"ہم، آلودگی اور ماحولیات" کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر معین الدین احمد ہیں، "خیابانِ سائنس" کی مصنفہ و شاعرہ پروفیسر شاہین حبیب کا تعلق درس و تدریس سے ہے، کئی ادبی انجمنوں کی سرگرم رکن کی حیثیت سے فرائض انجام دیتی رہی ہیں اور "حکایاتِ دوراں " قطعات پر مشتمل ہے اور یہ حلیم انصاری کی طنز و مزاح پر مبنی تیسری کتاب ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ معاشرتی تلخ حقائق کو بڑے موثر انداز میں شاعر نے الفاظ کا پیراہن عطا کیا ہے، اظہارِ جرأت اور ندرتِ خیال پر مشتمل شاعری کا بہترین اور قابلِ قدر مرقع ہے۔
تو سب سے پہلے جس کتاب پر ہم اظہار خیال کریں گے وہ ہے "ہم، آلودگی اور ماحولیات" کتاب کے مصنف نے پاکستان کے ان مسائل کی نشاندہی کی ہے، جن کی وجہ سے حضرتِ انسان پریشانیوں، ذہنی اذیت اور بیماریوں کا شکار ہو گیا ہے، غلاظت، گندگی اور کھلے ہوئے نالے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پانی کی قلت، مہنگی بجلی اور لوڈ شیڈنگ پاکستان کی شناخت بن گئی ہے۔
اس کے علاوہ غربت، افلاس، ناانصافی، ظلم و تشدد کی فضا بھی خوب پروان چڑھی ہے گزشتہ پندرہ بیس سال سے ایسے ہی حالات ہیں، آج جو تحریریں میرے قلم کی نوک پر نالاں و فغاں کی صورت میں آ کر رک گئی ہیں اسی دکھ اور تکلیف کو صفحۂ قرطاس کی نذر کر رہی ہوں کہ ماضی میں ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اپنی ذمے داریوں سے اس طرح چشم پوشی کی کہ پورا ملک مسائل کی دلدل بن گیا اس سے نکلنا ناممکنات میں سے نہیں ہے، انشا اللہ موجودہ حکومت کے طرز عمل سے حالات ضرور بدلیں گے۔
"ہم، آلودگی اور ماحولیات" کا تعارف قابلِ احترام انجینئر شفیع حیدر صدیقی نے ایک طویل اور وقیع مضمون کے ذریعے کرایا ہے۔ کتاب کا ایک مضمون "عمل کا ردِّعمل، سندھ کی زمین اور سمندر" ڈاکٹر صاحب نے پاکستانی حکمرانوں اور مقتدر حضرات کی نااہلی کا رونا رویا ہے کہ "آج کے ترقی یافتہ دور میں انسان جب کہ مریخ پر پہنچ رہا ہے، ہمارے ناخدا ابھی تک موہن جو دڑو سے باہر نہیں نکل پائے، بقول شاعر "برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر" لیکن جب یہی برق اغیار پر گرتی ہے تو وہ رونے دھونے کے بجائے اس کو اپنے قابو میں کرکے غلام بنا لیتے ہیں اور اپنے گھروں کو، شہروں اور کارخانوں کو منور کرلیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے 50 سال پرانے سمندر کا ذکر کیا جب سمندری پانی عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی قدم بوسی کیا کرتا تھا، انتظامیہ نے تفریح پر آنیوالوں کے لیے یہ آسانی پیدا کی کہ پتھروں کی ایک دیوار چن دی، آہستہ آہستہ مٹی کے اضافے کی وجہ سے پانی پیچھے ہٹنا شروع ہوگیا، یہی پانی کا وہ دباؤ ہے جب کراچی کے ساحل پر کم کیا گیا تو سندھ کے دوسرے علاقوں میں پھیل گیا۔" ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ تمام ہی مضامین قابل مطالعہ اور قابل توجہ ہیں کہ ان میں مسائل کا حل اور وسائل کے حصول کے آسان طریقے موجود ہیں۔
ہمتِ مرداں مددِ خدا والا معاملہ ہر اس شخص کو درپیش ہوتا ہے جو کام کرنا چاہتا ہے، جو مخلوقِ خدا کی خدمت اور اللہ کی رضا کا خواہش مند ہو۔"فضائی آلودگی اور ہماری صحت" کے حوالے سے مفید مشورے اور ساتھ میں آلودگی سے بچاؤ کے طریقے بیان کیے گئے ہیں، کتاب کے آخری مضمون "خطرات سے دو چار جنگلی حیات" میں بہت سے ان جانوروں اور پرندوں کے بارے میں معلومات کے دَر وا ہوتے ہیں جن سے ہر شخص واقف نہیں، ہمارے ملک میں انسانوں کی حفاظت ہے اور نہ جانوروں کی، ہر جان دار بے قدری کا شکار ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے قارئین کے لیے تمام مضامین میں معلومات کا بیش بہا خزانہ پیش کیا ہے۔ ممتاز شاعر، نقاد اور نثر نگار حلیم انصاری اب کسی تعارف کے محتاج نہیں، گزشتہ دس بارہ سالوں سے پھر گلستانِ ادب کے کارِ زار پر قدم رکھ چکے ہیں۔ حلیم انصاری کے قطعات کا مجموعہ چند ماہ قبل " الجلیس پاکستانی بکس پبلشنگ سروسز" سے شایع ہوئی ہے۔
اپنے مضمون " قطعاتی حکایت" میں لکھتے ہیں "سیاستِ دوراں " کے نام سے دو کتابیں پہلے ہی شایع ہو چکی تھیں، اس بار سوچا کہ سیاست کو حکایت سے بدل کر تبدیلی لائی جائے، سو اس کتاب کو "حکایتِ دوراں " کے کا نام دے دیا، یوں بھی اب سیاست میں نئی امیدوں کے چراغ روشن ہوئے ہیں، حالات بدلے تو نہیں تاہم اب تبدیلی کی ایک نئی روشن صبح کا اشارہ ضرور دے رہے ہیں۔ خواب زندہ رہیں تو تعبیر ملا کرتی ہے، سو خواب زندہ ہیں۔"
خواب بے شک زندہ ہیں، اللہ نے چاہا تو حلیم انصاری صاحب کی شاعری بھی سیاسی و ملکی تاریخ کے تناظر میں زندہ و تابندہ رہے گی۔ شاعر نے ملکی زوال، کرپشن، جھوٹ اور غیر منصفانہ رویے کی تاریخ رقم کی ہے۔
ڈیم بنیں یا سی پیک آئے، خود ہی سب کچھ کرنا ہے
ایٹم بم تک ہم نے بنایا پھر کس بات کا ڈرنا ہے
مافیا تھے کچھ سابقہ حاکم، لیڈر ان میں ایک نہ تھا
قوم کا سارا قرضہ ان کی جیبوں سے ہی بھرنا ہے
ایک اور قطعہ جو ان سیاست دانوں کی حقیقت کو آشکارا کرتا ہے کہ وہ جیلوں میں بند ہونے کے باوجود عیاشی بھری زندگی بسر کرتے ہیں، اس کی وجہ قانون اور انصاف کا قتل ہے جو چند سکّوں یا تعلقات کی نذر ہو جاتا ہے۔
جمہوریت کی پستی سے انجان بھی ہوں گے
بدکاریوں پہ سائیں کی حیران بھی ہوں گے
یہ مہ کو بدل دیتے تھے زیتون و شہد سے
لکھیں گے مؤرخ تو پریشان بھی ہوں گے
عوام پر جو ظلم و ستم توڑے گئے اسے کوئی بھولا تو نہیں ہے۔ آج بھی جرائم وطن دشمنوں کے ہاتھوں پنپ رہے ہیں، یہ لوگ ملک کا استحکام چاہتے ہی نہیں، قوم کے لیے تعلیم کی تمام راہیں مسدود کردی گئیں، شعور، آگہی کی دولت کو چھین لیا گیا۔ نوجوانوں کو اسلحہ دے کر ان کے مستقبل کو تاریک کردیا گیا، پھر اہلِ قلم نوحہ کیوں نہ لکھیں، ظلم کے خلاف لفظوں کی قندیل جلا کر صدا کیوں نہ لگائیں؟
پروفیسر شاہین حبیب کی کتاب "خیابانِ سائنس" 464 صفحات پر مشتمل ہے اور پانچ حصوں میں تقسیم ہے، اہم شخصیات کی رنگین تصاویر سے یہ کتاب مزین ہے، اور ان کی محنت ِ شاقہ علمیت اور قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پروفیسر شاہین بہت سی خوبیوں سے مالا مال ہیں۔" نظمِ کائنات " کے عنوان سے پابندی سے ایک جریدہ بھی نکالتی ہیں اس کے ساتھ ادبی سرگرمیاں اپنے گھر میں تقریبات کا انعقاد، یہ وہ خوبیاں ہیں جو مصنفہ کو دوسرے قلم کاروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ زیرِ نظر کتاب "خیابانِ سائنس " پر جید علما اور قابل قدر شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن (ایف آر ایس) نے شاہین حبیب کے بارے میں لکھا ہے:
"میں سمجھتا ہوں ادب اور شاعری بھی ہمیں مظاہرِ قدرت سے محبت کرنا سکھاتے ہیں، اسی لیے میں شاہین حبیب کی سائنسی شاعری کا مداح ہوں کیوں کہ اپنے سائنسی ادب کے ذریعے وہ سائنس کے تصورات اور سائنسی افکار کی تاریخ سے عوام کو روشناس کرا رہی ہیں، میری نگاہ میں یہ ایک علمی جہاد ہے۔" بڑے ہی اہم لوگوں کی آرا شاملِ کتاب ہیں۔ میں پروفیسر شاہین حبیب کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ یقینا "خیابانِ سائنس" کی اشاعت ان کا بڑا کارنامہ ہے۔