ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کے کالموں کا پانچواں مجموعہ بعنوان "جواہرالکالم" کافی دنوں سے میرے مطالعے میں ہے۔
ڈاکٹر صاحب تصانیف و تالیف کے اعتبار سے 25 کتابوں کے مصنف ہیں، اس کے علاوہ انھوں نے انگریزی میں بھی سائنس، تاریخ اور لائبریری کے حوالے سے خدمات انجام دی ہیں، ان کتابوں میں نصابی کتب بھی شامل ہیں جوکہ انٹرمیڈیٹ سال اول اور سال دوم کے طلبا و طالبات کے لیے لکھی گئی ہیں، بی اے سال اول کے لیے جامعات کے نصاب کے مطابق "نظری لائبریری سائنس کراچی" کے عنوان سے لکھی گئی کتاب کے کئی ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی ادب اور سائنس کے حوالے سے بہت کام کیا ہے، گویا ان کا اوڑھنا بچھونا علم کا حصول اور علم کی ترویج ہے، اگر ہم ان کے تمام علمی امور پر نظر ڈالیں تو چالیس کتابوں اور روداد اور رپورٹوں پر مشتمل ہے، انھوں نے اپنے مضمون "حرفِ آغاز" میں لکھا ہے کہ کالم نگاری ادب کی ایک ایسی صنف بن چکی ہے جس کے حوالے سے سب سے زیادہ لکھا جا رہا ہے۔
ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ یوٹیوب چینلز بھی مقبول ہو رہے ہیں تاہم اخبارات میں شایع ہونے والے کالم اورکالموں پر مشتمل مجموعوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، کالم مختلف ویب سائٹس کی بھی زینت بن رہے ہیں۔ ان کا فائدہ یہ سامنے آیا ہے کہ کسی بھی کالم نگار کے تمام کالم ایک جگہ میسر آجاتے ہیں۔ آج کی تاریخ تک میرے 800 کالم و مضامین ہماری ویب پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب حالات حاضرہ، ملکی و عالمی سیاست، معاشی اور معاشرتی حالات، کتابوں اور شخصیات پر سیر حاصل گفتگو فرماتے اور تجزیہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریروں میں مثبت سوچ، اعلیٰ فکر اور دانشوری کی جھلکیاں بخوبی نظر آتی ہیں۔ مصنف نے اپنے کالم خوش آمدید 2021 کی ابتدائی سطور میں لکھا ہے ہمارا نیا سال یعنی اولین مہینہ تو محرم الحرام ہے جب کہ آخری مہینہ ذوالحج کا ہے یعنی ہماری ابتدا قربانی، ہماری انتہا قربانی ہے۔
پاکستان قائم تو ہوا اسلام کے نام پر لیکن بہت سے معاملات میں اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں ہوتا۔ سب سے اہم بات محنت کشوں کو تنخواہ ملتی ہے انگریزی مہینے کے اعتبار سے چھٹی کے معاملے میں ہماری قوم خودکفیل ہے، یعنی اسلامی تہوار ہو تب چھٹی، انگریزی مہینوں کے خاص دنوں کے حوالے سے تب چھٹی، اس لیے ہماری زندگی میں انگریزی ماہ و سال کا عمل دخل زیادہ ہے۔ حتیٰ کہ جمعہ کو ہونے والی چھٹی اتوار میں بدل گئی ہے۔
کالم نگاروں کی تحریریں تاریخ رقم کرتی ہیں، حالات زمانہ سیاسی بحران، حکومتوں کا عروج و زوال، دشمنان وطن، میر جعفر و صادق جیسے لوگ اپنے کرتوتوں کی بنیاد پر نمایاں ہو جاتے ہیں، لعن طعن اور تھوڑی بہت سزا بھی برداشت کرلیتے ہیں لیکن اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے اور ملک کی بنیادوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صمدانی کے مضمون "ڈسکہ میں خون خرابہ، پنجاب سینیٹ میں مفاہمت" یہ کالم مارچ 2021 کو پرنٹ میڈیا یا ویب سائٹ پر جلوہ افروز ہوا تھا۔ مختصر پیراگراف اور چند جملے نذرِ قارئین۔
"کسی نے بہت درست کہا ہے کہ جب سے عمران خان کا اعلان ہوا کہ وہ وزیر اعظم بنے گا وہ جماعتیں جو نصف صدی سے ملک میں حکمرانی کر رہی ہیں انھوں نے عمران خان کو تسلیم ہی نہیں کیا اور اسے سکون کا سانس ہی نہیں لینے دیا، ابھی اس حکومت کو مشکل سے سال ہی ہوا تھا کہ "کورونا" جیسی وبا نے پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو آلیا۔ کارکردگی کا گراف جو پہلے ہی نیچے جا رہا تھا کورونا کے باعث اور بھی گر گیا۔ عمران خان کے خلاف 11 جماعتیں متحد ہوگئیں۔ ہمارے سیاستدان محض اپنے مفاد کے لیے کارکنوں کو کنوئیں میں دھکیل دیتے ہیں اور انھیں آگے کرکے شہ دی جاتی ہے، ڈسکہ میں بھی مفاہمت سے کام لیا جاسکتا تھا، الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کا ضمنی انتخاب کالعدم قرار دے دیا وجہ یہ بتائی کہ اس میں سخت قسم کی بے قاعدگیاں ہوئیں۔"
جناب صمدانی صاحب کے تمام کالم حالاتِ حاضرہ کا نوحہ بیان کرتے ہیں انھوں نے سچائی کے ساتھ معاشرتی برائیوں کو لفظوں کا جامہ پہنایا ہے۔ ایک بے حد موثر نظم "تبدیلی سرکار کے دو ہی سال" ملاحظہ فرمائیے:
تبدیلی سرکار نے گزارے ہیں دو ہی سال
کر کچھ نہ پائے روتے ہی رہے سارا سال
احتساب کے نعرے نے پہنچایا اقتدار پر
سیاست کی نذر ہوگئے پورے ہی دو سال
چینی مہنگی، آٹا مہنگا، بجلی اور پٹرول بھی مہنگا
مہنگائی آسمان پر ان کے ہیں دو ہی سال
اب تو اشیائے ضروریہ اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ غریب تو غریب متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی دور ہوگئی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے تھا کہ خارجی حالات کے ساتھ ساتھ اندرونی حالات خصوصاً مہنگائی کے اژدھے کو بھی کچلنے کی کوشش کرتے اور اب بھی وقت ہے کہ وہ تنخواہوں اور روز کی اجرت میں اضافہ کریں، اس کے لیے قانون بنائیں ہر محلے اور کالونیوں میں سستی چیزیں فروخت کرنے کے لیے اسٹالز اور سستے بازار یا پھر گھروں پر پہنچانے کا انتظام کریں۔
کتاب میں شخصیات پر جو مضامین شامل ہیں وہ "عبدالقادر حسن کالم نگار و دانشور" کے عنوان سے پہلا کالم ہے اور پھر بہت سی اہم شخصیات شاعر، ادیب، استاد اور ڈاکٹر سلیم اختر جیسے بلند قامت نقاد محقق، غالبیات و اقبالیات اور ماہر نفسیات کے حوالے سے درج ہیں۔ نصیر ترابی کا کالم ایک روزنامہ میں 14 جون 2020 کو شایع ہوا، مکمل اور بھرپور معلومات اور یادوں سے آراستہ ہے۔ انھوں نے علامہ رشید ترابی کے بارے میں بتایا ہے کہ 1960 کی دہائی میں علامہ رشید ترابی ایک خطیب، ذاکر اور ایک مبلغ کی حیثیت سے بہت مقبول تھے بقول پروفیسر سحر انصاری، ان کی مثل کوئی خطیب اور خوبصورت الفاظ و اظہار ان کے بعد سے آج تک منبر نشیں نہیں ہو سکا۔"
علامہ رشید ترابی کے دو بیٹے تھے ایک عقیل ترابی دوسرے نصیر ترابی۔ عقیل ترابی نے اپنے والد کی پیروی میں خطابت کو اپنایا جب کہ نصیر ترابی کو شاعری سے رغبت تھی اور وہ مشاعروں کی نظامت خوبصورت انداز میں کیا کرتے تھے۔ ان کی تصانیف کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک مستند اور خاص اسلوب کے شاعر تھے۔ ان کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی، اس کا پہلا شعر:
وہ ہم سفر تھا کا عالم رہا جدائی نہ تھی
ان کے پہلے مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤںشعری مجموعہ "عکسِ فریادی" اور دوسرا "لاریب" اس مجموعے کی خاص خوبی یہ ہے کہ نصیر ترابی نے مختلف شاعروں کی زمین میں شعر کہے اور ان کا نام بھی لکھ دیا، جیسے برزمین میر انیس، برزمین مرزا غالب، برزمین میر، غالب کی زمین میں کہی گئی غزل کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:
میں سلامی ہوں، جن کا وہ بھی نصیر
کاش پوچھیں کہ مدعا کیا ہے
"ڈاکٹر سلیم اختر" کے عنوان سے جو ڈاکٹر رئیس صمدانی نے مضمون لکھا وہ اپنی طوالت کے باوجود بے حد معلوماتی موثر اور دلچسپ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ملاقات کا ذریعہ پروفیسر ڈاکٹر تونسوی مرحوم تھے۔ انھوں نے اپنے قارئین کی معلومات میں اضافہ کیا ہے کہ ڈاکٹر سلیم اختر کی تصانیف کی کل تعداد سو سے زیادہ ہے۔ اللہ انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ (آمین)