آج کل نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا ہے اور پھر وہی حالات گزشتہ سالوں اور مہینوں والے پیدا ہوگئے ہیں، نیشنل اسٹیڈیم کے اطراف کے تمام راستوں کو بند کردیا گیا ہے اوروہاں سے گزرنے والے لوگ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سخت اذیت میں مبتلا ہیں۔
کوئی بھی کام کرنے سے قبل اس کے فوائد و نقصانات کو مدنظر رکھنا اہل بصیرت کا کام ہے تاکہ پریشانی سے بچنے کے لیے متبادل راستہ یا طریقہ اختیار کیا جائے تاکہ لوگ تکلیف سے محفوظ رہیں لیکن ہمارے ملک میں حکام بالا آنکھیں بند کیے چین کی بانسری بجاتے بجاتے خود گہری نیند سو جاتے ہیں، اب شہر میں کچھ بھی ہو یہ ان کا مسئلہ ہرگز نہیں ہے۔
انھوں نے کسی بھی مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، اس لاپرواہی کی وجہ سے نیشنل اسٹیڈیم کے اردگرد رہنے والے بڑی ہی مشکلات کا شکار ہیں، بیمار ہوں، جاں بلب ہوں، کوئی ایمرجنسی ہو، باہر نہیں نکل سکتے، شادی بیاہ، غم اور خوشی میں اپنے عزیزوں سے ملاقات کرنے سے یکسر قاصر رہنے پر مجبورکردیے گئے ہیں، اپنوں کے جنازوں کو کاندھا دینے آخری دیدارکرنے کے لیے ترس کر رہ جاتے ہیں۔
ان حالات میں کوئی راستہ تلاش بھی کرلیا جائے تو منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور اگر کسی کے پاس سواری نہ ہو، تب تو ہر ترکیب ناکام ہو کر آنسو بہانے پر مجبور کرتی ہے، راستے بند کرنے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ اپنے روٹ پر چلنے کے بجائے مختلف راستوں، گلیوں اور شاہراہوں سے گھومتی ہوئی اپنی منزل تک پہنچتی ہے۔
دفاتر، اسکول و کالج اور یونیورسٹی کے طلبا و طالبات، اساتذہ بھی دہری مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں، اگر امتحان یا انٹرویو دینے کا سلسلہ ہے تو وہاں بھی تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے اپنی اس کامیابی کے لیے جس کے لیے انھوں نے بہت محنت و مشقت کی تھی، وہ ناکامی سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔
نیشنل اسٹیڈیم کے قرب وجوار میں رہنے والے ہزاروں خاندان ہیں، جو بے حد پریشان ہیں لیکن حکومت کو ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہے، حال ہی میں کچھ لوگوں نے مظاہرہ بھی کیا اور کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ پریکٹس کسی دوسرے اسٹیڈیم میں بھی کروائی جا سکتی ہے اور میچ اسی اسٹیڈیم میں رکھا جائے، مظاہرین نے مزید کہا کہ اگر انھوں نے اپنا لائحہ عمل تبدیل نہیں کیا تو وہ دھرنے دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ سچی بات تو یہ ہے بغیر بین بجائے یہ جاگنے والے ہرگز نہیں ہیں۔ حکومت کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے۔
شہرکراچی بے شمار مسائل میں گھر چکا ہے، اس کا کوئی تدارک نہیں کیا جا رہا، مظاہرے، ریلیاں، ٹریفک جام، دھرنے، مطالبات منوانے کا یہی واحد طریقہ رہ گیا ہے۔
کبھی ڈاکٹروں اور نرسوں کی ہڑتال ہوتی ہے تو کبھی مریضوں اور مرنے والوں کے ورثا کی، ڈاکٹرز نے بھی کمال ہی کردیا ہے۔ ایک تو اسپتالوں کی فیس اس قدر زیادہ ہے کہ اچھے اچھوں کو علاج کرانا ناممکنات میں شامل ہو گیا ہے، اس کے ساتھ ہی اگر مریض چل بسا تو پھر لاش ورثا کے سپرد کرنے کے لیے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ غیر انسانی رویہ اپنا کر اچھے خاصے صحت مند مریضوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں معمولی سی بیماری میں اتنے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں کہ بے چارہ معمولی بخار یا کسی اور مرض میں مبتلا ہونے والا شخص موت کے قریب ہو جاتا ہے اور انھی میں سے بہت سے مریض جو اپنے پیروں سے چل کر اسپتال جاتے ہیں، ان کی واپسی مردہ حالت میں ایمبولینس میں ہوتی ہے اور پھر ایسے سانحات کے بعد کچھ لواحقین دھرنے دے کر حکومت اور اسپتال انتظامیہ کی توجہ اس طرف مبذول کراتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی غفلت نے ان کے پیارے کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ ایسی صورت حال میں جرم کے مرتکب گرفتار تو ہو جاتے ہیں لیکن بہت جلد ہی چھوٹ جاتے ہیں۔ یہی چیز نفرت کو جنم دیتی ہے۔
ایک طرف مسیحا کہلانے والے ڈاکٹروں کا یہ رویہ تو دوسری طرف بے شمار ڈاکٹرکورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرتے کرتے خود موت کے منہ میں چلے گئے اور شہادت کا درجہ پایا، اصل مسیحا تو یہی ہیں۔ ان ڈاکٹروں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کی بلکہ مریضوں کو بچانے کی کوشش آخری دم تک کرتے رہے اور اب بھی ڈاکٹر اسپتالوں میں اپنی ڈیوٹی نہایت دیانت داری اور خلوص کے ساتھ انجام دے رہے ہیں اور اللہ کی رضا کے لیے انسانیت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں بے شک ایسے ہی معالجوں کو قوم کا سلام ہے۔
ہمارے شہر کراچی میں تو اہل اقتدار کو اس بات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کہ کسی بھی اہم موقع پر یا کسی مسئلے کے حل کے لیے شہریوں کے احتجاج کے باعث ٹریفک جام سیپیدا ہونے والے حالات سے کیا مسائل پیدا ہوتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ سڑکیں بند کرنے سے غریب کے روزگار پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے، ٹھیلے اور پتھارے لگانے والے تو روز کنواں کھودتے اور پانی پیتے ہیں، دوسرا یہ کہ مرنے والوں کو جلد سے جلد دفنانا زیادہ بہتر ہوتا ہے نہ کہ ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی جائے۔ قرآن پاک کی رو سے شہید مرتا نہیں بلکہ اپنا رزق پاتا ہے لیکن تدفین تو اس کی بھی ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت قبل از وقت اپنی ذمے داریوں کو سنبھالے تو اذیت ناک حالات ہرگز جنم نہ لیں۔