جب انسان معبودیت کے تقاضوں کو بھول جاتا ہے تب انسان اور جانور میں تفریق ناممکن ہوجاتی ہے، اسی وجہ سے آج کے حالات و واقعات نے پوری دنیا کو پریشان کردیا ہے، خصوصاً مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ہوگئی ہے۔
اس وقت ہندوستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں آئین و قانون کی پاسداری نہیں ہے، انسانیت کے روشن چراغوں کو بجھا دیا گیا ہے اور ضمیر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے، انھی ملکوں میں اسرائیل اور دوسرے کئی وہ ملک بھی شامل ہیں جو اپنے آپ کو سپر پاورکہلانے کے لیے چھوٹے اور کمزور ملکوں کو بڑی آسانی سے مگرمچھ بن کر ہڑپ کرلیتے تھے۔
عراق، شام اور سابقہ افغانستان کی مثالیں سامنے ہیں کس طرح انھوں نے معصوم بچوں کو اپنے پیروں تلے روندھا ہے، ان سب میں ہندوستان چار قدم اور آگے ہے یا یہ کہنا مناسب ہوگا۔ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، ہندوستان گزشتہ چوہتر سالوں سے کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے۔ رہی سہی کسر ہندوستان کے وزیر اعظم نے اپنی پست ذہینت کی وجہ سے پوری کر دی، اس شخص کو گجرات کا قصائی کہا جاتا ہے، جس نے جانوروں کے بجائے انسانوں کا مذبحہ خانہ بنا دیا اور ہرگھر مقتل بنا، لیکن ہندوستانی حکمرانوں کی پیاس پھر بھی نہ بجھی۔
مودی نے کشمیریوں کی آزادی، خود مختاری کو جس طرح پامال کیا ہے، آج پوری دنیا اسے حقارت سے دیکھ رہی ہے اس بار مودی کے دورہ امریکا میں اسے گھاس نہیں ڈالی گئی اور جن پر تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے کے مصداق صورتحال سب کے سامنے ہے۔ پوری دنیا کے حالات بدلے ہیں آج افغانستان بے شمار قربانیوں کے بعد سرخرو ہوا ہے، امریکی فوج کا انخلا ہو گیا ہے، بے شک اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں وہ نیتوں کا حال جانتا ہے۔
مسلمانوں کا زوال ان کے کرتوتوں کا مظہر ہے اللہ کی نافرمانی کرنیوالوں کا بدترین انجام ہوتا ہے۔ مملکت خدا داد پاکستان میں، نا انصافی اور غربت نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ کچھ حالات سابقہ حکومتوں اورکچھ موجودہ حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں، انصاف کا آج بھی فقدان ہے، عزت و حرمت، عدم تحفظ کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ غیر متوازن معاشرہ محض حکومت کی پیداوار نہیں، ان حالات میں عوام بھی ملوث ہے، اغوا، چوری، بے ایمانی، ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی، ہوس زر نے انسان کو درندہ بنا دیا ہے حکومت نے تو اس طرح کے قوانین جاری نہیں کیے کہ تم سب ذلت کے گڑھے میں چھلانگ لگا دو اور سزا یافتہ قوموں کی طرح بدکاریوں میں پڑ جاؤ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پچھلی قوموں کا کتنا برا انجام ہوا، آندھیاں چلیں، بستیاں الٹ دی گئیں، بندر اور خنزیر بنا دیے گئے لیکن افسوس کہ انھوں نے اپنے بچاؤ کے لیے اپنے رویوں کو تبدیل نہیں کیا، اللہ اور اس کے رسول پاکؐ کے احکامات کی پیروی نہیں کی، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی شان میں فرمایا۔" اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔"
حدیث پاک کیمطابق کہ اللہ جب کسی بندے کو محبوب بناتا ہے تو اس کو کسی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے، اگر وہ مصیبت میں صبر کرتا ہے تو وہ اللہ کا پسندیدہ بن جاتا ہے، ایک مرتبہ رسول پاکؐ نے صحابہ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ انھوں نے عرض کیا، یا رسول اللہؐ! ہم مومنین مسلمین ہیں، آپؐ نے فرمایا: "تمہارے ایمان کی علامت کیا ہے؟ " انھوں نے عرض کیا کہ ہم جب کسی مصیبت کا شکار ہوتے ہیں تو صبر کرتے ہیں اور راحت پر شکر بجا لاتے ہیں اور قضا پر راضی رہتے ہیں، اللہ کے محبوب حضرت محمدؐ نے فرمایا: "بخدا تم سچے مومن ہو۔"
لیکن ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی ناخواندگی نے آج کے انسان کے دل و دماغ پر سنگین حملہ کیا ہے وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکا ہے، معمولی سے معمولی بات پر خودکشی اور دوسرے کو قتل کرنے کو ترجیح دیتا ہے، وہ صبر نہیں کرتا، عفو و درگزر سے وہ ناواقف ہے، صلہ رحمی سے ناآشنا، بس اسے عزیز ہے تو اپنا مفاد۔ چند ٹکوں یا تھوڑے سے آرام کی خاطر دوسروں کو تکلیف پہنچانا اپنا حق سمجھتا ہے۔ اسی وجہ سے معاشرہ غیر متوازن ہو چکا ہے، ہر روز قتل و غارت اور ناانصافی کا بول بالا ہوتا ہے۔
کسی کو اس بات کا بھی احساس نہیں کہ اندرونی خلفشار کے ساتھ بیرونی خطرات بھی سر پر منڈلا رہے ہیں، پاکستان کا دشمن، عوام کا دشمن ہمارے اپنے ملک میں موجود ہے، یہ بزدل اور اقتدار کے لالچی امریکا کے تلوے چاٹتے ہیں اور اسے اس بات پر راضی کرتے ہیں کہ حکومت ان کے ہاتھوں میں آجائے تاکہ تمام جرائم معاف ہو جائیں اور پھر عید اور شب برات کی پھلجھڑیاں جلانے میں گزرے، گویا عیش و عشرت کے سمندر میں غوطہ زن ہو جائیں۔ بلاخوف و خطر ہو کر، سر پر ننگی تلوار بھی نہ لٹکی ہو اور ہر سو سکون ہی سکون محو رقص ہو۔
یقینی بات ہے کہ اپنی حکومت میں ڈر کس بات کا؟ امریکا نے افغانستان میں جو ذلت اٹھائی، وہ اس سے برداشت نہیں ہو رہی ہے، لہٰذا وہ ایسے ایسے بیانات اور احکامات جاری کر رہا ہے جس سے اس کی سبکی کی بو آ رہی ہے اور مسلمانوں خصوصاً پاکستان کو ہراساں کرنے کے لیے نئے نئے حربے آزما رہا ہے۔ وہ اس بات سے بھی ناخوش ہے کہ پہلی بار پاکستانی حکمران اسے ٹکا سے جواب دے رہے ہیں۔ گزشتہ ادوار جوکہ (ن) لیگ اور پی پی کے تھے ان لوگوں نے تو اپنی انا اور عزت کا جنازہ اپنے ہاتھوں نکالا تھا۔ ہر بات پر سر جھکانا اور امریکا کی ہاں میں ہاں ملانا، ہندوستان کے ساتھ تجارت اور خوشامدانہ رویہ اختیار کر لیا تھا۔
امریکا پاکستان کی اس قربانی کو فراموش کر چکا ہے جب پاکستان 2001 میں افغانستان کے حوالے سے امریکا سے مکمل تعاون کرتا رہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر کہا کہ "افغان معاملے پر دنیا کے ساتھ طالبان کو بٹھایا، انخلا میں سہولت دی، پاکستان کا مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، افغان مسئلے کے پائیدار حل کے لیے مذاکرات کو واحد راستہ قرار دیا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے میں کسی بھی دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاک امریکا تعاون اہم ہوگا۔
وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ویمن چیمبر آف کامرس اسلام آباد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بدلتے ہوئے افغانستان کی حقیقت کو تسلیم کرے، ہم پر طالبان کو عسکری مدد فراہم کرنے کا الزام بے بنیاد ہے، یہ بھارت کی الزام تراشی ہے، اس کی وجہ وہ افغانستان میں ناکام ہوا ہے۔"
روپے کی قیمت ہر روز کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے، اب مزید امریکی پابندیوں کی تجویز نے روپے کی قدر کو کم کردیا جب کہ ڈالر کے انٹر بینک ریٹ 170 روپے اور اوپن مارکیٹ میں قدر 172 روپے کی نئی بلند ترین سطح سے بھی تجاوز کرچکی ہے، گویا ملک ہر طریقے سے ناکامی کی طرف سفر کر رہا ہے، لیکن حالات ہمیشہ بدلتے ہیں، ہر وقت ایک سا نہیں رہتا ہے، اللہ ضرور بہتری کی سبیل پیدا کرے گا۔
بس قابل افسوس یہ نکتہ ہے کہ اپوزیشن کو ملکی ترقی و تنزلی کی قطعی فکر نہیں ہے، فکر ہے تو بس اپنی اور اپنے خاندان کی، اقتدارکی کرسی چاہیے، پھر امریکا ہندوستان شادیانے بجائیں گے۔ پی ٹی آئی کی حکومت انھیں اسی وجہ سے کھٹکتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ایک نڈر، بہادر اور اللہ پر مکمل بھروسہ کرنیوالے حکمران ہیں، یہی بھروسہ ان سے کھری اور سچی باتیں کہلوا دیتا ہے، چاہے امریکا ناراض ہو یا ہندوستان۔