Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Hamdia Shayari Aur Natia Cho Khumbian

Hamdia Shayari Aur Natia Cho Khumbian

اس وقت میرے سامنے دو اہم ترین کتابیں نعت و حمد کے حوالے سے موجود ہیں۔ بعنوانات "نعتیہ چوکھمبیاں " اور "حمدیہ شاعری کی متنی وسعتیں "۔ اول الذکر کے خالق یوسف راہی چاٹگامی دوم کے ڈاکٹر عزیز احسن ہیں۔ ڈاکٹر عزیز احسن کی زیادہ تر نعتیہ کتب تنقید کے حوالے سے ہیں۔ نعتیہ مجموعے بھی شایع ہوچکے ہیں۔

یوسف راہی کی کتاب "نعتیہ چوکھمبیاں " پر لکھنے سے پہلے کیوں نا "نعت کا تخلیقی سفر" کے حوالے سے اپنے قارئین کو معلومات بہم پہنچاؤں۔"حمد و نعت کے معنیاتی زاویے" میں مذکورہ مضمون درج ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں لکھا ہے "نعت کا تخلیقی سفر اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے حضور اکرمؐ کا نور تخلیق کیا تھا اس کے ساتھ ہی نبیؐ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے کی ہدایت بھی قرآن میں اسی وقت ہوگئی تھی، دنیائے آب و گل میں آپؐ کی آمد کی خبر دینے کے لیے ہر نبی نے آپؐ کی نعت کا انداز اختیار کیا تھا، جب کہ عام انسانوں میں نعتیہ اشعار کی تخلیق کا شرف پہلے پہل یمن کے بادشاہ تبع حمیری نے حاصل کیا تھا جو حضور اکرمؐ کی دنیا میں تشریف آوری سے تقریباً ایک ہزار سال قبل یثرب میں وارد ہوا تھا۔

باقاعدہ اشعار کی تخلیق میں حضرت حسان بن ثابتؓ کا نام نمایاں ہے۔ یہ بے شک ان کی خوش نصیبی ہی تو تھی کہ انھیں حضور اکرمؐ ﷺ کی محفل مبارکہ میں منبر پر کھڑے ہوکر نعتیہ اشعار پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

کوئی مقصود نہیں تیرے سوا

خوشبوئیں، روشنیاں رنگ ہوا

خامشی قہقہے الفاظ نوا

چاندنی دھوپ ستارے شبنم

زندگی حسن نظارے موسم

فانی چیزوں کی طلب فانی ہے

اک تیری ذات ہے برحق مولا

تُو ہے بس عشق کے لائق مولا

کوئی مقصود نہیں تیرے سوا

"نعتیہ چوکھمبیاں " کی اشاعت رنگِ ادب پبلی کیشنز سے ہوئی ہے، اس کے مصنف یوسف راہی ہیں۔ شعر و سخن اور علم و ادب کے حوالے سے وہ اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ کئی علمی و ادبی اور سیاسی پرچوں سے وابستہ ہیں، سیاست پر ان کی گہری نگاہ ہے۔"زاویہ نگاہ" کراچی کے مدیر ہیں۔ ممتاز شاعر، نقاد اور محقق محسن اعظم محسن ملیح آبادی کی رائے کے مطابق یوسف راہی چاٹگامی عہد حاضر کے ان ذہین شعرا میں سے ہیں جن میں اختراعی شعور پایا جاتا ہے۔

یوسف راہی صاحب نے ایک نئی صنفِ سخن "چوکھمبی" اختراع کی ہے۔ اردو اصنافِ سخن میں قطعہ چار مصرعوں کی ایک صنف پہلے سے موجود تھی، شاعر موصوف نے روایتی قطعہ کی ہیئت بدل کر "چوکھمبی" اختراع کی ہے، "چوکھمبیوں " کے پہلے مجموعے میں، معاشرہ و عمل، حیات و کائنات کے موضوعات پر بڑی اعلیٰ چوکھمبیاں تخلیق کرکے اردو شعری ادب کے خزانے میں اضافہ کردیا ہے، میری انتقادی رائے میں وہ ایک زیرک شاعر ہیں اور ان کی شاعری میں زندگی پوری توانائی کے ساتھ ہے اور جمال شعریت سے معمور ہے۔

یوسف راہی نے اپنی ایجاد کردہ تخلیق کا تعارف اس طرح کرایا ہے:

ہے "چوکھمبی" اک ہیئت نوائے راہی

میں ہوں اس کا موجد ہے ایجاد میری

ہے "بحرِ تقارب" فقط بحر اس کی

پسندیدہ ہوگی یہ صنفِ سخن بھی

محقق ادیب اور شاعر شاکر کنڈان نے نعتیہ "چوکھمبیاں " پر اس انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے "ان نعتیہ چوکھمبیوں میں سے اکثر ایسی ہیں جو تلمیحاتی ہیں، یعنی ان کا مطالعہ تاریخ اسلام اور سیرت نبویؐ کے ادوار کے کئی در وا کرتا ہے۔ قبل از بعثت اور بعد از بعثت کی تاریخ کے اوراق نظروں کے سامنے آجاتے ہیں، گویا یوسف راہی کہیں سیرت نگار کے روپ میں، کہیں مورخ کی حیثیت سے نیز کہیں مبلغ کے رنگ میں اور کہیں مصلح کی صورت دکھائی دیتے ہیں مضمون نگار نے بحیثیت قاری اپنی کیفیات کا اظہار حضور سرور کونینؐ سے عقیدت و محبت کے نتیجے میں بڑے موثرانداز میں کیا ہے اور یہ حسن کمال تخلیق کار جناب یوسف راہی کا ہے انھوں نے بھی عشق محمدؐ کی سیرت طیبہ، آپؐ کا اسوہ حسنہ کو مد نظر رکھا اور پھر تخلیقیت کی روشنی سے اشعار کو جلا بخشی۔ چند چوکھمبیاں ملاحظہ فرمائیے:

اندھیروں میں تھا زندگی کا سفر

حضورؐ آپ نے بخشی فکر و نظر

جنھیں کچھ نہ تھی اس جہاں کی خبر

اندھیروں میں تھا زندگی کا سفر

بشر کو کیا آپؐ نے معتبر

ایک مومن کو حضور پاکؐ سے جو والہانہ عشق ہے وہ حضور پاکؐ کے لیے اپنا جان و مال ہر لمحہ قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ جہاد اس کی بہترین مثال ہے۔ اس عنوان کے تحت "یہ دنیا بنی ہے برائے رسول"

خوبصورت اشعار کی تخلیق کے عمل سے گزرتے ہیں۔

عمل اُن کے سب خوب سے خوب ہیں

وہی سارے عالم میں مرغوب ہیں

اندھیرے سبھی ان سے مغلوب ہیں

خدا کے وہی صرف محبوب ہیں

نبیؐ سے مجھے آگہی ہو رہی ہے

کہ اصلاح ہر دم مری ہو رہی ہے

مصقّل مری زندگی ہو رہی ہے

دل و روح میں روشنی ہو رہی ہے

میری دعا ہے یوسف راہی چاٹگامی سیرت پاک کی راہوں سے زمرد و یاقوت چن کر اپنی شعری آگہی میں ٹانکتے رہیں۔ بے شک نعت گوئی ایک عالم باعمل کے لیے سعادت سے کم نہیں۔