قومی ایئرلائن کا بدقسمت طیارہ پی کے 8303 کراچی میں کریش ہو گیا، جائے حادثہ جناح گارڈن کا رہائشی علاقہ تھا تقریباً سو افراد سوار تھے، 97 لاشیں نکال لی گئیں جب کہ دو افراد معجزانہ طور پر بچ گئے۔
بے شک جسے اللہ رکھے یہ دلخراش خبر ان لوگوں کے لیے جان لیوا تھی جن کے پیارے شہید ہوگئے تھے، بے شمار گھرانوں میں صف ماتم بچھ گئی ہمارے حلقہ احباب میں معروف شاعرہ ہما بیگ کے صاحبزادے وحید بیگ بھی دنیا چھوڑنے والوں میں شامل تھے یہ خبر مجھے ممتاز ادیبہ عذرا اصغر نے فون پر سنائی، کلیجہ منہ کو آگیا، وہ بھی سسک رہی تھیں میری آنکھیں بھی اشکبار ہوگئیں۔ ماؤں اور لواحقین پر غم کا پہاڑ ٹوٹا تھا، زخمیوں کی اطلاع آنے پر امید کا چراغ ٹمٹماتا رہا آخر کار ہوا کے تیز جھونکے نے اسے بھی گل کردیا، اب آنسو، آہیں اور سسکیاں تھیں۔
ہما بیگ نے تقریباً 10-9 سال قبل اپنا شعری مجموعہ کیکٹس کے روپ (Cacktus Ky Roop) مجھے عنایت کیا تھا، میں نے سوچا تھا کہ اس پر ضرور لکھوں گی لیکن یہ کتاب دوسری کئی کتابوں کی طرح کتابوں کے انبار تلے دب گئی، جس کا مجھے ملال تھا، اب مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ ان کی کتاب بھی مجھے کس موقع پر یاد آئی، بہرحال تلاش بسیار کے بعد وہ کتاب مجھے مل گئی، پہلا ہی شعر حسب حال ہے:
دہر میں موت کی چادر نے لپیٹا سب کو
اب جو سورج نکل آیا تو قیامت ہوگی
موت کے گہرے سمندر میں اترنے والو
یاد آئے گی تمہاری تو اذیت ہوگی
ایک شعر اور بھی سنیے!
باندھ لو رختِ سفر آنکھ بھی بیدار ہے
حادثہ عمر کے داماں میں کوئی اور بھی ہے
شاعری کی چھٹی حس نے انھیں پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ ان کی زندگی میں کوئی بڑا سانحہ ہونے کو ہے، جو ہو گیا، جواں سالہ بیٹے کی موت سے بڑھ کر بھی کوئی سانحہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے قبل ازوقت موت کی وادی میں اترنے والوں کو آواز دی ہے اور موت کا بار بار ذکر کیا ہے۔ اللہ انھیں اور شہدا کے چاہنے والوں کو صبر کا امرت دھارا پلا دے۔ ( آمین۔ )
ہما کی یہ کتاب 150 صفحات کا احاطہ کرتی ہے، وہ محبت کی شاعرہ ہیں ان کی غزلیات ہجر و وصال کے دلکش رنگوں سے مرصع نظر آتی ہیں، سہل ممتنع میں کی گئی شاعری قاری کو متاثر کرتی ہے اپنے تجربات اور مشاہدات کو شعری آہنگ اس طرح عطا کیا ہے:
میرے خلاف تو یوں بھی نیا زمانہ ہے
کہ مرا طرزِ محبت بہت پرانا ہے
میں زخم زخم ہوئی ہوں کچھ اس طرح کہ مجھے
نسیم صبح کا جھونکا بھی تازیانہ ہے
تباہ شدہ طیارے کے کیپٹن سجاد گل کا حوصلہ بھی قابل توصیف تھا، موت سامنے تھی لیکن وہ بڑے اعتماد کے ساتھ جہاز اور اس کے انجن کی تباہی کی اطلاع بے حد سکون کے ساتھ دے رہے تھے، وہ جانتے تھے، یہ موت عام نہیں بلکہ خاص الخاص ہے، شہادت کا تاج ان کے سر پر سجنے والا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق جہاز کے ملبے سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی رہیں۔ اللہ اکبر۔
طیارہ حادثے کا غم اور عید تقریباً ایک ساتھ ہی منظر عام پر آئی، خوشی کی بات یہ تھی کہ چاند کے طلوع ہونے پر مفتی منیب الرحمن اور وفاقی وزیر فواد چوہدری ایک ہی پیج پر نظر آئے جوکہ خوش آیند بات تھی اس طرح پوری دنیا میں اچھا تصور گیا اور پورے پاکستان میں ایک ہی دن عید منائی گئی، ورنہ ہر سال دو عیدیں منائی جاتی ہیں، آپس میں اتحاد و یگانگت کی شدید کمی ہے۔ حادثے کے حوالے سے اس وقت مجھے ایک صاحب کی پوسٹ یاد آگئی وہ لکھتے ہیں کہ میں جب نماز پڑھ کر آیا تو دیکھا چاروں طرف دھواں ہی دھواں تھا، میں جائے حادثہ پر بہت جلد پہنچ گیا ملیر کینٹ کی چیک پوسٹ نمبر 2 سے پاک فوج کی گاڑیاں نکل کر علاقے کو کور کرنے میں مصروف تھیں ہر طرف وردی ہی وردی نظر آرہی تھی۔
میرے سامنے آگ ہی آگ تھی، فوج کے جوان علاقے کو خالی کروا رہے تھے تاکہ مزید نقصان نہ پہنچے، میں بھی رضاکاروں میں شامل ہو گیا مگر جو رویے اور جو حرکات و سکنات میں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی دیکھیں اس کا ذکر بھی ضروری ہے، پہلے تو اہل علاقہ کا ذکر اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں ہمارے جوان اور رضاکار دھوئیں کے باعث گھٹن اور روزے سے نڈھال ہو رہے تھے لیکن اسی دوران محلے کے لوگ فرشتوں کی مانند ہماری مدد کے لیے آگے بڑھتے چلے آئے جو ہمارے سروں پر ٹھنڈا پانی ڈالتے، ٹھنڈے پانی سے منہ دھلا کر تازہ دم کرتے اور پھر سے ہم ریسکیو کرنے میں لگ جاتے۔
اور یہ وہ وقت ہے جب انسان ہر لمحہ توبہ کرے کہ ایک ننھے جرثومے نے انسان کو جیتے جی مار دیا ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ مرنا بھی مشکل اور جینا بھی مشکل۔ دکھ اس بات کا بھی ہے ہمارے اپنے لوگ اس قدر ناعاقبت اندیش ہیں کہ بغیر احتیاطی تدبیر کے سڑکوں اور بازاروں میں گھومتے پھرتے نظر آرہے ہیں ایک موٹرسائیکل پر تین سے چار لوگ اطمینان و سکون کے ساتھ بیٹھ کر سفر کر رہے ہیں یہی گاڑیوں کا حال ہے پورا خاندان بیٹھا ہوا ہے، نہ اپنی جانوں کی پرواہ نہ اپنے بچوں کا خیال اسی لیے کورونا کے مریضوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کاش لوگ سمجھیں کہ وہ دانستہ طور پر موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اللہ ہمیں اپنا رحم عطا فرمائے اور کوتاہ عقل کے مالکان کو عقل سلیم سے نوازے۔ (آمین)