فروری اور مارچ کے مہینوں میں کورونا وائرس نے شہرت پائی، اس کے متاثرین پوری دنیا میں نظر آنے لگے۔ حالات اتنے خوفناک ہوئے کہ حکومت کو شہروں، صوبوں اور علاقوں کو لاک ڈاؤن کرنا پڑا، تعلیمی اداروں، کارخانوں اور دفاتر پر بھی قفل لگ گئے یہ صورت حال بڑی خوفناک تھی لوگ گھروں میں قید ہوتے ہوئے بوریت کا شکار ہونے لگے۔
ذہنی دباؤ نے اچھے خاصے صحت مند انسان کو ڈپریشن کی طرف دھکیل دیا، خواتین کو صبح سے شام تک گھر کے کام کرنے کی عادت تھی لہٰذا ان کی صحت پر اتنا برا اثر نہیں پڑا جتنا کہ مرد حضرات کو ذہنی و جسمانی اذیت برداشت کرنی پڑی۔ اب سب مرد تو ایک عادت اور ایک فطرت کے ہوتے نہیں ہیں کہ وہ بیگم کے کاموں میں ہاتھ بٹائیں، برتن مانجھیں، کھانا پکائیں، ایسے شوہر نامدار تو کھاتے بھی ہیں اور بیوی پر غراتے بھی ہیں لیکن اس سے ہٹ کر دیکھیں جو گھر کی خواتین کی نہ صرف یہ کہ عزت کرتے ہیں بلکہ ان کے ہر کام میں مددگار بھی ہوتے ہیں لیکن اب مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ کورونا نے تو ہر قسم کے مردوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دیں، لہٰذا گھر کے ہو رہے۔
ان حالات میں گھر بیٹھے ادبی و علمی مشاغل ہاتھ آجائیں تو کیا بات ہے، تو ایسا ہی ہوا مختلف شہریوں کے ساتھ شہر کراچی میں آن لائن میٹنگ کا اہتمام کیا گیا اور زوم کے لنک پر یادگار اور شاندار محفلوں کا انعقاد ہوا اور اس ادبی سرگرمی کا سہرا ممتاز صحافی، شاعر، افسانہ نگار اور نقاد زیب اذکار کے سر ہے ان کے وہ دوست احباب بھی معاون و مددگار رہے ہیں جو قلم کار کی حیثیت سے اپنی نمایاں شناخت رکھتے ہیں۔ انھی میں جناب خالد دانش جو بہترین نثر نگار اور شاعر ہیں، ڈاکٹر شاہد ضمیر جنھوں نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اردو لغت بورڈ کو دیا وہ اور ان کی مرحومہ بیگم محترمہ نجم السحر نے اردو لغت بورڈ کے علمی و ادبی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اردو بورڈ کی ضخیم اور علمی خزانے سے مرصع ڈکشنری کی اشاعت میں بھی ان کا نمایاں کردار رہا ہے۔
حلقہ ارباب ذوق کی "زوم" میٹنگ میں مہمان حسین سارہ محبوب، آصف علی آصف اپنی کارکردگی کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور ان کا کام قابل تعریف ہے۔ جب کہ کامران مغل اور آصف علی آصف جوکہ اچھے شاعر اور نثر نگار ہیں یہی خوبیاں کامران مغل میں بھی موجود ہیں، دونوں حضرات حلقہ ارباب ذوق کے اراکین میں شامل ہیں۔ کامران مغل اس تنظیم کے پریس سیکریٹری ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق کی ابتدا 29 اپریل 1939 میں لاہور میں ہوئی ابتدائی دور میں ن میم راشد اور میرا جی کا نام سامنے آتا ہے آغاز انھی حضرات نے کیا بعد میں انھوں نے قیوم نظر کو بھی شامل کرلیا، قیوم نظر شعر و سخن کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں، جو اس تنظیم کے فعال رکن ثابت ہوئے اس نام سے کئی تنظیمیں مختلف شہروں اور ملکوں میں کام کر رہی ہیں۔
تقریباً دو سال کا عرصہ گزرا ہے جب مذکورہ تنظیم کے منتظمین نے جناب زیب اذکار کو سیکریٹری کے لیے منتخب کیا تھا، یقینا یہ اس کے حق دار تھے اس سے قبل وہ ایک طویل مدت سے پریس کلب کی ادبی کمیٹی میں سیکریٹری کی حیثیت سے شاندار خدمات انجام دے رہے تھے، گزرے دنوں میں بڑی یادگار تقریبات منعقد کی گئیں۔ ان محافل میں "اجمال" کے مدیر اعلیٰ فہیم انصاری، صبا اکرام اور اے خیام نے بحیثیت صدور اور مہمان خصوصی کے شرکت کی۔ راقم الحروفکو بھی یہ عزت بخشی گئی ممتاز افسانہ نگار پروفیسر شہناز پروین اور "کشت جاں " کی شاعرہ ثریا نے بھی صدور کی حیثیت سے تشریف لاتی رہی ہیں۔
المیہ یہ ہے ایک طرف کورونا وائرس تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنے نوکیلے پنجے گاڑتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے، ہلاکتوں میں ہر روز اضافہ ہوا جا رہا ہے لیکن ایسی سنگین صورت حال کے پیش نظر ہمارے پاکستانی بھائی بہن کسی قسم کے حفاظتی اقدامات کرنے سے قاصر ہیں نہ ماسک کا استعمال ہے اور نہ دستانے پہننے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں لاک ڈاؤن میں نرمی اور چند گھنٹوں کے لیے معطل کرنے کے بعد حالات مزید بگڑ گئے، شہری عید کی شاپنگ کے لیے ایسے دوڑے جیسے جانور رسی تڑوا کر بھاگتا ہے انھوں نے تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ دیا، گویا زندگی سے زیادہ عید کے کپڑے پہننا ضروری ہیں۔ زندگی رہی تو ہی عید منائی جا سکے گی۔
یوں محسوس ہو رہا ہے اگر اس سال نئے کپڑے نہیں پہنے تو گویا پھر کبھی نصیب ہی نہیں ہوں گے۔ سو چیں ذرا ٹھنڈے دل سے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی پیاری ہے یا خرید و فروخت؟ اتنا رش، اتنا رش کہ الامان الحفیظ۔ ایک جم غفیر تھا، گویا میلا لگا ہوا ہے۔ خواتین لائنوں میں لگنے کی تکلیف کو خوشی خوشی سہہ رہی تھیں کچھ تو تجارتی عمارتوں میں پھنس گئیں لاک ڈاؤن میں نرمی ختم ہوگئی۔ پانچ بجتے ہی شٹر اور مین گیٹ بند کردیے گئے ان بہادر اور جری خواتین نے بلڈنگ کی پہلی منزل سے چھلانگیں لگانی شروع کردیں، نیچے کھڑے بھائیوں نے اپنی بہنوں کو زمین پر ڈھیر ہونے سے بچا لیا۔
اسے کہتے ہیں بہنوں کے محافظ۔ تو دوسری طرف Online Meeting کا سلسلہ اپنی جگہ چلتا رہا حلقہ ارباب ذوق کا تذکرہ ہو تو خالد دانش کی ادبی و شعری تحریروں کے بھلا کون بھول سکتا ہے خالد دانش حلقہ ارباب ذوق میں اپنی بہترین کارکردگی کے ساتھ شامل ہیں، ادبی و شعری صلاحیتوں کے ساتھ دین کی فہم شناسی بھی رکھتے ہیں ان کے مضامین اسلام و قرآنی تعلیمات کے حوالے سے مختلف اخبارات میں شایع ہوتے رہتے ہیں یہ مضامین اپنی معلومات، الفاظ کے چناؤ، مدلل انداز بیاں، دلکش پیرائے میں لکھے گئے قاری کے ذہن کو تر و تازہ رکھتے ہیں۔
زوم میٹنگ میں برطانیہ لندن سے نجمہ عثمان نے مہمان خصوصی کے بارہا، شرکت کی ایک تفہیمی نشست کا بھی اہتمام کیا گیا نجمہ عثمان صاحبہ کی شاعری اور افسانہ نگاری کو سراہا گیا، حاضرین نے دل کھول کر ان کے تخلیقی شہ پاروں کے تناظر میں داد دی، ریحانہ روحی نے بھی جوکہ خود ایک بہت اچھی شاعرہ ہیں، نجمہ عثمان کی شخصیت اور فن پر دل کھول کر گفتگو کی۔ زاہد حسین زاہد جوہری بھی تقریباً ہر تقریب میں اپنی تنقیدی گفتگو کے ساتھ موجود رہے ان کے تجزیے اور ان کی رائے کو اہل مجلس نے پسند فرمایا کہ انھوں نے ہر تخلیق کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا جوکہ سچائی پر مبنی تھا۔
حلقہ ارباب ذوق کی طرف سے ایک خاص بات یہ بھی سامنے آئی کہ انھوں نے میزبانی کا ایک ایسا پروگرام مرتب کیا جس کا نام ہی "دعوت ِ شیراز" رکھا گیا کہنے کو تو یہ دعوت شیراز تھی مگر اس دعوت میں لذیذ کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جناب زیب اذکار کے دولت کدہ پر یہ ادبی محافل ہوا کرتی تھیں۔ اور ان میں سکہ بند ادیب پروفیسر سحر انصاری، ڈرامہ آرٹسٹ اکرم کنجاہی وہ بھی بے مثال، طلعت حسین جیسے نقاد اور آرٹسٹ شرکت فرما چکے ہیں، احمد شاہ کا خلوص اور تعاون بھی سیکریٹری حلقہ ارباب ذوق کے ساتھ رہا ہے احمد شاہ خود بھی ادبی پروگراموں میں تشریف لا چکے ہیں۔
زوم کی میٹنگ میں دیار غیر میں بسنے والے قلم کار بھی شامل ہوتے ہیں، سوئیڈن سے بھائی مسعود قمر، جرمنی سے اسحاق ساجد، یوکے سے بشپ تمنا اور غزل انصاری، عشرت معین سیما بھی آن لائن میٹنگ میں شریک ہوچکی ہیں، اندرون پاکستان سے فیصل آباد سے کرن سیمی، لاہور سے نیر شہزاد اور بے شمار اہل علم آن لائن کا حصہ بنتے جا رہے ہیں جوکہ خوش آیند بات ہے کہ کاروبار زندگی مثبت انداز میں چلتا رہے۔