حضرت داتا علی ہجویری نمبر کچھ عرصے سے میرے مطالعے میں ہے، شہزاد سلطانی نے یہ پرچہ بطور سوغات مجھے عطا کیا تھا۔ اس کے چیف ایڈیٹر ملک محبوب الرسول قادری اور ایڈیٹر ملک محمد قمرالاسلام قمر صاحب ہیں اس کی سرپرستی میں علما ئے دین شامل ہیں اور مجلس تحریر اور مجلس مشاورت میں بھی اسلامی حوالے سے بڑے اہم نام نمایاں ہیں، مفتیان دین، علما ئے کرام پیرزادہ رضا قادری، علامہ قادری محمد زوار، مفتی محمد جمیل احمد نعیمی، محقق العصر مفتی محمد خان قادری کی تحریروں سے یہ پرچہ مرصع ہے، ضخامت کے بارے میں مکمل معلومات مضامین کی شکل میں فراہم کی گئی ہے۔
علامہ پیر محمد اسلم رضوی اپنے مضمون "حضرت سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا تصور علم" میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ داتا گنج بخش لاہوریؒ برصغیر پاک و ہند کے اولین مبلغین اسلام میں سے ہیں اور آپؒ کا مزار گوہر باران کے فیض کی وجہ سے عرصہ نو سو سال سے مرصع خاص و عام چلا آرہا ہے، ان کی تصنیف "کشف المحجوب" اطراف و اکناف میں شہرت و مقبولیت رکھتی ہے۔ علم کی اہمیت کے بارے میں حضرت سید علی ہجویریؒ قرآن و حدیث سے ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، علم والے ہی اللہ تعالیٰ سے خوف رکھتے ہیں اور حصول علم ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے چونکہ انسان کی عمر مختصر ہے اور علم کی کوئی انتہا نہیں، اس لیے انسان تمام علوم حاصل نہیں کرسکتا ا، لبتہ اتنا ہی علم حاصل کرنا فرض ہے جتنا شریعت سے متعلق ہو اور معاملات زندگی درست رہیں مثلاً علم نجوم جس سے اوقات کا تعین کیا جاسکے۔ علم طب اس قدر کہ صحت کی حفاظت ہوسکے اور اسی طرح علم حساب۔
علم ایک صفت ہے جس سے انسان عالم ہو جاتا ہے، حضرت داتا ہجویری کے نزدیک علم و عمل لازم و ملزوم ہیں۔ آپؒ کے نزدیک علم شریعت کے تین ارکان ہیں ایک کتاب الٰہی، دوسرا سنت نبویؐ اور تیسرا اجماع امت۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے فرمایا کہ جس کو معرفت کا علم نہیں اس کا دل جہالت کی وجہ سے مردہ ہے اور جس کے پاس شریعت کا علم نہیں وہ حق کی روشنی سے محروم ہے۔ اللہ کی معرفت نہ رکھنے کی وجہ سے کفار کے دل مردہ ہیں۔ اسی طرح غفلت میں مبتلا رہنے والوں کے دل مردہ ہوچکے ہیں۔"صوفی اور تصوف کشف المحجوب کے آئینہمیں " یہ مضمون پروفیسر اختر الواسع نے لکھا ہے اور اس کو پڑھنے کی سعادت دہلی میں حضرت خواجہ معین نظامیؒ کے عرس مبارک پر منعقد ہونیوالے بین الاقوامی سیمینار میں حاصل ہوئی۔
اس سیمینار کی صدارت ہارورڈ یونیورسٹی (جرمنی) کی پروفیسر این میری شمل نے کی بہت وقیع مضمون ہے ہر پیراگراف معلومات کے در وا کرتا ہے۔ رشد و ہدایت، طریقت و شریعت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ان کے مرتبے کا اندازہ صرف اسی سے ہو سکتا ہے کہ سید ہجویری اور مخدوم امم کا مرقد پیر سنجر (خواجہ معین الدین چشتیؒ) کا حرم رہ چکا ہے اور انھوں نے زمین ہند میں تخم سجدہ کی کاشت کی۔ (یعنی توحید الٰہی کی بنیاد ڈالی) اس پاسبان عزت ام الکتاب نے عہد فاروقیؓ کے جمال کو تازگی عطا کی اور خاک پنجاب کو اپنی سانسوں سے نئی زندگی بخشی حرفِ حق کو اپنی آواز سے بلند کیا اور اپنی ایک نظر سے باطل کو ختم کیا اس گنج بخش کے در پر گنج شکرؒ نے حاضری کو سعادت جانا اور معین الہندؒ نے اعلان کیا کہ
گنج بخش فیض عالم، مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں، را رہنما
شیخ ہجویریؒ نے کلام اللہ اور حدیث نبویؐ سے صوفی اور تصوف پر اپنی بحث کا آغاز کیا ہے اور انھوں نے سورۃ الفرقان کی آیت 23 سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو پیش کیا ہے۔ یعنی خاص بندگان الٰہی وہ ہیں جو زمین پر جھک کر چلتے ہیں اور جب جاہل انھیں چھیڑیں تو وہ بجائے جواب کے ان سے کہہ دیتے ہیں کہ "اچھاخوش رہو"(9)
پھر نبی کریمؐ سے منسوب اس قول کو پیش کیا ہے کہ "جس نے اہل تصوف کی آواز کو سن کر ان کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ اللہ کے نزدیک غافلوں میں لکھا گیا"
شیخ ہجویریؒ کے نزدیک صوفی وہ ہے جس کا قلب "صفا" صفائی سے لبریز ہو اور آلودگی سے پاک ہو اور ان کے نزدیک اس مرتبہ تک کاملان ولایت ہی پہنچ سکتے ہیں۔ حضرت داتا علی ہجویری کی کشف و کرامات کے تذکرے بھی کتابوں میں درج ہیں، آپؒ کے فیض اور تعلیم خدا شناسی کا یہ عالم تھا کہ کافر بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہتے تھے جس مقام پر آپ کا ڈیرہ تھا وہاں بیٹھ کر آپ نے زیادہ تر وقت تصنیف و تالیف میں گزارا، تبلیغ دین اور کلمۃ الحق کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ ہزاروں لوگ آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپؒ کی روحانی تعلیم اور فیض سے سرفراز ہوتے، بے شمار غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے۔
داتا صاحب کا ایک کرشمہ جوگی "رائے جو" کے حوالے سے بھی ہے ایک بار وہ آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا دودھ تو آپؒ نے بند کروا دیا، اب مجھ سے کوئی دودھ نہیں لیتا، آپ کی دعا کی برکت سے گاؤں والوں کے جانور وافر مقدار میں دودھ دینے لگے ہیں، اس کے علاوہ بھی کوئی کرشمہ ہو، تو دکھائیں۔ داتا علی ہجویری نے عاجزی سے کہا کہمیں تو اللہ کا ناچیز بندہ ہوں، البتہ تم میں کوئی کمال ہو تو اس کا مظاہرہ کرو، جوگی نے داتا کی فرمائش پر کئی کمالات دکھائے آخر میں وہ ہوا میں اڑنے لگا اور جب وہ ہوا میں اڑ رہا تھا تو اسی وقت ہجویریؒ نے جوتی اتار کر اس کی طرف پھینک دی چنانچہ ایک جوتی کی جگہ کئی جوتیاں اس کے سر پر پڑنے لگیں چنانچہ وہ شرمندہ ہوکر زمین پر اتر آیا اور اترتے ہی آپؒ کے قدموں پر گر پڑا اور اسلام قبول کرلیا اور مرید بن گیا۔ سماع کے بارے میں آپ کا کہنا تھا کہ اگر سماع کے معانی حق کی نشاندہی کریں گے تو ایسی صورت میں سماع کا سننا جائز ہے، ورنہ نہیں۔
حضرت داتا گنج بخش نے حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا تو اللہ رب العزت نے آپ کو خوش الحانی اور خوش گلوئی عطا فرمائی ان کی آواز سحر انگیز تھی جہاں سے گزرتے اور پرندے آپ کی آواز سنتے تو آپؑ کے گرد جمع ہو جاتے، بہتے دریا رک جاتے، جس جنگل سے گزر ہوتا تو جانور مست و بے خود ہو جاتے۔ حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں سماع خداوندی کی طرف سے ایک کیفیت ہے پس جو اس کو حق کے لیے سنتا ہے وہ حق کی جانب مائل اور راغب ہو جاتا ہے اور جو نفسانی خواہشات کے لیے گانے اور گیت سماعت فرماتا ہے وہ زندیق ہو جاتا ہے۔ حضرت شیخ علی ہجویریؒ 9 محرم، 465 ھ کو بیانوے سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کے دربار میں پہنچ گئے لیکن تاریخ وفات میں اختلاف پایا جاتا ہے بہرحال اسلام کے افق پر چمکنے والا چاند اپنی روشنی پھیلا کے رخصت ہوا۔