کالم توکراچی میں ہونے والے ٹریفک حادثات پر لکھا تھا لیکن ملکی صورت حال کی تبدیلی اور پی ڈی ایم کے عہدیداروں کے بیانات سن کر تحریر میں تبدیلی کرنی پڑی کہ حالات حاضرہ کی تلخیوں اور ناانصافیوں کا بھی ذکرہوجائے۔
سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کو فتح اور حفیظ شیخ کو شکست ہوئی، یہ وہی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہیں جنھوں نے اپنے دور اقتدار میں بعض حوالوں سے بہت شہرت حاصل کی تھی۔
پی ڈی ایم میں جتنی بھی جماعتیں شامل ہیں ان سب کی کہانیاں جدا جدا ہیں۔ تھر میں آج بھی بھوک سے معصوم بچے جان سے بے جان ہو رہے ہیں۔ اسی طرح دوسرے صوبے ضلع اور منی پاکستان کراچی کا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، غربت، افلاس، بچوں کا اغوا، موت، جرائم پیشہ افراد کی فائرنگ اور لوٹ مار ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے۔"مجھے کیوں نکالا" کا نعرہ لگانے والے آج پناہ کی تلاش میں ملک سے باہر ہیں۔
انھوں نے اس موقع پر موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے لیے کہا کہ " اگر عزت دار آدمی ہوتا تو اب تک استعفیٰ دے کرگھر جا چکا ہوتا" محب وطن پاکستانی، دانشور، علما، زعما اور ہر وہ شخص جو تھوڑا بہت شعور رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ عمران خان سے زیادہ کوئی عزت مند نہیں ہو سکتا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، وائس چانسلر کے عہدے پر فائز رہنے اور پوری دنیا میں پاکستان کی عزت میں اضافہ کرنے والا، بہترین مسلمان اور دیانت دار ہے یہ شخص۔ یہ بات درست ہے کہ عمران خان مہنگائی کو کنٹرول نہیں کرسکے۔
بہت سے وعدے پورے نہ کرسکے اور نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے میں ناکام رہے، لیکن اس بات سے عام آدمی بھی آگاہ ہے کہ جب وہ مسند اقتدار پر تشریف فرما ہوئے تو گزشتہ حکومتوں کی مہربانیوں نے خزانہ خالی کردیا اور کراچی جیسے بڑے شہر کی ہر چیز بربادی کے دہانے پر پہنچا دی، تعصب، نفرت، اقربا پروری، لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔ اس کی ایک نہیں بے شمار مثالیں ہیں۔ پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا جمہوریت بہترین انتقام ہے، کون سی جمہوریت کی بات کی جا رہی ہے؟ وہی ناں، جو سابقہ ادوار میں تھی، آج تک بے گناہ لوگوں کے قاتلوں کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور سیکڑوں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والے عزیر بلوچ کو مقدمات سے رہا کیا جا رہا ہے۔ ظلم اور بے انصافی کی بھی حد ہوتی ہے۔
امرا اور وزرا کے بچے اور حکم کے غلام پولیس اہلکار آئے دن ان نوجوانوں پرگولیاں برساتے ہیں جن کا کوئی قصور نہیں۔ کتنے گھروں کے چراغ گل ہوگئے ہیں، انھیں اندازہ ہے، افسوس عمران خان کی حکومت میں بھی انصاف کا قتل ہوا صوبہ پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت میں ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات نے جنم لیا کہ الامان۔ معاشرے کے شکستہ ڈھانچے اور ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کو موجودہ حکومت بھی کنٹرول نہ کرسکی۔ لیکن اس کے باوجود عمران خان نے حتی الامکان امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کرنے اور مسلمانوں پر ہونے والے غیر مسلموں کے ظلم و ستم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بھرپورکوشش کی اور بھی بہت سے مثبت امور انجام دیے۔ ان کے مخالفین کو تو بس اقتدار کی بھوک ہے، انھیں پاکستان کے استحکام اور سالمیت کی کبھی پرواہ نہیں ہوئی۔
تین اہم شخصیات کے ووٹ بھی ضایع ہوئے عمران خان اور شہریار آفریدی ووٹ کاسٹ نہیں کرسکے لیکن آصف زرداری کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ دوبارہ مہر لگا لیں۔ حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ خرید و فروخت ہوئی ہے اور الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کرانے میں ناکام رہا، لہٰذا وزیر اعظم قومی اسمبلی سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ اللہ پاکستان کے حق میں بہترکرے کہ یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا، باریاں لگانے والے اگر عوام کی خدمت اور ملک کی ترقی کے لیے مخلص ہوتے تو آج حالات کچھ اور ہوتے اور مظلوم عوام ان سے نفرت نہ کرتی۔
اب آتے ہیں خونی سواری اور حادثات کی طرف۔ زیادہ تر ایکسیڈنٹ موٹر سائیکل سواروں کی وجہ سے ہوتے ہیں وہ قوانین کو توڑ کر اپنی موت کو بھی دعوت دیتے ہیں اور دوسری سواریوں کے لیے بھی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں، چند روز پہلے کی بات ہے، جب یونیورسٹی روڈ پر موٹرسائیکل سوار کو بچاتے ہوئے چار نوجوان اللہ کو پیارے ہوگئے۔
وہ چاروں کار میں سوار تھے۔ موٹرسائیکل سوارکی تیز رفتاری نے حادثے کو جنم دیا اور چار گھروں کے چراغ گل ہوگئے، ماؤں کے دل گویا دھڑکنا بھول گئے، اولاد تو ہوتی ہی ہے دھڑکن کی مانند، یہ ایسا غم ہے جسے والدین کے لیے بھلانا مشکل ہوتا ہے۔ جس طرح موٹرسائیکل سوار قانون اور اصولوں کی پابندی نہیں کرتے ہیں، بالکل اسی طرح ہیوی ٹرانسپورٹ بھی خونی سواری کا کام انجام دیتی ہے آئے دن ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جب معصوم بچے اور بڑے ڈرائیوروں کی لاپرواہی اور غفلت کی بنا پر انسانی جانوں کا خون بہاتے ہیں۔ بعض اوقات ڈرائیور پکڑے بھی جاتے ہیں لیکن بہت جلد رشوت کے عوض رہا کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے قانون کا کیا فائدہ کہ بنانے والے ہی اسے توڑ دیتے ہیں۔
گزشتہ سالوں میں ہم نے کئی بار بذریعہ تحریر حکومت اور قانون سازی کرنے والوں کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی کہ وہ موٹرسائیکل سواروں کے لیے ایسے قوانین اور اصول و ضوابط مرتب کریں جن کے تحت ان کی اور دوسروں کے جان و مال کی حفاظت رہے، سڑکوں اور شاہراہوں کا صرف ایک حصہ ان کے لیے مخصوص کردیا جائے جہاں سے موٹرسائیکل سوار گزریں، ہر جگہ موٹرسائیکل سمیت چھلانگیں لگاتے اچھلتے کودتے، ریس لگاتے اور کرتب دکھاتے ہوئے نہ گزریں، بسوں، کاروں، رکشوں اور دوسری سواریوں کے سامنے سے ایسے اڑتے ہوئے آتے ہیں۔
جیسے جہاز اڑا رہے ہوں، ٹرانسپورٹ ڈرائیور، ان کی اچانک آمد سے حواس باختہ ہوکرگاڑی کوکنٹرول کرتا ہے ان کے ایسے ہی عمل سے ہر روز روڈ ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں، ایمبولینسیں زخمیوں کو اسپتال پہنچاتی ہیں، والدین گھر کے تمام لوگ صدمے اور پریشانی کے عالم میں اسپتال پہنچتے ہیں۔ اسپتالوں کی بھی ایک دردناک کہانی ہے جو انھوں نے اپنے ہاتھوں تخلیق کی ہے۔ وہ بنا پیسے کے جاں بلب مریض اور اس کے لواحقین کو منہ بھی نہیں لگاتے ہیں جب تک کہ ایک بڑی رقم اسپتال کے اکاؤنٹ میں جمع نہ کرا دی جائے۔