حال ہی میں مجھے کئی کتابیں موصول ہوئیں انھی میں ماہنامہ "شاہکار" اور "کھلتے گلاب" بھی شامل ہیں۔
ماہنامہ "شاہکار" کے چیف ایڈیٹر جناب ریحان احمد فاروقی ہیں جو بڑی محنت، جانفشانی اور ادب سے محبت اور لگن کی بنا پر یہ پرچہ نکالتے ہیں اور سالہاسال سے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کی اشاعت کا 27 واں سال ہے، ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم مذکورہ پرچے کا مکمل تعارف کرائیں تو میں شعری مجموعہ "کھلتے گلاب" پر گفتگو کرنے کی سعی کروں گی۔
"کھلتے گلاب" جناب عمر برناوی کا چوتھا شعری مجموعہ ہے جب کہ "گمنام شہید"، "احساس کی شبنم"، "نئے موسم کی خوشبو"، "گزرے برسوں میں نہ صرف یہ کہ اشاعت کے مرحلے سے گزرے بلکہ ناقدین و قارئین نے داد و تحسین سے بھی نوازا۔"نئے موسم کی خوشبو" مذہبی افکار اور اسلامی و قرآنی واقعات پر مبنی شاعری ہے اور 737 صفحات پر مشتمل ہے۔"نئے موسم کی خوشبو" ہر موسم میں تر و تازہ اور مہکتی رہتی ہے۔ یہی اس کی خاصیت ہے۔
اس کتاب میں جناب حیات رضوی امروہوی، مدیر ششماہی رسالہ "عمارت کار" اور راقم کا مضمون "کھلتے گلاب میری نگاہ" سے چند سطور۔ جناب عمر برناوی کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی شاعری کا خمیر ایمان کی روشنی اور وطن کی محبت سے سرشار ہو کر تیار کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری مذہبی عقیدت اور حب الوطنی کے جذبات سے مرصع ہوگئی ہے، وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں، انھوں نے اپنے احساسات کو شاعری کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے کہ قصائص انبیا کو شاعری کی شکل میں استعاروں کی زبان عطا کردی ہے، قاری کے لیے معلومات کے ایسے در وا کر دیے ہیں جہاں گلابوں کی خوشبو اور معطر ہوائیں اسے مسحور کر دیتی ہیں۔
"کھلتے گلاب" اس نام میں بڑی معنویت اور دلکشی ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ بوجہ قبطی کے قتل کے خوف سے مصر سے مدین ہجرت کرگئے اور جب تھکے ماندے مدین کے کنوئیں پر پہنچے تو دو لڑکیوں کو وہاں پایا جو پانی بھرنے کا انتظار کر رہی تھیں، حضرت موسیٰؑ نے ان کی مدد کی، ان میں سے ایک شرماتی ہوئی آئی اور اپنے والد صاحب کا پیغام پہنچایا، چنانچہ وہ اس کے ساتھ چل دیے، لڑکیوں کے والد ماجد حضرت شعیب علیہ السلام ان سے پورا واقعہ سننے کے بعد نہ صرف یہ کہ انھیں ملازم رکھ لیا، بلکہ اپنی صاحب زادی بی بی صفورا سے شادی بھی کردی، شاعر محترم نے اس واقعے کو شاعری کے خوبصورت پیراہن میں ڈھال دیا ہے۔
جناب عمر برناوی کی نگاہ سیاسی و معاشرتی حالات پر بہت گہری ہے، زندگی کے تلخ تجربات، زمانے کے حوادث نے انھیں سونے سے کندن بنا دیا ہے۔ تجربات کی بھٹی میں جل کر انھوں نے زمانے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کی غزلیات، قطعات اور نظمیں ان کا حال دل سنا رہی ہیں۔ تو پھر آئیے ان کی ہی زبانی شاعری کی شکل میں پڑھتے ہیں۔
آؤ وفا، جفا کا مل کر حساب کرلیں
اس زیست کے سفر کی پوری کتاب کرلیں
کتنی کڑی جفائیں کیں میں نے، وہ سب بتا دو
تم نے کیے کرم جو، سب احتساب کر لیں
ایک اور قطعہ:
آگ جو دل میں تھی اخبار تک آ پہنچی
ذہن میں تھی وہ، اب گفتار تک آ پہنچی
بات اب منبر و محراب سے بڑھتے بڑھتے
صاحبو! جبہ و دستار تک آ پہنچی ہے
ان کی غزلیات تابناکی کے ساتھ صفحہ قرطاس پر جلوہ گر ہوئی ہیں۔
بچھڑ گیا جو، وہ چہرہ گلاب جیسا تھا
سراپا اس کا غزل کی کتاب جیسا تھا
دھنک کے رنگ تھے سب رنگ اس کی آنکھوں کے
اور اس کا بولنا بجتے رباب جیسا تھا
یہ ماہ و سال کی پریاں کدھر گئیں اڑ کر
گزشتہ عمر کا وقفہ حباب جیسا تھا
عمر برناوی صاحب کا شعر و سخن نغمیت کے رنگوں سے مزین ہے۔ ان کی شاعری گہرائی اور گیرائی کی پرتو ہے۔ خیال کی بلندی ذہنی اپچ اور ندرت بیان، سطوت الفاظ نے ان کی شاعری کو امر کردیا ہے۔ معاشرتی و سیاسی داؤ پیچ کو انھوں نے شعری آہنگ اس طرح عطا کیا ہے ملاحظہ فرمائیے:
یہ کھیل سیاست کا پیارے مت کھیلو جان سے جاؤ گے
اس کھیل میں سر بھی کٹتے ہیں تم مفت میں جان گنواؤ گے
جو ساتھ تمہارے چلتے ہیں یہ سب مطلب کے ساتھی ہیں
یہ چڑھتے سورج کو پوجیں یہ سب پورس کے ہاتھی ہیں
اب آتے ہیں ماہنامہ "شاہکار" کی طرف۔ یہ پرچہ قابل مطالعہ ہی نہیں بلکہ قابل تعریف بھی ہے، قاری کے لیے بہت سی معلومات کے در وا ہوتے ہیں، ادب، سیاست، تاریخ، شخصیت، اسلامی اور معلوماتی مضامین اس پرچے میں شامل ہیں۔"یوم مئی 2021 زندہ باد" کے عنوان سے جناب ریحان فاروقی کا اداریہ آگہی کے چراغ روشن کرتا ہے، ریحان فاروقی صاحب نے یوم مئی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ "امریکی سماج اور عالمی سماج میں 1886 شکاگو میں ہونے والی تحریک عالمی نے مزدور تحریک کے ساتھ ساتھ ہر کسی کے غلامی کے نظام کو غیر انسانی قرار دیا اور آج پوری دنیا میں صدیوں پرانا نظام قانونی اور غیر اخلاقی قرار پا چکا ہے۔"
ممتاز شاعر، دانشور جناب مسلم شمیم نے مولانا جلال الدین روم کے حوالے سے بھرپور مضمون قلم بند کیا ہے۔ انھوں نے مولانا رومی کا تعارف کرواتے ہوئے لکھا ہے کہ مولانا تیرہویں صدی عیسوی کے عظیم شاعر، مفکر اور روحانیت کے علم بردار مصلح تھے، وہ ایک عظیم مرتبے پر فائز اسلامی درویش صاحب کشف و کرامات صوفی تھے۔ مولانا جلال الدین رومیؒ کی شاعرانہ عظمت کے حوالے سے "مثنوی روم" ان کا سب سے بڑا حوالہ ہے یہ 26 ہزار اشعار پر محیط ہے، بڑی تعداد میں رباعیات اور دیگر کلام بہ شمول دیوان شمس تبریز سے منسوب ہے جو ایک عظیم کلام کا درجہ رکھتا ہے۔
جناب حیات رضوی امروہوی کی تحریر حیاتیات بھی خاصے کی چیز ہے اور قرآن کے حوالہ جات نے ان کے مضمون کو سند بخش دی ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ الزخرف 43 ویں سورۃ ہے، آیت نمبر 32 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ترجمہ: "کیا لوگ تمہارے پروردگار کی رحمت کو بانٹتے ہیں؟ ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ہے اور ایک دوسرے پر درجے بلند کیے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں۔"
شاعر علی شاعر نے "آہ شمس الرحمن فاروقی" کے عنوان سے بہت پائے کا مضمون درج کیا ہے۔ انھوں نے شمس الرحمن فاروقی کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا ہے۔ ممتاز افسانہ نگار جناب اے خیام کا افسانہ "نامراد" بہترین افسانہ ہے جو شاہکار کی زینت بنا ہے اس کے علاوہ راقم کا افسانہ "قافلۂ حسینی" بھی شامل اشاعت ہے۔ ادبی لطائف بھی قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں، شعری مجموعہ "کھلتے گلاب" اور ماہنامہ "شاہکار" کی اشاعت پر میں خلوص دل کے ساتھ مبارکباد پیش کرتی ہوں۔