معروف شاعرہ اور افسانہ نگار تسنیم کوثر نے ادب کی کئی جہتوں پر طبع آزمائی کی ہے وہ شعر و سخن کے ساتھ افسانوں کی بھی تخلیق کار ہیں، ان کی شاعری کا مجموعہ " سرگوشی" اور افسانوں کی کتاب چبھن کے نام سے تخلیقی مراحل سے گزر چکی ہیں۔ دونوں کتابوں کی میں قاری ہوں، میں یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ تسنیم کوثر باکمال قلم کار ہیں، ان کی تخلیقات ان کی بہترین صلاحیتوں کی عکاس ہیں۔
اپنی گھریلو مصروفیات کے باعث کچھ عرصے تک انھیں قرطاس و قلم سے ناتا توڑنا پڑا۔ ایسے حالات سے خواتین لکھاریوں کو اکثر نبرد آزما ہونا پڑتا ہے ایک عورت کی اولین ترجیح اس کا گھر، شوہر اور بچے ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی بے چینی اور بے قراری کا سفر جاری رہتا ہے، چین کی دولت اسے ان لمحات میں میسر آتی ہے جب اس کا گمشدہ قلم اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور اب تسنیم کوثر اپنی صلاحیتوں، لگن اور شوق کی بدولت اپنے کھوئے ہوئے قلم سے خوب کام لے رہی ہیں کہ اللہ نے انھیں بہترین موقع فراہم کر دیا ہے۔
مبصرین و محققین نے ان کے افسانوں پر اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے کہ تسنیم کے لکھے ہوئے افسانوں کی خوبیاں اور ان کا طرز تحریر نمایاں ہوگیا ہے۔ بشریٰ رحمن اپنے مضمون بعنوان "توانا آواز، تازہ لہجہ" میں مصنفہ کے بارے میں لکھتی ہیں تسنیم کوثر بنیادی طور پر ایک خوش ادا شاعرہ ہیں اور شاعری میں وہ اپنا رنگ اور آہنگ منوا چکی ہیں۔ لیکن ان کے وجود کے اندر ادراک و احساس کی بھڑکتی آگ نے انھیں افسانہ نگاری کا روزن کھولنے پر مجبورکردیا، ان کے تمام افسانے پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ موجودہ معاشرے کی علتوں اور محاسن پر ان کی گہری نگاہ ہے۔ ان کا عمیق شاہدہ آس پاس بکھری کہانیوں کو سلیقے سے چننے اور بننے میں مہارت رکھتا ہے۔
یوسف جمیل نے بھی افسانوں کو توصیف و تحسین سے نوازا ہے لکھتے ہیں کہ تسنیم کوثرکا کوئی افسانہ ایسا نہیں ہے جس کے پہلے دو تین فقرے پڑھنے کے بعد قاری اسے چھوڑ سکے وہ فوراً کہانی کی گرفت میں آجاتا ہے اور وہ بے خیالی میں بغیرکسی شعوری کوشش کے افسانہ پڑھتا چلا جاتا ہے اور کہانی کے اختتام تک جا پہنچتا ہے۔
اس حقیقت میں شبہ کی گنجائش بالکل نہیں ہے کہ تسنیم کوثر افسانے لکھنے کے فن سے اچھی طرح واقف ہیں، اسلوب بیاں، کردار و منظر نگاری افسانوں کو دلکش بناتا ہے اور چونکا دینے والا موڑ عطا کرتا ہے۔ تسنیم نے عورت کی مجبوریوں و بے بسی کو الفاظ کا پیکر اس طرح دیا ہے کہ کردار بولنے لگتے ہیں اور منظر سامنے آ جاتا ہے، "خیال" ایک ایسا ہی افسانہ ہے اس افسانے میں عدالتوں کی حالت زار اور اصول و ضوابط کے پرخچوں کو پیروں تلے مسلتے اور مرد کی ہوس ناکی کا نقشہ موثر انداز میں کھینچا ہے۔
کہانی کو پڑھتے ہوئے سماج کے وہ کردار ہمارے سامنے آ جاتے ہیں جو ضمیر فروش اور مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والے بے حس حضرات ہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین کو آئے دن ان حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں مرد بڑی آسانی کے ساتھ جنس مخالف کی انا اور عزت کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے فقروں نے افسانے میں رنگ بھر دیا ہے اختتامیہ جملے ملاحظہ فرمائیے۔
"ہاں جی! ہم تو ہیں مہربان۔ مگر آپ نے کبھی کوئی مہربانی کی؟ کبھی ہمارا خیال کیا، ان کا انداز شکایتی اور لہجہ بے باک ہو گیا تھا۔"
مد و جزر، تکون، سسٹم، ندامت اور ٹائٹل اسٹوری چبھن اپنی بے مثال کردار نگاری اور بنت کے اعتبار سے شاندار افسانہ ہے ان افسانوں کے ساتھ کتاب میں شامل تمام افسانے معاشرتی ناہمواریوں طبقاتی کشمکش، انسانی جبلت، نفسیاتی الجھن، ذہنی کرب اورگھریلو مسائل کے گرد گھومتے ہیں، تسنیم کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد بسنے والوں کو جانچتی ہیں، پرکھتی ہیں اور کرداروں کے من میں اتر کر خود ایک کہانی، ایک افسانہ بن جاتی ہیں، درد اسی شدت سے محسوس کرتی ہیں، نفسیاتی خواہشات کی محرومی کو دل میں اتار لیتی ہیں۔
یہی کیفیت قلم کے سپرد کر دیتی ہیں اور پھر افسانوں کے باطن میں چھپی سچائی، زمانے کی تلخیاں، قاری کو تڑپا دیتی ہیں اور معاشرے کا یہ چلن اسے کئی دن بے چین رکھتا ہے۔ یہی افسانوں کی کامیابی ہے کہ صداقت کی روشنی سے تحریرکی روح جگ مگ کر رہی ہو اور افسانوں کا چولا رنگ برنگ دھاگوں اور موتیوں سے مرصع ہو۔
تسنیم کا تخلیق کردہ شعری مجموعہ "سرگوشی" بھی سچے جذبات اور معاشرتی اقدار اور ملکی و سیاسی حالات کی نمایندگی کرتا ہے، ان کی شاعری فکر وآگہی اور ندرت خیال، پاکیزہ احساس سے گندھی ہوئی ہے ان کی سوچ مثبت اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کا تاثر گہرا ہے۔ تسنیم کی شاعری میں نغمیت اور ترنم کے کئی رنگ اثر انگیزی میں اضافہ کرتے ہیں ابتدا رب ذوالجلال کی حمد و ثنا سے ہوئی ہے۔
جہاں میں مجھ کو وسیلے بھی معتبر دے گا
وہی تو ہے جو دعا میں میری اثر دے گا
تسنیم کی غزلیات تغزل کے دلکش رنگوں سے آراستہ ہیں:
کھولنا جب کبھی گزرے ہوئے لمحوں کے کواڑ
صبح ارمان بھری، شام سہانی لکھنا
کبھی رم جھم، کبھی خوشبو تو کبھی باد نسیم
اس کے لہجے کو بہاروں کی جوانی لکھنا
تسنیم استعاروں، کنایوں میں بات کہنے کے رمز سے اچھی طرح واقف ہیں۔ الفاظ کا استعمال اور انتخاب کرنا ہر اس شخص کا کمال نہیں جو شاعر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، فن شاعری اور رموز افکار کو اپنی شاعری میں وہ شعرا ہی برتتے ہیں جو تخلیق سخن کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اپنے علم کے دائرے کو وسیع کرتے ہیں۔
دیے کو دل لگی مہنگی پڑے گی
ہوا سے دوستی مہنگی پڑے گی
خزاں بیٹھی ہے اب نظریں جمائے
کلی کو بے خودی مہنگی پڑے گی
ایک اور غزل کے دو شعر اس میں درد کی میٹھی میٹھی کسک اور ہجر کا دکھ پنہاں ہے۔
مطلع ہے:
خواب جگنو ستارا آنسو ہیں
زیست کا استعارہ آنسو ہیں
اور مقطع بھی یاسیت کا پتا دے رہا ہے:
سب مقدر کی بات ہے تسنیم
کب کسی کو گوارا آنسو ہیں
تسنیم نے اپنی شاعری میں تشبیہات کو برملا اس انداز میں استعمال کیا ہے کہ معنویت کی پرتیں پھولوں کی پتیوں کی مانند کھلتی چلی جاتی ہیں۔
جو نام مرے لب پہ دعاؤں کی طرح تھا
وہ شخص تو موسم کی اداؤں کی طرح تھا
رکھتا تھا جو ہر شے کو قرینے سے ہمیشہ
خود اپنا مزاج اس کا ہواؤں کی طرح تھا
ان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ غزلیات کی شاعرہ ہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔ ان کی نظمیں بھی اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ وہ اپنی بات اور حالات زندگی و زمانے کو بہتر طریقے سے شاعری کے پیراہن میں سمونے کا فن جانتی ہیں۔
ہمیں چپ رہ کے جینے کا سلیقہ آگیا ہے اب
کوئی لمحہ خوشی کا ہو کہ دکھ اترے رگ و جاں میں
کوئی تنہا ہمیں کر دے کہ باندھے عہد و پیماں میں
ہمیں اب کچھ نہیں ہوتا یہ سب ماضی کے قصے ہیں
تسنیم کی شعر و نثر کی خوبی سلاست اور روانی ہے۔ یہی انداز قاری کے دل کو لبھاتا ہے۔