بار بار فروخت کیا جاتا ہے تو آئیے انھی خیالات کے تناظر میں عابدہ اقبال آزاد کی نظم پڑھتے ہیں، عنوان ہے "آج کے دن"۔
کتنی بے بس عورتوں کو/زندہ جلا دیا گیا ہوگا/ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر/بے گھر کردیا ہو گا/ کتنے معصوم چھوٹے ہاتھوں نے/برتن مانجھے ہوں گے/کتنے مہندی رچے ہاتھوں سے /جہیز نہ لانے کے جرم میں /مہندی چھین لی گئی ہوگی۔
کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے سیکریٹری (سابقہ) صحافی، افسانہ نگار، شاعر، نقاد اور کئی ادبی انجمنوں کے روح رواں زیب اذکار نے ان کی برسی کے موقع پر کہا کہ عابدہ ایک نہایت نفیس خاتون تھیں جنھوں نے اپنی تحریروں میں نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کی بلکہ اپنے کلام کے ذریعے قلمی جہاد کیا۔ زیب اذکار نے عابدہ اقبال کی نظم جرگہ، دستور اور موت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عابدہ اپنے کام میں امرتا پریتم کی مشابہت رکھتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ کبھی امرتا پریتم نے وارث شاہ کو یہ کہہ کر پکارا تھا کہ تم نے تو ایک ہیر کے مرنے پر کہرام بپا کیا تھا مگر آج تقسیم ہند کے موقع پر جو لاکھوں ہیریں مار دی گئی ہیں، ان پر بھی تو کچھ بولیے جب کہ عابدہ اقبال نے شاہ عبداللطیف بھٹائی سے التجاکی ہے کہ سوہنی کی داستان پر دکھ کرنا بجا ہے مگر آج جو مختلف رسومات کے نام پر خواتین کی بے حرمتی اور قتل ہو رہا ہے اس پر بھی ایک نگاہ شاہ ہونی چاہیے۔ عابدہ نے سندھ کی سرزمین پر ہونے والی ناانصافی اور کرب کو شعری آہنگ میں اس قدر خوبصورتی اور درد انگیزی کے ساتھ ڈھالا ہے کہ الفاظ بولنے لگے ہیں، تصویریں اور خونی واقعات جاگ گئے ہیں اور لہو رنگ منظر پیش کر رہے ہیں۔ وہ شاہ لطیف سے مخاطب ہیں :
شاہ لطیف! تمہارے گیت/جو تم نے سوہنی کے لیے لکھے سندھو دیش کی دھرتی پر/اور دھرتی کے باہر/کھیتوں اور کھلیانوں میں /گاؤں اور صحراؤں میں /اوطاقوں اور مزاروں پہ/ تمہارے دیوانے گاتے ہیں /تمہارے نغمے بنجاروں کے اکتاروں میں /چرواہوں کی بنسی میں /مچھیروں، ملاحوں کی تانوں میں /ہر دم زندہ رہتے ہیں /لیکن تمہاری سوہنی آج بھی/ڈبو دی جاتی ہے/اور اگر/پانی نہ ملے تو/اس کے اپنے /خون سے دریا بنائے جاتے ہیں /شاہ لطیف ایک بار ضرور آؤ یہ بتلانے کہ/مہینوال، پنوں عاقل/یہ سب فرضی افسانے تھے/اگر سچ ہے تو صرف /جرگہ، دستور اور موت
عابدہ اقبال ایک بہترین شاعرہ کے طور پر شاعری کے افق پر جلوہ گر ہوئیں، انھوں نے ہر موضوع، خصوصاً معاشی، معاشرتی، سیاسی اور سماجی مسائل پر خوب لکھے اپنے افکار تازہ اور ماضی و حال کے دکھوں کو شعر و سخن کا پرتاثیر اور سحر انگیز روپ عطا کیا۔ وہ بہت بہادر خاتون تھیں ان کی تحریریں اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ سچ کی علمبردار تھیں۔ تصنع اور بناوٹ سے دور ان کا شعری مجموعہ "آسمان " ایسے ہی اشعار سے مرصع ہے۔
عابدہ اقبال کا صحافت سے گہرا تعلق رہا وہ مختلف پرچوں میں قلم کے جوہر دکھاتی رہیں، روزنامہ "ایکسپریس" میں وہ باقاعدگی سے "چہرے" کے عنوان سے اپنا کالم لکھا کرتی تھیں وہ زمانے کی چیرہ دستیوں اور سیاسی اتار، چڑھاؤ تاریخ اسلام اور تاریخ ہندو پاک سے مکمل واقفیت رکھتی تھیں بے شک لکھنے والے کی نگاہ میں بڑی وسعت ہوتی ہے وہ دور تلک دیکھتا ہے وہ ملکوں ملکوں کی کہانیوں، داستانوں اور عروج و زوال سے بہت اچھی طرح واقف ہوتا ہے عابدہ اقبال میں یہ علمیت اور قابلیت بدرجہ اتم موجود تھی، ان کے کالم کا قاری اس بات کی ضرور گواہی دے گا کہ انھوں نے ایسی تحریریں لکھیں جو پڑھنے والوں کے دلوں اور صفحہ قرطاس پر امر ہوگئیں۔
عابدہ نے روزنامہ "جرأت" میں بھی قلم کا جادو جگایا اور "آئینہ" کے نام سے ایک نہیں بہت سے کالم لکھے جن کے مختلف موضوعات تھے، "گرفت ضروری ہے"، "دنیا کو اوباما مبارک ہوں "، "خطرات میں گھرا پاکستان" وغیرہ، ان عنوانات کو پڑھ کر اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی ذہنی سطح کتنی بلندتھی، وہ وسیع النظر تھیں۔ وہ پاکستان کے دشمنوں اور ان کی سازشوں سے خوب واقف تھیں ان کی تحریریں اس بات کی غماز ہیں
عابدہ اقبال کینسر جیسے مرض میں مبتلا تھیں اور تین سال تک اس اذیت میں مبتلا رہیں، حدیث پاکؐ ہے جو اس قدر تکلیف اٹھا کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوتا ہے وہ شہادت کا حق دار ہے۔ شہید عابدہ اقبال 20 اپریل کو اس دنیائے آب و گل سے رخصت ہوئیں اس موقع پر ہماری دعا ہے کہ اللہ انھیں جنت کے باغوں میں ایک گوشہ عطا فرمائے آمین ان کی ایک نظم ہے۔ اس سے چند اشعار:
آنکھیں میری روتی ہیں / سوچیں میری کھوئی ہیں / گھنگھور اندھیرا ہے اور کتنا سناٹا ہے/ سناٹا مٹانے کیا تم کبھی آؤ گے/ پھر ایک دن میں /خزاں کے موسم کے زرد پتے کی طرح/زندگی کی شاخ سے گزر کر/موت کے تیز جھونکوں کے سنگ/میں اڑ جاؤں/اور تم سب/میری لحد پر/اپنی یادوں کی شمعیں جلانے/ابد تک آؤ/ابد تک جیو