یہ کوئی سات آٹھ برس قبل کی بات ہے کہ ایک روز مجھے پنجاب کے دور افتادہ ضلع مقام سے بی اے کی ایک طالبہ کا فون آیا اس نے میری آواز سنتے ہی پوچھا۔"انکل کیا آپ نے فلاں صاحب کا کالم پڑھا ہے" میرا جواب نفی میں سن کر وہ رونے لگی، اس نے روتے ہوئے مجھے بتایا کہ " اس دانشور نے قائد اعظم کے بارے میں بڑی تکلیف دہ اور غلط باتیں لکھی ہیں اور اس کے انداز تحریر سے گستاخی یا بدتمیزی کی بو آتی ہے، میں نے بچی کو دلاسا دینے کے لیے کہا کہ " ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے، میں وہ کالم پڑھتا ہوں اور شواہد کی بنا پر اس کا مدلل جواب دوں گا۔"
درج بالا پیراگراف ڈاکٹر محمود کی کتاب "سچ تو یہ ہے" سے ماخوذ ہے اور یہ کتاب قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل سے شایع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی انگریزی اور اردو زبان میں لکھی گئی یہ انیسویں کتاب ہے، ڈاکٹر صاحب نے حقائق کے تناظر میں جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک کیا ہے اورصداقت کی روشنی میں قائد اعظم کی زندگی میں رونما ہونے والے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ڈاکٹر صفدر محمود محب وطن اور اسلام کی تعلیمات سے سرشار ہیں، یقینی بات ہے کہ ملک اور اپنے دین سے محبت کرنے والا ہی جرأت و بہادری کے ساتھ ملک و قوم کے غداروں اور قائد اعظمؒ کی خدمات کو تسلیم نہ کرنے والوں کو منہ توڑ جواب اور سچائی کا طمانچہ ان کے رخسار پر رسید کرسکتا ہے۔
کتاب میں چالیس مضامین اور ضمیمہ کے طور پر "حیات قائد ایک نظر میں " کے حوالے سے آٹھ صفحات شامل ہیں جوکہ قائد اعظمؒ کے حوالے سے مکمل معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے اپنے مضمون " پس منظر" میں ان لوگوں کے بارے میں لکھا ہے جو قائد اعظم سے دلی بغض وعناد رکھتے ہیں اور غیر ملکی ایجنسیوں اور ملک دشمنوں کی خوشنودی اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول مجھے قارئین کے ایسے خطوط موصول ہوئے جس میں انھوں نے پوچھا تھا کہ جب یہ حضرات بنیادی معلومات بھی نہیں رکھتے تو پھر لکھتے کیوں ہیں، انھیں کیا تکلیف ہے یہ ان کا ذاتی ایجنڈا ہے یا فرض، انھیں کسی غیر ملکی ایجنسی نے سونپا ہے۔
اندرون ملک کس کی خدمات کررہے ہیں یا یہ ان کے منفی ذہن کا شاخسانہ ہے؟ مجھے اس حوالے سے معلومات ہیں نہ مجھے علم ہے اس لیے کچھ کہہ نہیں سکتا، لکھاریوں اور مورخ ہونے کے دعوے داروں کا ایک مکتبہ فکر تو وہ ہے جو سورج پر تھوک کر شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ سیدھے سادھے تاریخی حقائق کی من پسند اور عجیب و غریب توضیحات کرتے اور اپنے آپ کو قائد اعظم سے کہیں زیادہ عقل مند ذہین اور بصیرت مند ثابت کرکے ہماری قیادت کے فیصلوں پر منفی تبصرے کرتے ہیں یہ حضرات قائد اعظم کا قد گھٹانے کی آرزو پالتے ہیں اور باطنی طور پر قائد اعظم کو ناپسند کرتے ہیں۔"
"سچ تو یہ ہے" کہ مصنف ڈاکٹر صفدر محمود نے جن تلخ باتوں کا ذکر کیا ہے، وہ سو فیصد درست ہیں جو قائد اعظم کے دشمن ہیں، وہی لوگ پاکستان کے استحکام کو کمزورکرنے میں پیش پیش ہیں، یہ نام کے مسلمان ہیں۔ ان کا مذہب اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، یہی وہ حضرات ہیں جو پاکستان کے دشمنوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ کتاب میں پاکستان کے مخالفین اور قائد اعظم کے کردار پر انگلی اٹھانے غلط اور ناقص معلومات بہم پہنچانے والوں کی نشاندہی مدلل انداز میں کی گئی ہے اور بڑی عرق ریزی کے ساتھ درست معلومات شخصیات کی گواہی کے ساتھ جمع کی ہیں اور اپنے قارئین تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قائد اعظم کے مذہبی عقائد پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کا پہلا باب "تحریک پاکستان سے لے کر قائد اعظم کے پاکستان تک" ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے قائد اعظم کی تقاریر، ان کی فکر اور مدبرانہ سوچ کا بہت خوبصورتی کے ساتھ جائزہ لیا ہے اور حقائق پر مبنی اقتباسات پیش کیے ہیں۔ 9 مارچ 1944 کی تقریر سے چند سطور ملاحظہ فرمائیے۔
(ترجمہ): پاکستان ہندوؤں کے مناسب یا غیر مناسب رویے کی پیداوار نہیں، یہ ہمیشہ موجود رہا ہے، صرف انھیں اس کا شعور نہیں تھا، ہندو اور مسلمان اکھٹے رہنے کے باوجود کبھی ایک قوم نہیں بنے، ان کا تشخص ہمیشہ جدا جدا رہا ہے، جوں ہی ایک ہندو مسلمان ہوتا ہے وہ مذہبی، سماجی، ثقافتی اور معاشی طور پر اپنے ماضی سے کٹ جاتا ہے، مسلمان اپنی انفرادیت اور تشخیص کسی بھی معاشرے میں ضم نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک اکٹھے رہنے کے باوجود ہندو، ہندو اور مسلمان، مسلمان رہے ہیں اور یہی پاکستان کی بنیاد ہے۔" قومی ترانے کے خالق کے بارے میں کئی بار متضاد اور متنازع تحاریر پڑھنے کا ہمارا بھی اتفاق ہوا۔ مصنف نے اپنے مضمون "قائد اعظمؒ، جگن ناتھ اور قومی ترانہ۔۔۔۔ سب سے بڑا جھوٹ" کے عنوان سے وقیع تحریر درج کی ہے اور تمام حقائق کو لفظ بہ لفظ بیان کیا ہے تاکہ غلط فہمی کا خاتمہ ہو سکے، ڈاکٹر صاحب نے اس طرح خامہ فرسائی کی ہے کہ "میں نے سب سے پہلے ان اسکالروں سے رابطے کیے، جنھوں نے قائد اعظم پر تحقیق کرتے اور لکھتے عمر گزاری ہے، ان سب کا کہنا تھا کہ یہ شوشہ ہے، بالکل بے بنیاد اور ناقابل یقین دعویٰ ہے، قائد اعظم اور جگن ناتھ کے حوالے سے دعوے کرنے والے حضرات نے انٹرنیٹ پرکئی بلاگز(Blogs)میں اپنا نقطہ نظر اور من پسند معلومات فیڈ کرکے محفوظ کردی تھیں تاکہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کو کنفیوژکیا جاسکے جگن ناتھ آزاد نے بھی کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ قائد اعظم نے ان سے ترانہ لکھوایا۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے مکمل تحقیق کی قائد اعظم سے خاص الخاص تعلق رکھنے والوں سے معلومات حاصل کیں تب یہ حقیقت روز روشن کی طرح مزید عیاں ہوگئی کہ جگن ناتھ آزاد کا قومی ترانے سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے بلکہ اسے سرکاری طور پر حفیظ جالندھری سے لکھوایا گیا تھا، حفیظ جالندھری کو اللہ نے بہت بڑے مرتبے سے پہلے ہی "شاہنامہ اسلام" کی تخلیق کے ذریعے نواز دیا تھا اور اب یہ اعزاز بھی حاصل ہو گیا کہ قومی ترانے کے خالق بھی ٹھہرے۔
ڈاکٹر صاحب کو اس وقت بڑی ہی حیرانی اور دلی تکلیف پہنچی جب انھوں نے ڈاکٹر مبارک علی کا کالم پڑھا۔ مضمون کے پہلے ہی پیراگراف میں ان کے خیالات کا انکشاف یوں کیا ہے۔"ڈاکٹر مبارک علی کے کالم پر نگاہ ڈالی…… ان کا سارا سورس آف انفارمیشن ولی خان کی کتاب ہے۔" پاکستان کی تعمیر و ترقی میں غدار وطن نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن وہ قائد اعظم جیسے عظیم انسان اور عظیم لیڈر کی عظمت اور کردار کی بلندی کو پستی میں بدلنے میں ناکام رہے ہیں، قائد اعظم کی عزت و مرتبے میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا ان کے چاہنے والوں اور قدردانوں کی کمی نہیں ہے۔"سچ تو یہ ہے" کی ہر بات ہر واقعہ سچائی کی روشنی سے منور ہے۔