ہر سال آزادی کا دن اس پاک سرزمین پر جلوہ گر ہوتا ہے یہ خاص دن جھنڈا لہرانے اور جھنڈیاں سجانے تک محدود ہے اس کے ساتھ کچھ پروگرام اور کچھ مضامین کی اشاعت اس کے سوا کسی قسم کی ترقی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے، البتہ تنزلی اپنی برق رفتاری کے ساتھ کچے پکے راستوں پر گامزن ہے، ہر شخص کو مختلف جالوں میں بند کردیا گیا ہے، یہ پاکستان کی بدنصیب عوام غربت و افلاس کے خول میں مقید ہے، جہالت، ناانصافی اور ستم کی چکی میں پیسی جا رہی ہے۔
نہ اس قوم کو پینے کا پانی میسر ہے اور نہ قیامت خیز گرمی میں بجلی۔ انسان کی زندگی کا انحصار بنیادی ضرورتوں پر مبنی ہے، انھی میں پانی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔ زندگی کا دوسرا نام پانی ہے۔ پانی ہمارے ملک میں میسر نہیں لیکن ٹینکروں کے ذریعے پانی بیچنے کے لیے پانی ہی پانی ہے۔
حکمرانوں کی یہ ناکامی ہے جس پانی پر عوام کا حق ہے وہی پانی فروخت کیا جاتا ہے۔ بے چارہ مفلوک الحال طبقہ پیٹ کے لیے ایندھن کا انتظام کرے یا مہنگا ترین وہ پانی خریدے جو اس کی ہفتہ بھر کی کمائی ہے۔ اسی لیے وہ پانی خریدنے کی اپنے میں سکت نہیں پاتا، مجبوراً وہ اور اس کے بیوی بچے پانی کی تلاش میں گلی کوچوں میں سرگرداں رہتے ہیں۔
بجلی کا بھی یہی المیہ ہے۔ کے الیکٹرک کا ادارہ اپنی ذمے داریاں نبھانے سے قاصر رہا ہے۔ غیرذمے داری کا رویہ اپنانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ جب بھی برسات ہوتی ہے دس، پندرہ لوگ کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ دو روز قبل کی بات ہے جب کرنٹ لگنے سے تین سگے بھائی اپنی دادی کے ساتھ موت کی آغوش میں چلے گئے، ان کی بلا سے کہ کسی کے گھر سے ماں کا جگر چھلنی ہو جائے، باپ کا سہارا اور بہنوں کا مان اور محافظ رخصت ہو جائے، انھیں فرق نہیں پڑتا ہے۔
یہ تو اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں کہ بڑے بڑے بل بھیجیں اور لوڈ شیڈنگ یوں ہی کرتے رہیں۔ یہ لوگ اندھیرے بیچتے ہیں اور موت کا بازار سجاتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ انھیں کچھ ہونے والا نہیں، کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا ہے۔ اگر کسی سنگین کیس میں سزا سنا بھی دی گئی تو عمل کرنے کا دن کبھی نہیں آئے گا، بڑے بڑے مجرم جیلوں میں سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور کچھ عرصے بعد باقاعدہ قانون رہائی کا پروانہ جاری کردے گا اور بس۔ ایسا ہی ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔
میرے ایک اسٹوڈنٹ نے بتایا کہ فلاں شخص نے لاکھوں روپے دے کر نوکری خریدی ہے اور مجھ جیسے جن طلبا کے پاس رشوت دینے کے لیے رقم نہیں ہے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بھی معمولی سی ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ جرائم اسی طرح بڑھتے ہیں جب حق دار سے اس کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم اسی لیے وجود میں آئی تھی لیکن بعد میں انھوں نے اپنی راہ بدل لی۔
حکمرانوں نے پاکستان کو یرغمال بنالیا ہے وہ آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں۔ کیا قائداعظم نے تن من اور دھن دولت کی بازی لگا کر اسی لیے یہ ملک بنایا تھا؟ لوٹنے اور اس ملک کا حصے بخرے کرنے والوں کا تو قیام پاکستان میں کوئی کردار نہیں تھا لیکن قبضہ اس طرح کیا ہے گویا ان کی ذاتی جاگیر ہو۔ سوچنے کی بات ہے کہ تعمیر پاکستان کے لیے آزادی سے سرشار بے شمار لوگوں کا لہو کام آیا تھا۔
مہاجرین سے بھری ہوئی ٹرینوں کو خون سے نہلا دیا گیا تھا، اس مہاجرت میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے تھے۔ آج کی نسل اس خونی داستان سے ناواقف ہے، اس موقع پر ڈاکٹر خالد ندیم کی ایک تازہ نظم یاد آگئی ہے جسے انھوں نے بڑی دردمندی کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ نذر قارئین:
تمہیں خبر ہے؟
کہ کتنی جانیں لٹا کر ہم نے تمہاری خاطر وطن لیا تھا
ہر اک خیاباں کو خون دے کر چمن گلابوں سے بھر دیا تھا
تمہیں خبر ہے؟
صحیفہ ہائے بنات کے جب غلاف مٹی میں رُل گئے تھے
درندگی کے قبیح ہاتھوں ورق ورق میں بدل گئے تھے
تمہیں خبر ہے؟
کہ کتنے اطفال ماں کی حرمت بچا کے خود جھاڑیوں کی جھولی میں سو گئے تھے
چراغ کتنے، جو وحشتوں کی اندھیر نگری میں کھو گئے تھے
تمہیں خبر ہے؟
کہ کتنی روحیں ازل سے جو تا ابد رواں تھیں
وہ برچھیوں سے کلام کرتے پلٹ گئی تھیں
تمہیں خبر ہے؟
جوان کتنے، نحیف کتنے، ضعیف کتنے
جو آگ دریا کو پار کرکے
مہاجرت کا عذاب سہتے
وطن کی مٹی پہ ہونٹ رکھے
نجانے کیا کچھ بتا رہے تھے
تمہیں خبر ہے؟
کھلی فضاؤں میں سانس لینے کے پیچھے کتنی قیامتیں ہیں
تمہیں خبر ہے؟
تمہیں خبر ہی نہیں ہے شاید
تمہیں تو کچھ بھی خبر نہیں ہے
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے۔ پاکستان کو سوائے ایک دو کے کوئی مخلص حکمران میسر نہیں آیا ہے۔ البتہ باریاں لگانے والوں کی کمی نہیں، اس انداز فکر سے خوب پیسہ لوٹا اور آج جب کہ مقدمات بھگت رہے ہیں۔