مسلمانوں کو تحفظ اور مکمل آزادی فراہم کرنے کے لیے شبانہ روز محنت کی یہاں تک کہ آپ اپنی صحت گنوا بیٹھے لیکن جس مقصد کو لے کر چلے تھے وہ اللہ کی مدد اور رسول پاکؐ سے عقیدت اور محبت کے نتیجے میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔
قائد اعظم کی زندگی کے مختلف ادوار ہیں ان کی حیات کا ہر صفحہ صداقت، دیانت کی روشنی سے چمک رہا ہے وہ سچے مسلمان تھے قرآن پاک اور رسولؐ کی تعلیمات اور سیرت پاک کا انھوں نے گہرا مطالعہ کیا تھا اسی لیے وہ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت سے بہت دور تھے انھیں اللہ کے نبیؐ سے عشق تھا، ایسا عشق جو عیش و نمود کو خاکستر کر دیتا ہے، اس حوالے سے ایک چھوٹا سا واقعہ سن 1892 ہے، جب آپ نے قانون کی تعلیم مکمل کی اور انگلستان پہنچے، وہاں انھوں نے Lincolns inn میں داخلہ محض اس لیے لیا کہ اس عمارت پر لکھے ہوئے ناموں میں سے ایک عظیم ترین ہستی کے نام نے بے حد متاثر کیا تھا وہ نام تھا خاتم النبین، شفیع المذنبین، رحمۃ العالمین حضرت محمدؐ کا۔ چونکہ تمام قانون دانوں کے ناموں کی فہرست میں سب سے اوپر بطور مقنین اعظم حضرت محمدؐ کا اسم گرامی کندہ تھا۔
25 جنوری 1948 کو سیرت رسولؐ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہم دنیا کی عظیم ترین ہستی رسول اکرمؐ کو نذرانہ محبت و تکریم پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں آپؐ کی عزت و توقیر، قدر و منزلت کروڑوں عام انسان نہیں بلکہ دنیا کی عظیم ترین شخصیات آپؐ کی سیرت پاک سے متاثر ہو کر سر جھکاتی ہیں، میں ایک عاجز ترین، انتہائی خاکسار، بندہ ناچیز اتنے عظیم، عظیم سے عظیم ہستی کو بھلا کیا اور کیا نذرانہ عقیدت پیش کرسکتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے عیدالفطر نومبر 1939 کے موقع پر بمبئی میں فرمایا "مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآن مجید میں موجود ہے۔"
مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن مجید کو غور سے پڑھیں، اگست 1941 میں عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبا کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا میں نے قرآن پاک اور اسلامی قوانین کے مطالعے کی اپنی طور پر کوشش کی ہے اس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں، 1943 کے اواخر میں قائد اعظم سے میاں بشیر احمد نے ملاقات کرتے ہوئے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو قائد اعظم نے فرمایا کہ ہمیں پریشان یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے ہمارے پاس موجود ہے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان بھی پاکستان میں قرآنی تعلیم اور اسلامی قوانین کی بالادستی کے خواہش مند ہیں لیکن پاکستان کی یہ بڑی بدنصیبی رہی ہے کہ اسے مخلص اور دیانت دار حکمران میسر نہیں آئے گزشتہ 12، 13 سالوں کی کارکردگی نے پاکستان کو قرضوں کی دلدل میں لا پھینکا، ملک کا خزانہ خالی ہو گیا، جب وزیر اعظم پاکستان عمران خان مسند اقتدار پر بیٹھے تو ملک کی معیشت کا پہیہ جام ہو چکا تھا انھیں ان حالات میں اپنے قول و فعل سے ہٹنا پڑا اور نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی نوبت آگئی۔
آئی ایم ایف مخفف ہے، یہ ادارہ ترقی پذیر ممالک کی امداد کرنے کے لیے بنایا گیا ہے لیکن اس پر زیادہ تر کنٹرول امریکا کا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ملک پر قرضوں کا بوجھ ہے اور بوجھ کو کم کرنے کے لیے اشیائے ضروریہ کی چیزوں کو مہنا کردیا جاتا ہے یہ سوچے بنا کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے ان حالات میں کیسے زندہ رہ سکیں گے۔ اس ادارے کا وفد تقریباً ہر ماہ پاکستان پہنچ جاتا ہے اور پاکستان کو دیا ہوا قرضہ سود کے ساتھ واپس کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور ٹیکس بڑھانے اور نئے ٹیکس لگانے کے لیے مشورہ دیتا ہے۔
آج جو یوٹیلیٹی بلز کے نرخ اس قدر زیادہ ہیں اور مزید بڑھانے کے امکانات ہیں اس کی وجہ پاکستان کا قرضہ اور اس کی ادائیگی ہے۔ یہ بھی ایک عالمی سازش ہے کہ دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمے دار اسلام اور مسلم ممالک کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ FATF کے ذریعے غیر مسلم ممالک اور خاص طور پر امریکا اور بھارت نے مسلم ممالک کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اس سلسلے میں پاکستان کو سرفہرست رکھا گیا ہے۔ FATF دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کا ادارہ ہے۔
اس سلسلے میں تین نام ہیں یا فہرستیں بنائی گئی ہیں Black List، Grey List، وائٹ لسٹ۔ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو Black List کردیا جائے۔ پاکستان اس وقت گرے لسٹ میں ہے۔ لیکن وہ اس سے نکلنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ FATF کا اجلاس 21 تا 23 اکتوبر کو متوقع ہے اس اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کیے گئے اقدامات پر غور کیا جائے گا کہ آیا پاکستان کو اس لسٹ سے خارج کردیا جائے یا نہیں؟
امریکا نے پاکستان کے خلاف ایک محاذ کھولا ہوا ہے، وہ خود سامنے نہیں آتا بلکہ اسلامی ملکوں سے یہ کام لیتا ہے، ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور کارگل محاذ کی کامیابی اور پاکستان کا جیتا ہوا علاقہ امریکا کے ذریعے خالی کروا دیا گیا تھا۔ جان جوکھوں کے بعد پاکستانی فوج کو سرخروئی کے ساتھ واپس غازی کی شکل میں لوٹنا پڑا۔
مغرب کی چمک دمک نے حکمرانوں کی بصیرت، دینی حمیت و غیرت اور وطن پرستی کے جذبے کو ماند کردیا وہ یہ بھول گئے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے بار بار امت مسلمہ کے بے قصور لوگوں کو تہہ و بالا کیا اور معصوم پھولوں کو اپنے بوٹوں تلے مسل ڈالا، اس موقع پر فضا اعظمی کی طویل نظم "آواز شکستگی" سے چند شعر یاد آگئے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:
یہ نکتہ عالم اسلام کے دانشوروں کو دعوت تحقیق دیتا ہے
کہ وہ مغرب کے آتش بار تیروں کا ہدف کیوں ہیں
بڑی حد تک یہ ان کی اپنی کوتاہی کا ثمرہ ہے
یہ منظر عالمِ اسلام کی سنگین حقیقت ہے
جو بے حد تلخ ہے، مایوس کن ہے درد آگیں ہے
کہ وہ ابلاغ کے شعبے میں زیرو ہے
عمران خان جب مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے تو ان دنوں حالات ہر لحاظ سے ابتر تھے، خزانہ خالی ہو چکا تھا، اسلامی تعلیم کا فقدان تھا، نصاب میں حیرت انگیز تبدیلیاں کی گئی تھیں، مغربی فکر رکھنے اور ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنے اس کے وقار کو ملیا میٹ کرنے والوں کی کمی نہ تھی ہر ادارہ کرپشن کا شکار تھا۔ کافی حد تک انھوں نے حالات پر قابو پایا ہے لیکن کامیابی سو فیصد حاصل نہ ہو سکی، انھوں نے غربت دور کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ بارہا اپنے خطاب میں قائد اعظم کی تعلیمات کو عام کرنے اور خلفا راشدین کے طرز کی حکومت بنانے کا ذکر کیا۔
انھیں بھی اللہ اور اس کے رسولؐ سے بے پناہ محبت ہے جب وہ مقدس سرزمین پر اترتے ہی اپنے پیروں کو جوتوں سے آزاد کر دیتے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں اور نیک خواہشات کے باوجود پاکستان مہنگائی کے طوفان میں گھر چکا ہے، دہشت گردی کی پاتال کی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے وہ غربت کو ختم اور دواؤں کی قیمتوں کو سستا کریں، غریب کی تنخواہوں میں اضافہ کرکے اپنے عمل سے ثابت کریں کہ واقعی پاکستان کو ایک سچا مسلمان اور حاکم وقت میسر آگیا ہے۔