بہت دن سے سوچ رہی تھی کہ ان مرحومین کا نوحہ لکھوں جو اب اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، یہ ہیرے جیسے لوگ اور ان کے قلم سے قرطاس پر جلوہ دکھانے والے الفاظ سچے موتیوں کی دمک رکھتے تھے لیکن اب مجھے جس خبر نے دکھ پہنچایا ہے تو پہلا نوحہ اس خبر کی نذر اس قطعہ کے ساتھ۔
زندگانی ہے صدف، قطرۂ نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
علامہ اقبال نے علی گیلانی جیسی عظیم ہستیوں کے لیے ہی تو کہا ہے کہ موت بھی عمر بھر برسر پیکار رہنے والے عظیم لیڈر کا کچھ نہیں بگاڑ سکی، وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے تاریخ کے صفحات پر، دلوں کے اوراق پر، پوری دنیا میں ان کا نام، ان کی شجاعت اور ان کا جذبۂ جہاد، جدوجہد آزادی کی شکل میں زندہ جاوید رہے گا۔
92 سالہ علی گیلانی کو سری نگر میں ان کی رہائش گاہ پر ہندوستان کی ظالم و سفاک، بددیانت حکومت نے نظر بند کیا ہوا تھا، بزرگی کا عالم، نقاہت، کمزوری، بیماری میں انھوں نے آزادی کی شمع جلائے رکھی اور اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔
ان کا نعرہ تھا جو ہمیشہ تابندہ رہے گا "ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے" یہ نعرہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا، بچے، بوڑھے، نوجوانوں کی زبان پر آزادی کے نام کی لذت کے ساتھ رچ بس گیا، علی گیلانی نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ کشمیر کاز اور بھارتی قبضے کے خاتمے کے لیے وقف کردیا تھا، بھارت گزشتہ سات عشروں سے کشمیر پر قابض ہے، ہزاروں کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔
اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
یہ حکمتِ ملکوتی، یہ علمِ لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور
تری خودی کے نگہبان نہیں توکچھ بھی نہیں
خرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
1929 میں بمقام باندی پورہ میں جنم لینے والے سید علی گیلانی نے بدھ 23 محرم الحرام 1443 ھ یکم ستمبر 2021 کو داعی اجل کو لبیک کہا اور رہتی دنیا تک اپنا کام اور نام روشن کرگئے وہ ایک سچے مسلمان تھے ان کی پوری زندگی جہاد کرتے ہوئے گزری، وہ بھارتی سامراجیت کے سامنے سینہ سپر رہے، ڈرپوک اور بزدل بھارت جدید اسلحہ رکھنے کے باوجود ایک مرد مجاہد سے خائف رہا اور بزدلانہ حربہ آزماتے ہوئے اس بزرگ مجاہد کو قید کردیا گیا اور اب مزید یہ ستم کہ ان کے جسد خاکی کو بھارتی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا اور اپنی مرضی سے زبردستی تدفین کروائی۔
ایک ایسے گھر میں جہاں، غم ہے، دکھ ہے اپنے سے بچھڑنے کا رنج ہے، اس گھر کو محاصرے میں لے لیا، کرفیو لگا دیا گیا تاکہ لوگ اپنے قائد کا آخری دیدار اور ان کی میت کو کاندھا نہ دے سکیں۔ بزدلوں کو ڈر ہے کہ یہ نہتے کشمیری جوش ایمان سے لبریز ہو کر ان کی ٹڈی دل فوج پر حملہ آور نہ ہو جائیں۔ ہائے۔۔۔۔ مسلمان اور کافر میں یہی تو فرق ہے۔
سید علی گیلانی کے انتقال پر آزاد کشمیر میں تین روزہ سوگ اور پاکستان میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے، پاکستان کے 73 ویں یوم آزادی پر کشمیر کے حریت رہنما سید علی گیلانی کو نشان پاکستان کا اعزاز دیا گیا اور یہ اعزاز صدر پاکستان عارف علوی نے ایوان صدر میں ایک پروقار تقریب میں پیش کیا۔
دوسرا نوحہ بھی میری سماعت سے ٹکرا رہا ہے۔ افواج پاکستان کے جیالے نوجوان جو ہر لمحہ شہادت کا تاج پہننے کے خواہاں رہتے ہیں بے شک یہ عظیم ترین لوگ ہیں، جو اپنے وطن و قوم کی حفاظت کے لیے موسموں کی سنگینیوں کو برداشت کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، اپنے گھروں اور والدین، بیوی بچوں سے دور رہ کر سنگلاخ چٹانوں، برف پوش وادیوں، پتھریلے راستوں پر چل کر دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر نو بیاہتا ہوتے ہیں شادی کے چند روز بعد ہی سرحدوں پر پہرہ دینے اور بزدل دشمن کے حملوں سے معصوم شہریوں کو بچانے کے لیے راتوں کو جاگتے ہیں، فرض شناسی انھیں چین کی نیند سونے نہیں دیتی۔
یہ عظیم والدین کے بہادر سپوت ہیں یہ فوجی اللہ اور اس کے رسول پاکؐ کی محبت و عقیدت سے سرشار ہوکر میدان جنگ میں بڑھتے چلے جاتے ہیں، دشمن کے ناپاک اور مذموم مقاصد کو ملیامیٹ کرنے کے لیے شہادت کا جام خوشی خوشی حلق میں انڈیلتے ہیں۔
حال ہی میں کیپٹن کاشان شہید نے شہادت کا جام نوش کیا۔ سلام ان والدین کو جو جوان بیٹوں کی شہادت کے بعد کہتے ہیں، بیٹے کی جدائی رلاتی ہے لیکن کوئی افسوس نہیں، یہ بیٹے تو پوری قوم کا فخر ہیں، ان شہدا کی مائیں بنا آنسو بہائے کہتی ہیں کہ اگر ہمارے ایسے ہی دس بیٹے بھی ہوتے تو ہم وطن کے تحفظ کے لیے انھیں بھی سرحد پر خوشی خوشی بھیجتے اور ان کی شہادت پر گریہ کناں نہیں ہوتے۔
گزرنے والے اور رواں سال میں بے شمار شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے حضرات خزاں کے پتوں کی مانند زندگی کے درخت سے جدا ہوگئے۔ انھی میں جاذب قریشی، صمد تاجی، ابوالفرح ہمایوں، ڈاکٹر شکیل فاروقی، ان کی اچانک موت کا صدمہ ہر شخص کو تھا، اور بھی بہت ساری ہستیاں جن میں نورالہدیٰ سید، سعید احمد فیض آبادی یہ نامور لوگ علم و ادب، شعر و سخن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے۔
ایک اہم نام جناب غالب عرفان کا یاد آگیا اور بہت سی یادوں کے دیے روشن ہوگئے وہ قادر الکلام، سچے اور کھرے لہجے کے شاہر اور اخلاقی قدروں سے مالا مال تھے۔ چند دن پہلے ہی ایک طویل عرصے بعد ان سے میری بات ہوئی تھی، زندگی سے بھرپور قہقہے لگا رہے تھے کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ وہ عدم کے سفر پر جانے والے ہیں۔ 20 نومبر 2015 کو انھوں نے ایک کتاب بعنوان "غالب عرفان اور تخلیقی وجدان " مرحمت فرمائی تھی۔ سعید مسعود اعجاز بخاری اس کتاب کے مصنف تھے۔
مسعود اعجاز غالب عرفان کے علم و ہنر، شعری وجدان کی قدر و قیمت سے اچھی طرح واقف تھے۔ اسی قدر دانی کے نتیجے میں مذکورہ کتاب وجود میں آئی اور یہ کتاب غالب عرفان کی آخری کتاب ثابت ہوئی۔ غالب عرفان کا پہلا مجموعہ کلام 1993 میں شایع ہوا تھا آگہی سزا ہوئی، سفر کی شام ہوتی جا رہی ہے، محمد ﷺ، روشنی جلتی ہوئی نعتوں پر مشتمل تھی، غالب عرفان کے کئی اشعار زبان زد عام ہیں۔
مسافت کی تھکن لادے ہوئے ہوں۔
سفر کی شام ہوتی جا رہی ہے۔
میں صحرا میں سمندر دیکھتا ہوں
کبھی جو اپنے اندر دیکھتا ہوں
ایک آئینے میں میرا عکس ہے اور
مقابل جسم پتھر کا دیکھتا ہوں
اللہ مرحومین کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)