پیغام حبیب کبریاؐ علیہ التحیۃ والثناء کے مولف و مصنف جناب محمد سرور رانا ہیں، "تقدیم" کے حوالے سے ملک محبوب الرسول قادری صاحب کا نام درج ہے، اسلامک میڈیا سینٹر نے اسے شایع کیا ہے، ضخامت کے اعتبار سے یہ کتاب 653 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔
پہلا حصہ 15 ابواب پر مشتمل ہے جب کہ دوسرا حصہ "تعلیمات" کے عنوان سے۔ ملک کی ممتاز شخصیات کے مضامین کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی شہرت یافتہ ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیمتی اور اہم رائے بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علما و زعما جن میں مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد منیب الرحمن، حضرت مولانا مفتی محمد اطہر نعیمی اور دیگر نے اس موقر کتاب پر اپنی تحریریں درج کی ہیں جو مذکورہ کتاب کی زینت ہیں۔
ایک بڑی مشہور نعت ابتدائی صفحات پر جلوہ فگن ہے جس کے شاعر محمد سرور رانا صاحب ہیں۔ ایک ایک مصرعہ رسول پاکؐ کی محبت و عقیدت کے رنگ سے مرصع ہے۔ چند اشعار:
صبا مدینے سے گزر ہو تیرا
نبی سے میرا سلام کہنا
سلام کہنا درود کہنا
تڑپ رہا ہے غلام کہنا
ادب سے میرا پیام کہنا
لگا ہے دامن پہ داغ کہنا
ہے اک نظر کا سوال کہنا
عطا ہو مجھ کو کرم کا گہنا
خدا نے تجھ پر سلام بھیجا
تو قدسیوں نے درود بھیجا
اپنے مضمون "حرف آغاز" میں محمد سرور رانا لکھتے ہیں "معزز قارئین کرام! ایک خطاکار نے اپنے رب کے حضور کاغذ اور قلم کی زبان سے توبہ کی استدعا کی ہے، تفسیر قرآن اور کتب سے ماخوذ سیرت طیبہ کے چند پہلو نقل کیے ہیں، چمنستان انوار رحمت سے چند پھول چن کر گلدستہ عقیدت میں سجا دیے ہیں، شاید ایک قطرہ رحمت سے کسی کی زندگی سنور جائے۔"
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان فرماتے ہیں " محبوب الرسول قادری کے ادارے اسلامک میڈیا سینٹر کے زیر انصرام بہت اعلیٰ پائے کی دینی اسلامی کتب اور تصوف پارے نظر سے گزرتے رہتے ہیں زیر نظر کتاب انتہائی ایمان افروز تالیف ہے، ایک ایسی محنت طلب تحقیق ہے جسے پوری احتیاط کے ساتھ قرطاس ابیض پر اتارا گیا ہے جناب محمد سرور رانا صاحب خصوصی شکریے اور خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک ایسی تحریر ہمارے لیے فردوس نظر بنائی جس کے مطالعے سے تاریخ تخلیق کائنات سمٹ کر ہماری آنکھوں میں آگئی ہے۔"
بے شک باب اول سے آخری باب تک اسلامی تاریخ کے ابواب روشن نظر آتے ہیں اسلام سے پہلے عرب کے حالات، حضرت ابراہیمؑ و دین حنیف، خانہ کعبہ کی تعمیر، مقام ابراہیمؑ، حضرت ابراہیمؑ کی قربانی، سعی (صفا و مروہ) خاندان قریش، ابرہہ کی خانہ کعبہ پر چڑھائی، زم زم کی تلاش وغیرہ۔ ابرہہ کی ناپاک جسارت کا احوال کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے۔
یمن کے بادشاہ اسد تبع نے خواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ پر غلاف چڑھا رہا ہے یہ پہلا شخص تھا جس نے غلاف چڑھایا، اسد تبع کا ایک گورنر ابرہہ تھا اس نے خانہ کعبہ کی شان و شوکت کو دیکھتے ہوئے ایک اپنا علیحدہ کعبہ بنانے کا فیصلہ کیا اس نے ایک اور حرکت یہ کی کہ اس نے اپنے ایک ساتھی گورنر کو قتل کردیا۔ اس وجہ سے تبع سخت برہم ہوا۔ ابرہہ نے حالات کو دیکھتے ہوئے معافی مانگی لیکن اس کے بنائے ہوئے گرجا میں قبیلہ بنی نصیح کے لوگوں نے اس جگہ کو جسے وہ کعبہ کہہ رہا تھا گندگی رکھ دی اس بات نے اسے اشتعال دلا دیا اور اس نے کعبہ کو ڈھانے کا فیصلہ کرلیا اور ہاتھیوں کا بڑا لشکر لے کر نکلا اور اس نے حضرت عبدالمطلب کے دو سو اونٹ بھی قبضہ کرلیے۔
حضرت عبدالمطلب نے جب اس سے اونٹ واپس مانگے تو اس نے کہا کہ میں تو سمجھا تھا کہ آپ کعبے کے بارے میں بات کریں گے، حضرت عبدالمطلب نے فرمایا "اونٹ میری ملکیت تھے اس لیے میں نے مطالبہ کیا، کعبہ اللہ کا گھر ہے اس کی حفاظت وہ خود کرے گا۔" پھر وہی ہوا جیساکہ "سورۃ الفیل" میں آیا ہے۔ کہ ابرہہ کے لشکر کو ابابیلوں نے کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا، محض چھوٹی چھوٹی کنکریوں کے ذریعے جو اپنے منہ میں دبا کر لاتی تھیں اور دشمن پر حملہ آور ہوجاتیں۔
باب نمبر 15 میں گیارہ موضوعات ہیں جن پر قرآن و احادیث کی روشنی میں خامہ فرسائی کی ہے یہ وہ تعلیمات ہیں جسے دلی و روحانی طور پر تسلیم کرنے والا ہی دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے۔"معجزات" کی تعریف اور ان انبیا کرام کا بھی ذکر ملتا ہے جن سے معجزات وابستہ ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ کو اعلان توحید کی پاداش میں آگ میں ڈالا گیا تو آگ گلزار بن گئی، حضرت موسیٰؑ کو وہ قوت عطا کی جاتی ہے کہ عصائے موسیٰ کی ضرب سے دریا دو ٹکڑے ہو جاتا ہے، زمین پر ڈالتے ہیں تو اژدھے کا روپ دھار لیتا ہے، بن باپ کے حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ایک معجزہ خداوندی ہے اور پھر والدہ ماجدہ کی گود میں اللہ گفتار عطا فرما دیتا ہے اور اللہ کا نبی ہونے کا اعلان کرتے ہیں، اور آخر الزماں حضرت محمدؐ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ اور سدرۃ المنتہیٰ کا سفر کرتے ہیں۔ سبحان اللہ۔ یہ وہ معجزات ہیں جنھیں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی مانتے ہیں اور ان کا ذکر الہامی کتابوں میں موجود ہے۔
ایمان، عقائد، آخرت پر ایمان اور قیامت کا احوال آیات قرآنی کے حوالوں سے مزین اور موثر ترین ہے کہ قرآن پاک کی تعلیمات کو مسلمان تو دل و جان سے مانتے ہی ہیں، غیر مسلم بھی پڑھتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں یہ اور بات ہے کہ اسلام کی حقانیت کو جاننے اور اعتراف کرنے کے باوجود باقاعدہ طور پر مسلمان ہونے میں عار سمجھتے ہیں اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی طرح کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کا مذہب کیسے چھوڑ سکتے ہیں لیکن بے شمار لوگ ہیں جو دل سے کلمہ پڑھتے ہیں اور اسلام کے روشن راستے کے مسافر بن جاتے ہیں اپنے آپ کو ڈھال لیتے ہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق، نسلاً مسلمان سے زیادہ اچھے اور باعمل بن جاتے ہیں اس کی وجہ وہ ترجمہ پڑھتے ہیں فہم القرآن انھیں اندھیرے اجالے کی شناخت سے آگاہ کردیتا ہے۔
فصل8، صفحہ 571 میں ذکر کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اور وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اسلام میں ذکر کی ایک جامع حیثیت ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے ترجمہ: "جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے ہوکر اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور کہتے ہیں، اے ہمارے رب! تُو نے انھیں (زمین و آسمان) کو بے مقصد پیدا نہیں کیا، تُو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔" حدیث قدسی ہے "میرا بندہ جیسا مجھ سے گمان رکھتا ہے، ویسا ہی میں اس کے ساتھ برتاؤ کرتا ہوں۔ اگر وہ چل کر میری طرف آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔ غرض کائنات کی ہر چیز اللہ کا ذکر کرتی ہے، پتھر، پہاڑ، پرندے، حضرت داؤدؑ کے تابع پہاڑ کردیے تھے جو تسبیح کرتے اور پرند بھی۔
بیت المقدس کی فتح، طاعون کی بیماری، نبوت کے جھوٹے دعویدار، ترکوں سے جنگیں، قسطنطنیہ کی فتح اور ان تمام پیش گوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو ظہور پذیر ہوچکی ہیں۔ آخر میں یہی کہوں گی کہ جناب محمد سرور رانا کی مذہب اسلام سے محبت، لگن اور محنت کو اللہ مقبولیت اور کامیابی کے درجے پر پہنچا دے۔ (آمین۔ )