حال ہی میں ایک بارہ سالہ بچہ تشدد کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلا گیا۔ اس کی جان لینے والا کوئی عام شخص نہیں بلکہ خاص شخص تھا، پیشۂ تعلیم سے وابستہ تھا اور ایک مدرسے میں استاد کے فرائض انجام دے رہا تھا، وہی پرانی کہانی اور درد ناک انجام اس قصے کا بھی ہوا کہ بچے نے سبق یاد نہیں کیا لہٰذا استاد نے اس کی خوب دھنائی کی کہ جان کے لالے پڑ گئے۔
اسی اثنا میں بچے کا بھائی جوکہ اسی مدرسے کا طالب علم تھا، اپنے والد صاحب کو بلا لایا، والد نے اپنے لخت جگر کو استاد کے خونی پنجے سے نجات دلائی اور اسپتال کی طرف دوڑا چونکہ اس وقت کچھ سانسیں باقی تھیں اسپتال پہنچتے پہنچتے آخری سانسیں بھی رخصت ہوگئیں۔ گھر میں قیامت اتر آئی، والدین کے بڑھاپے کا سہارا انھیں داغ مفارقت دے گیا اور یہ داغ وہ ہے جو کبھی نہیں جاتا، زندگی کے ساتھ رہتا ہے، والدین، بھائی بہنوں کے دلوں پرکچوکے لگاتا رہتا ہے۔
یہ ماں باپ کے لیے جان لیوا ہوتا ہے کبھی جلدی اپنا کام دکھا دیتا ہے تو کبھی سسکنے اور تڑپنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ماں اپنی اولاد کا صدمہ برداشت نہیں کرسکی اور مرحوم اولاد کے پاس سدھار گئی، تھوڑے عرصے بعد باپ بھی اس غم سے نڈھال ہو گیا اور زندگی کے دن پورے نہ کرسکا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
اس طرح کے سانحات آئے دن رونما ہوتے ہیں۔ مدارس کے معلمین اور بعض اسکولوں کے ماسٹر صاحبان نے ایسے معاملات میں خوب نام کمایا اور جگ ہنسائی ہوئی، تشدد آمیز واقعات نے دور دور تک کا سفرکیا، لیکن حالات جوں کے توں رہے سیکڑوں بچے اپنے استاد کی دی ہوئی اذیت کا شکار ہوئے اور اپنی جان سے گئے۔
گزرے واقعات کی روشنی میں مستقبل کے لیے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت نہ حکومت کی طرف سے محسوس کی گئی اور نہ منتظمین مدارس نے اپنا طرز بدلا کہ کم ازکم استاد کی تقرری کے وقت اس کا شجرہ نسب اور اس کی تعلیم و تربیت سے کماحقہ معلومات حاصل کی جانا ضروری ہے، اس کا میڈیکل چیک اپ کرانا اگر ناممکن ہے تو کم از کم اس سے کچھ سوالات کے ذریعے اس کے علم، بیماری اور تربیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، ساتھ میں اسے ٹریننگ دینا بھی لازم ہے جس میں اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ سفاکی اور مارپیٹ کی سزا سنگین ہوگی اور اس کی بھی وہی درگت بنائی جائے گی جو اس نے طالب علم کے ساتھ سلوک کیا ہے۔
مدارس میں غیر نصابی سرگرمیوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اس سے بچوں کی دینی نشوونما کا فروغ ممکن ہوگا جن مدارس میں کمپیوٹر یا لائبریریوں کا انتظام نہیں ہے وہاں اس قسم کی سرگرمیوں کا ہونا ضروری ہے کہ اساتذہ طالب علموں کو قصائص قرآنی سے آگاہی دیں، یہ دلچسپی کا باعث ہوگا۔ بچے قصے کہانیاں شوق سے سنتے ہیں۔
طالب علموں کو تاریخی عمارات کا دورہ کرانا بھی ان کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اساتذہ کی محبت و شفقت بھی ان کی چھوٹی سی دنیا میں بڑی تبدیلی کا آنا ممکن ہوتا ہے لیکن یہ تمام امور اسی وقت پایہ تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں جب معلم حقیقی معنوں میں اسلام کی روح سے واقف ہوگا، اللہ کی وحدانیت رسول پاکؐ کی سیرت پاک پر عمل کرنے کا خواہش مند ہوگا اور پھر جس بھی طالب علم نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کرلی دنیا کے کامیاب ترین اور پسندیدہ اشخاص کی فہرست میں اس کا نام شامل ہو جائے گا اور اللہ کا اجر تو بہترین اجر ہے جو نیک و صالح شخص کی قسمت میں لکھ دیا جاتا ہے۔
قرآن پاک رٹے لگانے اور خوبصورت غلافوں میں رکھنے کے لیے نازل نہیں ہوا ہے، اپنی کسی خوشی اور کامیابی کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اصل مقصد فہم القرآن ہے اس کے احکامات پر عمل کرنا ہے یہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسکول و مدارس میں اس کا اہتمام بالکل نہیں کیا جاتا ہے اساتذہ اسلامی تعلیم سے تقریباً نابلد ہوتے ہیں جب کہ مدارس تو قرآنی تعلیم ناظرہ پڑھانے کے لیے مختص ہیں۔ معانی و مفاہیم سے جب استاد آگاہ ہوگا تب ہی وہ طالب علموں کو پڑھاتے وقت بتا سکے گا ان کی توجہ مبذول کرائے گا کہ زندگی کس طرح خوبصورت ہو سکتی ہے، حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی سے کیا فوائد حاصل ہوں گے۔
نمازی کے چہرے پر نور برستا ہے، صداقت کی روشنی اس کے گرد ہالا بنا لیتی ہے۔ صداقت کیا ہے؟ یہی کہ زندگی کے ہر میدان میں دیانت داری کا، سچائی، عفو و درگزر، صبر و شکر اور صبر و تحمل کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی نیکیاں کرنے سے انسان اپنے ساتھیوں میں ملنے جلنے والوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ہمارے پیارے نبیؐ بچوں سے بے حد شفقت و محبت کا سلوک کیا کرتے تھے، تو کیا مدارس معلمین اس حقیقت سے بھی واقف نہیں ہیں کہ ہمیں بھی آپؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ استاد کو تو ویسے بھی ایسی مثال بننا چاہیے جو قابل تعریف اور قابل تقلید ہو۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ طلبا و طالبات اپنے ہی استاد کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں، جو علم کی تقسیم میں بے لوث ہوتے ہیں، جن کا مقصد اپنی ذات سے ہر لحاظ سے نفع پہنچانا ہے بہت سے طالب علم ایسے بھی ہوتے ہیں جو معاشی طور پر کمزور اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں، مخلص اور انسانیت پسند معلمین ایسے طالب علموں کی خفیہ طور پر نہ صرف یہ کہ مدد کرتے ہیں بلکہ ان کا حوصلہ بھی بڑھاتے ہیں اور انھیں معاشرے کا بہترین شہری بنانے میں مددگار بن جاتے ہیں۔
لیکن آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسکول و مدارس کی حالت ویسی نہیں ہے جیسا کہ ان اداروں کو وقار حاصل ہونا چاہیے، مدارس کی سنگین صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کا اولین فرض ہے کہ کچھ ایسے قوانین مرتب کرے کہ جن کی رو سے اساتذہ اور طالب علم فیض یاب ہوسکیں، معلم کی دس روزہ ٹریننگ کے بعد ہی جماعتیں ان کے حوالے کی جائیں تاکہ اخلاقی درس جو وہ سیکھ کر آئے ہیں اس پر عمل کریں۔
بچوں کے جان لیوا واقعات کو دیکھتے ہوئے عام شخص بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ استاد صاحبان ہر معاملے میں غیر تربیت یافتہ ہیں ایسے اساتذہ کو درس و تدریس کے مواقع دینا معصوم بچوں کی زندگی کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب ہے لہٰذا کم علم اساتذہ کے لیے تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا بھی ناگزیر ہے۔