میرے ہاتھ میں سہ ماہی " اسالیب" کا شمارہ نمبر 29 ہے۔ اس جریدے کے مدیر ذوالفقار احسن ہیں اور یہ جریدہ سرگودھا سے نکلتا ہے۔ ذوالفقار احسن کی کئی ادبی جہات ہیں، بہت اچھے شاعر ہیں، نثر نگار ہیں، ٹی وی کے ادبی پروگراموں میں اکثر شرکت کرتے ہیں، ہندوستان کے رسائل اور اخبارات میں پابندی سے چھپتے ہیں۔
"اسالیب" کی اشاعت اور وہ بھی پابندی کے ساتھ اس دور ابتلا میں کسی کارنامے سے کم نہیں، نہ صلے کی خواہش اور نہ ستائش کی پرواہ کے مصداق وہ ادب کی خدمت خلوص دل کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اس بات سے ہر ذی شعور واقف ہے کہ یہ پرچہ نکالنا محض گھاٹے کا سودا ہے وہ دوسرے لوگ ہیں ادب کے نام پر اپنی دکان چمکانے میں صبح و شام مصروف ہیں، ذوالفقار احسن کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ ان کا اداریہ بھی خاصے کی چیز ہوتا ہے بہت سی معلومات کے در وا ہوجاتے ہیں۔ یہ شمارہ جنوری تا اپریل 2021 نجمہ منصور کے حوالے سے ہے۔
انھوں نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ "اسالیب" نے 29 واں شمارہ نثری نظموں کی مقبول شاعرہ، ادیبہ، نقاد اور ماہر تعلیم نجمہ منصورکی خدمات کے اعتراف میں ان کا خاص نمبر شایع کرنے کا اہتمام کیا ہے، "اسالیب" اس سے قبل ڈاکٹر وزیر آغا نمبر، ڈاکٹر انور سدید نمبر، ڈاکٹر رشید امجد نمبر، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش نمبر شایع کرکے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کر چکا ہے، ڈاکٹر وزیر آغا نمبر ایک انتہائی یادگار نمبر تھا جسے ہنوز یاد کیا جاتا ہے جامعات میں تحقیقی کام کرنے والوں کے بھی کام آ رہا ہے، ریختہ نے بھی اسے اپنی ویب سائٹ میں جگہ دے رکھی ہے۔
نجمہ منصور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے نجمہ منصور نے ڈاکٹر وزیر آغا کی سرپرستی میں جو نثری نظم کا آغاز کیا تھا وہ آج بام عروج پر دکھائی دے رہا ہے۔ نجمہ منصور کے پانچ نثری مجموعے میں سپنے اور آنکھیں، اگر نظموں کے پر ہوتے، محبت کیوں نہیں کرتے، گیلی سیلی نظمیں، تم، نظم کی بارگاہ میں اور نثری نظموں کی کلیات بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ نجمہ منصور نے اپنے سفر کا آغاز عہد ساز ادبی جریدے "اوراق" سے کیا تھا، انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا سے انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ انھوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کے حکم کے مطابق اپنے اولین مجموعے "میں سپنے اور آنکھیں " سے غزلیات کو خارج کردیا اور پھر نظموں کا ہی مجموعہ اشاعت کے مرحلے سے گزرا۔
ڈاکٹر وزیر آغا جو اپنے اندر اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے، انھوں نے محترمہ کے بارے میں فرمایا ہے "نجمہ منصور کا شعری دیار اس کی ذات کی طرح کومل اور منفرد ہے، روح کے کرب کو لفظوں میں ڈھال کر اس نے جس نوع کی تخلیقات پیش کی ہیں وہ اس صنف میں خال خال ہی نظر آتی ہیں، نجمہ منصور کا اسلوب ہی اس کی پہچان ہے اور اسی منفرد اسلوب نے اس صنف سخن کو وقار اور اعتبار بخشا ہے، نجمہ منصور کے لیے ادب کی تخلیق ایک ایسا عمل ہے جس سے اس کی دل اور روح کو قرار اور تسکین ملتی ہے۔
تو آئیے مفکرین و ناقدین کی آرا کے تناظر میں نجمہ منصور کی نظم "بارہ ماسی پیڑ جیسے" کا اعادہ کرتے ہیں مذکورہ نظم انھوں نے ڈاکٹر وزیر آغا اور پھر اپنے والد صاحب کے انتقال کے موقع پر لکھی ہے یوں محسوس ہوتا ہے انھوں نے اپنے استاد ذی وقار جناب وزیر آغا کی جدائی کے صدمے کو اس قدر شدت سے محسوس کیا کہ دل لہو لہو ہو گیا اور دل کا خون قلم میں سیاہی کی طرح اتر آیا ہے۔
وزیر آغا
آپ اس بارہ ماسی پیڑ جیسے تھے
جس کی برگ برگ شاخوں پر
پرندوں کی ڈاریں اترتیں تو
وہ ان کے سواگت کے لیے
اپنی نرمل کومل پتیاں بچھائے
یگوں تک کھڑا رہتا
آغا جان! آپ لفظوں کے مہاتما تھے
لفظ آپ کے پوروں کا بوسہ لے کر
امر ہو جاتے
مجھے یاد ہے
سجاد نقوی، یوسف خالد، عابد خورشید،
ذوالفقار احسن اور میں۔
آپ کی ہر نئی نظم کے پہلے سامع ہوتے۔
اور قاری بھی۔
آپ نظم سناتے اور ہم سانس روک لیتے
نظم دائرہ دائرہ پھیلتی۔ ہمارا طواف کرنے لگتی
پھر پرت پرت ہم پر کھل جاتی
آغا جان!
بچپن میں مجھے بلی کی آنکھوں سے ڈر لگتا تھا
اندھیرے میں اس کی چمکتی بلوری آنکھیں
مجھے گھورتی تھیں تو
یوں لگتا تھا مجھے
موت کے چہرے پر آنکھیں اگ آئی ہوں،
بالکل سرچ لائٹ کی طرح
اب مجھے بلی کی آنکھوں سے
ذرا ڈر نہیں لگتا
اس کی بلوری آنکھیں اب مجھے اچھی لگتی ہیں
کیونکہ آپ اور بابا جان کو کفن اوڑھے دیکھ کر
میں نے موت کا اصل چہرہ دیکھ لیا ہے۔
جناب ممتاز عارف نے اپنے مضمون "نجمہ منصور، نثری نظم کی خوش فکر شاعرہ" میں نجمہ منصور کی ابتدائے شاعری اور شاعری کے سفر کے مختلف ادوار اور محبوب کی محبت اور ہجر و وصال کیفیت کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے کہ ایک خوبصورت کہانی کی طرح کئی موڑ سامنے آتے ہیں، لکھتے ہیں کہ ان کی شاعری کے بیشتر اوراق میں ایک ایسی لڑکی سے ملاقات ہوتی ہے جو مجاز کے عشق میں مبتلا ہے جس کا کینسر کی طرح اس کے بدن میں پھیل چکا ہے اور اگر لوگوں سے بھی ملتی ہے تو اس کے کہنے۔ گلاب کی خوشبو سے خط لکھتی ہے اور اس کی خوشبو اپنے اردگرد محسوس کرتی ہے لیکن وہ محبوب ایسا ہے اس کی کسی بات پر توجہ نہیں دیتا۔ اس کے اس طرز تغافل سے وہ اپنی نیند گنوا بیٹھتی ہے۔
حفیظ تبسم کے مضمون کا عنوان ہے "نجمہ منصور کے نظمیہ سفر کا بہی کھاتہ" نثری نظم کا ذکر آتے ہی چند جدید نظم نگاروں کے ساتھ نجمہ منصور کا نام سطح ذہن پر ابھرتا ہے جو بس ایک ہی حیثیت سے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے یعنی نثری نظم اور مسلسل نثری نظم۔ ان کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں نجمہ منصور کی رومانی شاعری کی عمارت میں داخل ہونے کے لیے اداسی کے دروازے سے اندر داخل ہونا پڑتا ہے اور پھر ایک سحر طاری ہو جاتا ہے۔ ہر طرف پھیلی مایوسی اور تنہائی کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے ایسے میں نجمہ کا محبوب دکھائی نہیں دیتا ہے، نجمہ منصور ہی دکھائی دیتی ہے شاید وہ خود ہی یکطرفہ رومان میں مبتلا ہے۔" بے شک یکطرفہ محبت بھی انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے ایسا شخص بار بار مرتا اور جیتا ہے۔
جناب ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش جو ہمیشہ میری دعاؤں میں شامل رہتے ہیں، میں دل کی گہرائیوں سے ان کی مغفرت کی دعا ہر روز کرتی ہوں۔ انھوں نے نجمہ منصور کی شاعری کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کیا ہے کہ "ان کے نثری نظموں کے مجموعے " اگر نظموں کے پر ہوتے" میں ابھرنے والی لڑکی کی کہانی یہ ہے، کہ جس سے اس بھولی بھالی لڑکی نے محبت کی ہے۔ وہ اس سے جدا ہو گیا اب وہ لڑکی جدائی کے چرکے سہہ رہی ہے۔ وہ طالب ہے مطلوب نہیں، یہی اس لڑکی کا المیہ ہے۔ مجموعے میں شامل متعدد نظموں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ان میں جذبات، احساسات اورکیفیات کوکردار بنا کر پیش کیا گیا ہے جس کے باعث ان نظموں میں تحرک پیدا ہو گیا ہے، چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
دکھ دیوار کی اوٹ سے نکلا
میری طرف بڑھا
اور میرے اندر اتر گیا
پگلا خواب
آنکھ کی منڈیر سے اترا
سڑک پار کرتے ہوئے
تیز رفتار گاڑی سے ٹکرا گیا
تنہائی۔۔۔۔ میرے کمرے میں ہے
اداسی اوڑھے
سو رہی ہے۔