گزشتہ ماہ اردو کی ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار محترمہ نجمہ عثمان سے یادگار ملاقات ہوئی اور اس کے بعد تو گویا ملاقاتوں کا سلسلہ طویل ہو گیا جوکہ خوشگوار ماحول کا عکاس تھا۔ ان سے مل کر سروربارہ بنکوی کا یہ شعر یاد آگیا:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
زندگی سے عشق نہ بھی ہوا ہو، مگر ان کی ذات سے ضرور ہم نے محبت محسوس کی۔ ہمیں یہ گمان بھی ہوا جیسے ان سے ہم پہلے بھی مل چکے ہیں۔ ہمارے خیال کی تصدیق انھوں نے لندن پہنچ کر کی کہ 2011 میں ہم نے اپنی کتاب "گلاب فن اور دوسرے افسانے" ان کی خدمت میں پیش کی تھی جو انھیں کتابوں کی تلاش میں جھانکتی ہوئی نظر آگئی انھوں نے جب اس بات کا انکشاف کیا تو مجھے حقیقتاً خوشی ہوئی۔ نجمہ عثمان صاحبہ تقریباً چار عشروں سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور لندن میں ان کا مسکن ہے، وہاں رہ کر اور زندگی کا ایک بڑا حصہ گزار کر بھی ان کے مزاج، رہن سہن اور بود و باش میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ وہ سادگی، خوش مزاجی اور مشرقی تہذیب کا پیکر نظر آتی ہیں۔ بے شک اعلیٰ ظرف لوگ ایسی ہی ہوتے ہیں۔
نجمہ عثمان کا علم و ادب کے گلستان میں نمایاں مقام ہے وہ بہترین شاعرہ اور افسانہ نگار ہیں انھوں نے اپنی تین کتابیں جو دیدہ زیب ٹائٹل سے مرصع تھیں مجھے عنایت کی تھیں ان کے افسانوی مجموعے کا نام "پیڑ سے بچھڑی شاخ" اور شعری کاوشیں کڑے موسموں کی زد پر" اور "شاخ حنا" منظر شہود پر نہ کہ جلوہ گر ہوئیں بلکہ ناقدین و قارئین سے داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں، وہ ایک معتبر تخلیق کار ہیں۔ ان کی چوتھی کتاب ادارہ "دنیائے ادب" سے شایع ہونے والی ہے یہ کتاب سفر نامے پر مشتمل ہے۔ سفرنامہ بھی روش اور تقدس بھری یادوں سے مرصع ہے۔
میں کئی دن سے شعر و افسانے کی دنیا میں گم ہوں۔ جب وقت ملتا ہے مصنفہ کی کہانیاں اور شاعری پڑھنے میں مصروف ہو جاتی ہوں۔ ایک قاری کی حیثیت سے میں یہ بات کہنے کی حق دار ہوں کہ نجمہ عثمان کی تحریروں میں دلکشی اور روانی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ تجسس سے مزید آگے پڑھنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ اکثر افسانوں میں کردار نگاری عروج پر نظر آتی ہے، "پیڑ سے بچھڑی شاخ" کے تمام ہی افسانے اپنی بنت اور ماحول سازی کے اعتبار سے قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں ان کا اسلوب بیان متاثر کن ہے انھوں نے رشتے ناتوں اور ان کے رویوں اور ماحول کی بہترین عکاسی کی ہے بعض افسانے تو ایسے ہیں جنھیں پڑھ کر دل عش عش کر اٹھتا ہے۔
انھی میں اول نمبر پر "سیتا کا بن باس" ہے پھر اس کے بعد "مجو میاں، بعد دعا کے معلوم ہو، زخمی پھول، پیڑ سے بچھڑی شاخ" جوکہ ٹائٹل اسٹوری ہے۔ نجمہ عثمان کے میں نے جتنے بھی افسانے پڑھے وہ اپنوں کی محبت اور نفرت کے سیاہ و سفید دھاگوں سے بنے گئے ہیں، شکوک و شبہات اور نفرتوں کی خلیج نے رشتوں کی دیواروں میں دراڑیں ڈال دی ہیں، جھوٹ، تصنع اور بناوٹ نے زندگی کو جہنم بنا دیا ہے ان ہی تلخیوں اور حقائق نے نجمہ عثمان کے افسانوں میں جگہ بنا لی ہے، وہ خود بھی روتی ہیں اور اپنے قاری کو بھی رلاتی ہیں۔
"سیتا کا بن باس" ایک ایسی ہی کہانی ہے جسے خون دل سے لکھا گیا ہے اور تخلیقی کرب کی آنچ نے اسے وہ حرارت بخش دی جسے پڑھنے والا شدت سے محسوس کرتا ہے اور یہ کرب اس کی روح پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ رابعہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی ہے ایسی لڑکیوں کے جوڑ کے رشتے ذرا مشکل سے ہی ملتے ہیں اور اگر قسمت کی دیوی مہربان ہو جائے تو اور بات ہے۔ رابعہ کا رشتہ بھی دیار غیر میں بسنے والے حامد سے طے کردیا جاتا ہے اور نکاح کا مرحلہ فون پر کیا جاتا ہے، رابعہ ارمانوں کے گلدستے اپنے دل میں چھپا کر سفر کے لیے روانہ ہو جاتی ہے لیکن جس وقت وہ لندن ایئرپورٹ پر اترتی ہے تو اسے حیرت ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اکیلا ہی اسے لینے آیا ہے ایک باراتی بھی نہیں اور گھر میں بھی کوئی اسے خوش آمدید کہنے والا نہیں تھا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ دلہا میاں اپنی دلہن کا دیدار کیے بغیر ہی حکم صادر کردیتے ہیں کہ وہ لباس تبدیل کرلے اور منہ ہاتھ دھو لے تو زیادہ مناسب ہے۔
اس کے دل میں ایک چھناکہ سا ہوا کہ یہ کیسی ملن گھڑی ہے کہ اس کا دیدار بھی نہیں کیا اور جب وہ واش روم میں آئی تو دیر تک آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر آنسو بہاتی رہی اس کے سر پر بندھا ہوا جوڑا جسے اس کی بہنوں نے بنانے میں کافی محنت کی تھی اس کے ہاتھوں کی مہندی اس کے ارمانوں کی طرح خون کے آنسو رو رہی تھی۔ ابٹن کی خوشبو اس کے پورے وجود کو مہکا رہی تھی اس کے حسین چہرے پر میک اپ نے غضب ڈھا دیا تھا اس نے اپنی سرخ بنارسی ساڑھی تبدیل کرکے اس طرح رکھی کہ اس میں اپنے ارمانوں کی راکھ بھی لپیٹ دی تھی اور پھر اس نے کبھی دوبارہ ساڑھی کو کھولنے کی اپنے آپ میں ہمت نہیں پائی۔
رابعہ کا شوہر ایک نفسیاتی مریض تھا جو زیادہ تر بیمار رہتا اس حال میں وہ اس پر تشدد بھی کرتا اس بات کا ذکر وہ اپنے میکے میں بھی نہیں کرتی ہے کہ وہ ان کی عزت اور خوشی ہے۔ بہنوں کے اچھے مستقبل کی نوید ہے اور وہ ایسا دروازہ ہے جس کے پیچھے دردناک کہانی پروان چڑھ رہی ہے اور اس کی خوشیوں کا خون ہو رہا ہے لیکن اسے اف نہیں کرنی ہے چونکہ وہ نفع و نقصان سے اچھی طرح واقف ہے۔ افسانے کی سطر اور ہر پیراگراف قاری کو آنسوؤں کی سوغات پیش کرتا ہے۔ رابعہ کی ایک بیٹی بھی ہے جس کا نام شازیہ ہے وہ اس کی پرورش میں اپنے دن رات ایک کردیتی ہے کہ جینے کا اسے خوبصورت موقعہ میسر آگیا تھا۔ اس نے زندگی کا بیشتر حصہ ملازمت کرنے اور گھریلو ذمے داریوں کی ادائیگی میں گزار دیا تھا۔
ہمارے پاکستانی معاشرے میں بیرون ملک میں رہنے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے گویا باہر رہنے کا مطلب عیش و عشرت کی زندگی گزارنا ہے لیکن ایسا نہیں ہے وہاں زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ ملازم بھی میسر نہیں آتے ہیں گھر کے تمام امور خود انجام دینے ہوتے ہیں اور اگر میاں بیوی کے درمیان رنجش یا علیحدگی ہو جائے تب زندگی جہنم کا نقشہ کھینچتی ہے۔ نجمہ عثمان کے افسانوں کی یہ ہی خوبی ہے کہ انھوں نے معاشرتی کرب کو لفظوں سے پینٹ کیا ہے اور بولتی تصویریں سامنے آگئی ہیں اور کردار متحرک ہوگئے ہیں وہ سراپا نگاری کے فن سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔"مجو میاں " ایسا ہی ایک افسانہ ہے۔ اس قدر پرکشش افسانے لکھنے پر میں انھیں مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
نجمہ عثمان ایک بہترین اور قادرالکلام شاعرہ بھی ہیں۔ وہ چھوٹی بحروں میں خوبصورت اشعار تخلیق کرتی ہیں ان کی شاعری سہل متمتع کی شاعری ہے اداسیوں کے رنگوں نے اس کا اثر دیرپا کردیا ہے کہ غم کی کیفیت تا عمر زندہ رہتی ہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
عذاب کتنے اٹھائے ہیں اک خوشی کے لیے
چھلک پڑا ہے لہو آنکھ سے ہنسی کے لیے
میں ایک عمر سے ہوں اس طرح چراغ بدست
کہ انگلیاں بھی جلائی ہیں روشنی کے لیے
نجمہ عثمان کے تجربات و مشاہدات نے شاعری کو دو آتشہ بنادیا ہے جو انھوں نے محسوس کیا اور جو کھلی آنکھوں سے دیکھا اور برتا انھوں نے اسی طرح الفاظ سے شاعری کا پیکر تراش لیا ہے:
رات کی چاندنی اور چنبیلی پھولوں ایسی لڑکی
گھر کے آنگن سے لے جاکر، کس آنگن میں چھوڑ دیا
سچے رشتے، چاندی چہرے، سونا مٹی سب تج کے
کس نے دکھ کا دان سمیٹا اور سمندر پار گیا