حسرت موہانی 1875 میں موہان میں پیدا ہوئے، ایم اے او کالج علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز طالب علم کے ہی زمانے میں کیا تھا۔ وہ ایک جرأت مند صحافی اور سیاستدان تھے ان کی ہمت و جرأت اور سچائی نے انھیں ہردلعزیز بنا دیا تھا۔ سیاسی قائدین میں ان کا نمایاں مقام و مرتبہ تھا، قائد اعظم محمد علی جناح ان کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔
شاعری کا ذوق کم عمری ہی سے تھا، جب وہ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انھوں نے علی گڑھ سے ایک رسالہ اردوئے معلیٰ جاری کیا اسی دوران شعرائے متقدمین کی شاعری کا انتخاب کرنا شروع کیا۔ حسرت موہانی کانگریس میں شامل تھے جب کہ حکومت وقت کانگریس کے خلاف تھی۔ چنانچہ 1907 میں ایک مضمون شایع کرنے پر انھیں جیل بھیج دیا گیا اپنے افکار و نظریات کی بنا پر انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن حوصلہ نہیں ہارا اور مشق سخن سلسلہ بھی جاری رہا۔
حضرت غزل گو شاعر تھے اور امام المتغزلین کی حیثیت انھیں حاصل تھی، بندش میں چستی اور روانی ان کی شاعری کی خصوصیت ہے، تخیل کی پاکیزگی سے ان کا کلام مرصع ہے۔ حسرت کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے لکھنوی زبان میں مکتبہ دہلی کے رنگ میں ترجمانی کی ہے۔ سادگی اور لطافت ان کی شاعری کا خاص جوہر ہے۔ ان کی غزل گوئی کا بہترین دور 1908 سے 1912 تک کا ہے۔ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد ان کے شعر و سخن میں بھی انقلاب نے جگہ بنالی ان کی انقلابی شاعری کا رنگ بھی جوش و ولولے سے آراستہ ہے۔ اس کے ساتھ حسن و عشق کے مضامین کو انھوں نے شاعری کے پیراہن میں ڈھالا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانہ یاد ہے
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہارِ حسن
آیا میرا خیال تو شرما کر رہ گئے
آپ کو آتا رہا میرے ستانے کا خیال
صلح سے اچھی رہی مجھ کو لڑائی آپ کی
ان کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ کی رائے یہ ہے کہ "حسرت محبت کے خوشگوار ماحول کے بہترین مقبول ترین اور مہذب ترین مصور اور ترجمان تھے، وہ خالص غزل کے شاعر تھے ان کے شعروں میں ہر اس شخص کے لیے اپیل کی گنجائش ہے جو محبت کے جذبات سے آشنا ہے۔"
بقول آل احمد سرور "عشق ہی ان کی عیادت ہے، عشق کی راحت اور فراغت کا یہ تصور ان کا اپنا اور یہ تصور ہی حسرت کو نیا اور اپنے زمانے کا ایک بہترین شاعر ثابت کرسکتا ہے۔"
حسرت موہانی کی اردو غزل گوئی میں انفرادیت مسلم ہے۔ حسرت نے قدیم غزل گو اساتذہ سے استفادہ کیا۔ ان کی شاعری اساتذہ کے رنگ سے ہم آہنگ ہے۔ تحریک پاکستان کے نامور رہنما اور غزلیات کے حوالے سے منفرد شاعر حسرت موہانی کا اصل نام مولانا فضل الحسن تھا۔ وہ ہندوستان ہی میں سکونت پذیر رہے لیکن قیام پاکستان کے بعد وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہے، انھیں مذہب سے قلبی لگاؤ تھا۔
وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ رہے لیکن اس کے باوجود ان کی عبادت و ریاضت میں کمی نہ آئی اور نہ جرأت حق گوئی سے منہ موڑا بلکہ اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کی محبت، عقیدت اور اسلامی ارکان کی پابندی کے لیے ہر لمحہ تیار رہے اسلام کی محبت انھیں بیت اللہ کی زیارت کے لیے لے گئی اس طرح انھیں 9 بار حج کی سعادت نصیب ہوئی۔
حسرت موہانی کی شاعری میں فلسفہ کی آمیزش انھیں دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔
دیکھنا بھی تو انھیں دور سے دیکھا کرنا
شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا
حسرت بہت بلند ہے مرتبۂ عشق
تجھ کو تو مفت لوگوں نے بدنام کیا
حسرت موہانی نے محض شاعری ہی میں نام نہیں کمایا بلکہ آزادیٔ کامل ان کا نصب العین تھا۔ جہد مسلسل نے انھیں تحریک آزادی کا ہیرو بنادیا انھوں نے کبھی برطانوی استعماریت اور ہندوؤں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا حصول آزادی کا نعرہ بلند کرنے پر کئی بار انھیں قید فرنگ میں رہتے ہوئے اذیتیں برداشت کرنی پڑیں۔ دوران قید ان سے گندم پسوائی جاتی۔
اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ان کے ہاتھوں کا پسا ہوا آٹا نفرت اور مذہبی تعصب کی بنا پر جیل کا وارڈن غائب کردیتا جس کی پاداش میں ان کے برہنہ بدن پر پانچ بید فی سیر کے حساب سے مارے جاتے اور وہ آزادی کے حصول کے لیے ذہنی اور جسمانی تکلیف برداشت کرتے دوران اسیری حالات و واقعات کے زیر اثر یہ شعر تخلیقی وجدان سے گزرا۔
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
حسرت فارسی اور عربی پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے اسی وجہ سے ان کے اردو کلام میں فارسی تراکیب کافی تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ حسرت موہانی اردو کے مایہ ناز ادیب اور ایک بے مثال غزل گو ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین اور بالغ نظر نقاد بھی تھے۔
نیاز فتح پوری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "پچھلے پچاس سال کے اندر سب سے پہلے جس نے تغزل کا صحیح معیار پیش کیا اور لکھنو کی الہامی شاعری کی طرف سے جس نے دفعتاً زمانے کا رخ پھیر دیا وہ صرف حسرت کی ذات تھی ان کا کوئی ہمسر نہیں۔ ان کی غزل سے چند اشعار:
شعر دراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
وہ چپ ہوگئے مجھ سے کیا کہتے کہتے
کہ دل رہ گیا مدعا کہتے کہتے
مرا عشق بھی خود غرض ہو چلا ہے
ترے حسن کو بے وفا کہتے کہتے