وہ بہت غم زدہ تھا زار و قطار رو رہا تھا، فریاد کر رہا تھا اس کا کہنا تھا میری بیوی صحیح سلامت تھی ہم نے کئی جگہ ٹیسٹ کروائے منفی آئے لیکن اسپتال والوں نے جو ٹیسٹ کیا اسے مثبت قرار دے کر داخل کرلیا اور تین چار روز بعد ہی اعلان کردیا کہ تمہاری بیوی چل بسی ہے، میں نے حیران و پریشان ہو کر ڈاکٹر کی شکل دیکھی اور بے ہوش ہوتے ہوتے بچا، پھر اسپتال کے عملے نے اسے گھر لوٹ جانے کا کہا، کیسے لوٹ جاؤں اپنی بیوی کے بغیر، میں نے تیس سال اس کے ساتھ گزارے ہیں، بچے جوانی کی دہلیز پر آگئے ہیں۔
ہم دونوں نے غموں کے موسم ایک ساتھ دیکھے ہیں پھر اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہوگئی، جس کو چاہتے ہیں کورونا میں ڈال دیتے ہیں، انھیں لاشیں دکھانی ہیں ان ملکوں اور تنظیموں کو جہاں سے انھوں نے پیسہ بٹورا ہے لیکن میں تو جیتے جی مر گیا، برباد ہو گیا، کیا ہوگا میرے گھر کا، میں اس کے بغیر کیسے جی سکتا ہوں، ثوبیہ! میری ثوبیہ، تمہیں مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا، ابا چیخ پکار بند کرو، یہ لوگ تمہیں بھی کورونا میں ڈال دیں گے، یہ میری بڑی بیٹی کی آواز تھی، جو میرے کاندھے سے لگی سسک رہی تھی اور ہم باپ بیٹی اور اب بیٹا ٹیسٹ کروا کر آئے تھے۔
انھیں رپورٹ دکھا دی تھی اور اپنے پیر مضبوطی سے زمین میں جمائے کھڑے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دھکے میں ہم وارڈ میں دھکیل دیے جائیں اور اسپتال والے ہمیں بھی وینٹی لیٹر پر ڈال دیں اور 24 گھنٹوں بعد ہی ہماری اموات کا اعلان کردیں بیٹی کے ٹوکنے پر وہ اب سرگوشی کے انداز میں گفتگو کرنے لگا تھا، اسی دوران ایک کپڑے میں لپٹی ہوئی لاش نظر آئی، بڑی مہارت کے ساتھ دو میل نرس دھکیلتے ہوئے لے جا رہے تھے۔
ارے بھائی! یہ تو بتا دو یہ لاش کس کی ہے، اس بار وہ باآواز بلند بولا، اسپتال کے عملے نے اسے خاموش رہنے اور گھر جانے کے لیے کہا۔ بیٹا بھی عین اسی وقت پہنچ گیا تھا، کیا یہ ہماری والدہ کی میت ہے، پاس کھڑی ہوئی نرس نے کوئی جواب نہیں دیا، البتہ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس نے بہت سی چیخوں کو اپنے اندر اتار لیا ہو اس کی وجہ اسے ملازمت کرنی ہی ہے وہ جان دیتے ہوئے مریضوں کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی! بیماروں کے علاج و معالجے سے منہ نہیں موڑ سکتی۔
کورونا اسے بھی ہو سکتا ہے لیکن وہ اپنی جان پر کھیل کر لوگوں کو بچا رہی ہے عظیم کام کر رہی ہے بیٹا ماں کی میت کو پل بھر کے لیے بھول گیا اور اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تحریر کو پڑھنے لگا پھر دوسرے پل ہی وہ میت کی طرف دوڑا اسے یقین تھا کہ یہ اس کی ماں کی ہی میت ہے جسے لے جایا جا رہا ہے اس جگہ جہاں بہت بڑا قبرستان بنایا گیا اور بغیر غسل دیے لاشوں کو دھکیلا جا رہا ہے، اگر وہ ایسا نہ کریں تو یہ وائرس دوسروں کو لگ سکتا ہے۔ باپ نے بیٹے کو آواز دی، تُو کہاں چلا؟ جواب میں وہ بولا، آپ لوگ گھر جائیں میں اپنی ماں کو آخری بار الوداع کہنے کے لیے ان کے ساتھ جا رہا ہوں اور پھر اس نے اپنی موٹر سائیکل میت گاڑی کے پیچھے لگا دی، گاڑی چلتی رہی اور موٹرسائیکل دوڑتی رہی۔ ایک وسیع و عریض میدان کے سامنے گاڑی رکی، پولیس اور منتظمین بہت بڑی تعداد میں موجود تھے۔
ان لوگوں نے اسے داخل ہونے سے روک دیا لیکن وہ اندر جانے کی کوشش کرتا رہا، اسی دوران پولیس اہلکار غصے سے بولا کہ " اگر آپ کا رویہ ایسا ہی رہا تو ہم آپ کو گرفتار کرکے تھانے بھیج دیں گے۔ یہ۔۔۔۔ یہ میری ماں ہے، میری زندگی ہے، اس ماں نے اپنی جوانی کی مہکتی ہوئی بہاریں ہم پر نچھاور کی ہیں اب اس پر برا وقت ہے تو کیسے میں اسے اکیلا چھوڑ دوں؟ اور کس طرح آپ اسے جانور کی طرح لے آئے ہیں، مجھے میری ماں واپس کر دیں، ہم خود اپنی ماں کا آخری فریضہ انجام دے لیں گے۔
اور ہاں سنو! انھیں کورونا نہیں تھا، سازش کے تحت کورونا کیسز بڑھائے جا رہے ہیں " اس کی دردناک تقریر سن کر حوالدار کو رحم آگیا، اسے محبت سے سمجھایا اور اپنی موبائل میں بیٹھنے کا مشورہ دیا کہ وہ اس میں بیٹھ کر تمام کارروائی دیکھ لے اور اس کے ایصال ثواب کے لیے قرآنی آیات کا ورد کرے، اولاد کے لیے یہ سب سے اچھا عمل ہے اس بات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرو کہ بندے کو جانا تو زمین کے اندر ہی ہے، اب چاہے یہ زمین ہو یا قبرستان کی ایک ہی بات ہے۔" ایک ہی بات کیسے ہو سکتی ہے" وہ تلملاتا ہوا بولا، اس زمین پر تھوڑے دن پلازہ بن جائے گا، بلڈنگیں تعمیر ہو جائیں گی جب کہ قبرستان ہمیشہ رہے گا اپنے کتبوں کے ساتھ، برخوردار قبرستان کی زمینوں پر بھی لینڈ مافیا خرید کر اس پر اپارٹمنٹ بنوا دیتی ہے، تُو فکر نہ کر، بس دعا کر اس بار اس غم زدہ شخص نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا اس کی ماں کو سو ڈیڑھ سو گز کی چادر کے درمیان میں رکھ کر قبر کی آغوش میں پہنچا یا جا رہا ہے دور دور تک مٹی مرغولوں کی شکل میں اڑ رہی ہے، دھول کا طوفان آیا ہوا ہے، یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے سورج سوا نیزے پر اتر آیا ہو اور قیامت بپا ہوگئی ہے۔
کراچی کا ہی یہ دوسرا گھر ہے اور یہ اس کی ہی کہانی ہے گھر میں گہرا سناٹا ہے کسی کے بولنے یا کام کاج کی آوازیں معدوم ہوگئی ہیں، اچانک بیل بجتی ہے ایک مرد دروازے کے قریب آکر پوچھتا ہے۔ کون ہے؟ آپ باہر آئیے آپ سے بات کرنی ہے، آتا ہوں، وہ مرد واپس پلٹا ہے اور اپنی بیوی سے دبی آواز میں بولا ہے، اندر سے کمرے کا دروازہ لاک کرلو، اور پھر وہ بیرونی دروازے کی طرف دوڑا، دروازہ کھولا تو اپنے سامنے کھڑے اشخاص کو دیکھا، ان میں سے ایک نے راز دارانہ انداز میں کہا" آپ میت ہمیں دے دیں " مرد کا رنگ زرد ہو گیا ہے۔
وہ سوچ رہا ہے، ہم نے تو بیماری سے موت کی منزل تک ہوا نہیں لگنے لگی، پھر یہ خبر کس طرح پہنچی، آدمی دوبارہ بولا "مطلب میرا یہ ہے ہم اسے کورونا میں ڈال دیں گے اور اس کے بدلے ہم آپ کو تین لاکھ نقد دیں گے۔ آپ میرے باپ کی لاش کا سودا کرنے آئے ہیں " بیٹے نے آنے والے کا گریبان پکڑ لیا۔ دوسرے نے مداخلت کی" ارے، ارے آپ یہ کیا کر رہے ہیں، آپ نہ دیں مگر یہ طریقۂ واردات درست نہیں ہے۔ اور آپ لوگ جو یہ غیر انسانی کام کر رہے ہیں یہ درست ہے؟ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ اس بات سے نہ آپ واقف ہیں اور نہ ہم۔ اور ہاں خبردار! کسی سے ذکر کیا ہو؟ ورنہ آپ کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔"پھر وہ دونوں چلے گئے وہ اندر آیاباپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور دھیمے سے بولا "آپ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی مسجد کے امام صاحب سے بات کرلی ہے اور قبرستان میں ہی آپ کی تدفین ہوگی، لیکن گورکن نے قبر تیار کرنے کے پچاس ہزار لیے ہیں اور اتنی ہی رقم سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے دینی پڑی ہے لیکن رقم تو گئی لیکن میں آپ کا بیٹا یہ بات ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں کہ میرے والد کی موت کورونا سے نہیں ہوئی ہے۔" ایسی ہی بے شمار کورونا کہانیاں دنیا کے چپے چپے پر بکھری ہوئی ہیں، ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں، ایسی دردناک داستانیں کہ کلیجہ منہ کو آ رہا ہے، لاہور کے ایک اسپتال کے اس آدمی کی کہانی بھی دل پر نشتر لگا رہی ہے جس کی بیوی کو زبردستی کورونا میں ڈالا گیا اور لاکھوں روپے وصول کیے اور اب وہ وینٹی لیٹر پر لیٹی موت و زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔
میری حکومت سے مودبانہ درخواست ہے کہ خدارا ایسا نہ کیجیے، اپنی موت کو ضرور یاد رکھیں، کہیں آپ کے ساتھ بھی ایسی ہی کہانی کا آغاز اور انجام نہ ہو۔ اللہ سے ڈریں، پیسہ دولت سب یہاں رہ جاتا ہے، کفن میں جیب نہیں ہوتی ہے بندے کو خالی ہاتھ جانا پڑتا ہے، دوسروں کے لیے آپ کیوں جہنم کا انتخاب کر رہے ہیں، سوچیے ٹھنڈے دل سے۔