Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ahal Iqtidar Tawajo Farmayen

Ahal Iqtidar Tawajo Farmayen

شیخ سعدیؒ کیا خوب فرما گئے ہیں کہ " رعیت میں بادشاہ کی حیثیت ایک ایسے درخت کی مانند ہوتی ہے کہ جس کی جڑیں عوام ہوتے ہیں اور اس بات سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے کہ درخت کی مضبوطی جڑوں کے ہی باعث ہوتی ہے۔ اسی لیے بادشاہ وقت کے لیے ضروری ہے کہ وہ دلوں کو مجروح نہ کرے، اگر ایسا کرے گا تو پھرگویا اپنی ہی جڑیں اکھاڑ پھینکے گا۔"

پرویزکے بیٹے خسرو نے بھی بادشاہ اور رعایا کے تعلقات کی اہمیت کو اجاگرکرتے ہوئے اپنے بیٹے شیرویہ کو اس وقت نصیحت کی جب وہ قریب المرگ تھا کہ " تُو اپنے ہرکام میں رعایا کی بہتری اور فلاح و بہبود کو مدنظر رکھنا، بے عقلی سے کام نہ کرنا اس طرح لوگ تجھ سے خوش رہیں گے، اس طرح تیری نیک نامی دور تلک پھیلے گی" بچوں اور عورتوں کی بددعائیں تباہ کن ہوتی ہیں، آہ و زاری شہروں کو ویران اور برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔

شیخ سعدی نے نصیحت کرتے ہوئے ایک اور موقع پر بادشاہوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بادشاہ کو اپنے ماتحتوں کے ساتھ باپ کی طرح برتاؤکرنا چاہیے، یعنی بہ وقت ضرورت نرمی اور سختی کا برتاؤ ضروری ہے، اس جراح کی طرح جو جراحی بھی کرتا ہے اور مرہم بھی لگاتا ہے۔ جب پروردگار آپ کو نوازے تو اس وقت سخی بن جاؤ اور خوش اخلاقی کو اپناؤ تاکہ تیرے نقوش آنے والوں کے لیے مثال بن جائیں۔

کتابوں میں علما وصوفیا کی نصائح وپند درج ہوتی ہیں اور فی زمانہ اچھے اوصاف، منصفی کے تقاضے اور حاکم وقت کی ذمے داریاں کتابوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ ہمارے ملک میں تو سالہا سال سے یہی حال ہے، جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے، ملک کو استحکام نصیب نہیں ہوا، ہر حکمران اقتدارکا بھوکا اور اپنے منصب کی طوالت کا خواہش مند ہوتا ہے وہ کرسی پر براجمان ہونے کے بعد اسے چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کرسی کبھی کسی کی نہیں ہوئی، کمزور اور ناپائیدار ہوتی ہے، بعض اوقات تو مدت بھی پوری نہیں ہوتی، تھوڑے عرصے بعد ہی اٹھا دیا جاتا ہے، جس طرح سابقہ حکومتوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔

جن دنوں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف برسر اقتدار تھے، ان دنوں بھی اپوزیشن اور عوام ان کے خلاف تھی، جب کہ ترقیاتی کام اور منصوبے ان کے ہی دور میں مکمل ہوئے تھے اورکراچی کا نقشہ بدل گیا تھا۔ ان کے جانے کے بعد (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے ملک کا جو حال کیا، اس سے سب واقف ہیں۔ اسے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں، ہر بات، ہر واقعہ طشت ازبام ہے، کرپشن کی کہانی، مقدمات اور دوسرے ملکوں میں بیماری کے بہانے پناہ لینے کی داستانوں سے بچہ بچہ واقف ہے۔ ناانصافی، غربت اور بنیادی ضرورتوں کی محرومی نے ہر شخص کو پریشان کردیا تھا۔

ان نامساعد حالات کی وجہ سے پی ٹی آئی کی جماعت ہی وہ واحد جماعت نظر آئی جس پر آنکھ بند کرکے اعتماد کیا جاسکتا تھا، چنانچہ پی ٹی آئی کو ان لوگوں نے دل کھول کر ووٹ دیے جو سابقہ حکومتوں کی کارکردگی سے نالاں تھے، لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد یہ خوشی اور امید کے چراغ ایک ایک کرکے بجھنے لگے۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں ان میں سے چند یہ کہ ملک کی عمارت قرضے کے بوجھ سے ڈول رہی تھی ہر ادارہ کرپشن کی آماجگاہ تھا، عوام کا سکھ چین غارت ہو گیا تھا، لٹیروں کا راج تھا، تھرکی صورتحال بھی بدتر تھی۔

پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد بہت کچھ بدلا اور بہت سے کام اس سے بھی بدتر ہوگئے، غربت میں اضافہ ہوا۔ پانی، بجلی، گیس کے مسائل نے بھی عوام کا جینا حرام کر دیا، گویا تمام امیدوں پر پانی پھرگیا، دوسرے صوبوں کے ساتھ ساتھ صوبۂ سندھ خصوصاً کراچی کے حالات بدترین ہوگئے، اب تو مسلم لیگ ن کی حکومت اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں سے گلہ شکوہ کرنا عبث ہے۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج والا معاملہ درپیش تھا، دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹا گیا اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں، لیکن ان گزرے حالات نے موجودہ حکمرانوں کو حکمت عملی اور دور اندیشی سے دور ہی رکھا۔

حقائق سے چشم پوشی کا یہ حال ہے کہ کراچی جیسا بڑا شہر جو منی پاکستان کہلاتا اور سب سے زیادہ دولت کما کر دیتا ہے اسے یکسر ان اعلیٰ برسر اقتدار شخصیات نے نظراندازکیا ہے۔ ہر طرف چوری، ڈکیتی، اغوا کی وارداتیں دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے میں ہو رہی ہیں، کوئی پرسان حال نہیں کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کے با اختیار لوگوں کے ساتھ میٹنگ کرلیں، نئے سرے سے لائحہ عمل تیارکریں جس کے تحت شہریوں کا جان و مال اور عزت محفوظ رہے۔

کراچی سے منتخب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی بھی اپنی ذمے داریوں سے غافل ہیں، جس کی مثال گلستان جوہر کے وہ علاقے ہیں جہاں بڑے بڑے نالے منہ کھول کر "موت" کی صدائیں لگا رہے ہیں۔ برسات کے بعد مزید برا حال ہو گیا اور ان نالوں نے سڑکوں تک اپنی جگہ بنا لی ہے۔ رابعہ سٹی کے سامنے ٹوٹے اور بے چھت کے نالے اپنی داستان خود سنا رہے ہیں لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں، کنٹونمنٹ بورڈ کے منتظمین کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بنائیں اور نالوں کو پاٹیں، جب کہ بل دوسرے بلوں کی طرح پابندی کے ساتھ آتا ہے، کنٹونمنٹ کے افسران بالا اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ 120 گز سے چھوٹے پلاٹوں پر ٹیکس نہیں لگتا ہے لیکن یہ حضرات ہر دو تین ماہ بعد ہزاروں کا بل بھیج کر مکینوں کو پریشان کرتے ہیں۔

"جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے" عالمگیر خان نے "فکس اٹ" کے نام سے خوب نام کمایا، قائم علی شاہ کی تصاویر اور مین ہول کے کھلے ڈھکن اور ان پر ڈھکنے لگانے کی مہم کو سب نے سراہا، لیکن ایم این اے بنتے ہی انھوں نے ہی نگاہیں بدل لیں اور پوش ایریا کو اپنا مسکن بنایا اور تعیشاتِ زندگی نے فرائض کی دیوار میں ایسی دراڑ ڈالی کہ وہ تقریباً ٹوٹ ہی چکی ہے، دوسرے علاقوں کا بھی یہی حال ہے۔