فلسطین ایک بار پھر لہو لہان ہے، گوکہ وقتی طور پر حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کرا دی گئی ہے، لیکن مسئلہ فلسطین جوں کا توں موجود ہے اور کچھ پتہ نہیں کہ کس گھڑی دوبارہ اسرائیل اپنے مظالم ڈھانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کردے۔
چند ہی ماہ گزرے ہیں جب متحدہ عرب امارات اور پھر بحرین نے اسرائیلی حکومت کو تسلیم کیا، اس کے ساتھ ہی سوڈان نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کا اعلان کیا۔ سوڈان اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پانچواں ملک تھا، مسلم ممالک کی ان مہربانیوں کے صلے میں اسرائیل نے اس طرح اپنے ناپاک جذبات و احساسات کا مظاہرہ کیا کہ نہتے اور معصوم شہریوں پر بمباری کی کہ اسپتال زخمیوں سے بھر گئے اور شہدا کی تعداد سیکڑوں تک پہنچ گئی اور اب بھی وہ فلسطینی مسلمانوں کے لہو کا پیاسا ہے اور خطرناک منصوبہ بندی کے تحت مزید حملوں کی تیاری میں مصروف ہے۔
یہودی ایک سرکش ظالم اور اللہ تعالیٰ کی نافرمان قوم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ بلکہ عیسائیوں کی بھی ناپسندیدہ اور قابل نفرت قوم رہی ہے۔ عیسائی یہودیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قاتل قرار دیتے ہیں، ان کے اس ناقابل معافی جرم کی وجہ سے یہ قابل نفرت بن گئے۔ انھیں قتل کیا گیا اور ان کے ہیکل Temple کو مسمار کیا اور انھیں دنیا بھر میں اتنا ذلیل و خوار کیا کہ وہ اچھوتوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے، وہ جہاں جاتے انھیں ان کے لیے زمین تنگ کردی جاتی۔
یہودی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جن کا لقب بنو اسرائیل تھا، "اسرائیل" کے معنی "اللہ کا بندہ" ہے اور یہ لقب حضرت یعقوب علیہ السلام کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کے ذریعے انھیں فرعون مصرکی غلامی سے نجات دلائی اور اسی زمانے میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کو کوہ طور پر بلا کر " تورات " عطا کی۔ قرآن پاک میں ان کا ذکر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور انھیں اس بات کی یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کیسے کیسے انعامات سے نوازا تھا۔
ان مہربانیوں کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوکر اس عہد کو پورا کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا کہ وہ تورات پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں گے لیکن انھوں نے تورات پر عمل کرنے کے بجائے اس کے احکامات کو بدل ڈالا۔ اس سے پہلے یہ اللہ تعالیٰ کی محبوب اور پسندیدہ قوم تھی۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 122 میں فرمایا گیا ہے۔ ترجمہ: "اے بنی اسرائیل! ذرا یاد کرو، ہمارے وہ انعامات جو ہم نے تم پرکیے اور ہم نے تم کو عالم پر فضیلت دی۔"
دنیا میں فضیلت کے معنی انھوں نے یہ نکالے کہ ہم خدا کے برگزیدہ اور پسندیدہ بندے ہیں اور ہم ہی انسان کامل ہیں اور باقی انسان نما حیوان لہٰذا ان کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک روا رکھا جائے، یہود کی فقہ کی کتاب " تالمود" میں صاف طور پر لکھا ہے، باقی اقوام کو دھوکا دینا، ان کا استحصال کرنا یہودیوں کا حق ہے۔" لہٰذا وہ پوری دنیا پر ایسا غلبہ چاہتے ہیں کہ پوری انسانیت کو حیوانیت میں بدل دیا جائے اور ان کی محنت کی کمائی کو سود کے ذریعے حاصل کرتے رہیں۔
یہودیوں کی اسی نفسیات اور ذہنی پستی نے اس قوم کو ذلت و رسوائی کی دلدل میں دھنسا دیا ہے جہاں بھی انھوں نے قدم رکھا قرآن کے مطابق وہ اللہ تعالیٰ کے غضب ہی میں گھرے رہے۔ وہ جہاں بھی جاتے انھیں رسوا کرکے نکال دیا جاتا ان کا یروشلم اور ہیکل کئی بار اجاڑا گیا۔ 200 سال پہلے عیسائی انھیں بری قوم قرار دیتے تھے۔ ہٹلر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا تھا۔ جسے ہولو کاسٹ (Holocaust) کا نام دیا جاتا ہے۔
اپنے خلاف ہونیوالے عیسائیوں کے بدترین سلوک اور بربریت کی وجہ سے انھیں اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اب انھیں عزت والی زندگی کبھی نصیب نہیں ہوگی وہ ہمیشہ عتاب کا شکار رہیں گے اسی وجہ سے انھوں نے ساری امیدیں "دجال" سے وابستہ کرلیں کہ ان کا یہ "مسیحا" انھیں آزادی اور سربلندی عطا کرے گا اور پھر پوری دنیا پر ان کی ہی حکمرانی ہوگی۔ اقوام متحدہ بھی ان کے ساتھ ہے اور ان کی خواہشات کی تکمیل کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ان کی اہم دستاویز "پروٹوکول" جوکہ سیاسی منصوبوں پر مبنی ہے میں یہ بات لکھی ہے کہ ہمیں ایک حکومت کے قیام کے لیے کوشش تیز کرنی چاہیے۔
امریکا کے ایک وکیل ہیری کلسن نے اپنی کتاب "Zionism Rules The World" میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ صیہونیت کا دوسرا نام ہے۔ چنانچہ یہودی اپنی ذلت و رسوائی کا بدلہ لینے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہیں، عالمی حکومت کا قیام عیسائیوں کے منصوبوں میں بھی شامل ہے ان کا نظریہ ہے کہ عالمی حکومت حضرت عیسیٰ علیہ السلام قائم کریں گے، چونکہ عیسائی اپنا مسیحا حضرت عیسیٰؑ کو مانتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب عرش سے تشریف لائیں گے اس وقت تمام عیسائی مسلمان ہو جائیں گے اور باقی بچے یہودی تو ان کے لیے جائے پناہ نہیں ہوگی، یہ جس پتھر اور درخت کے پیچھے چھپیں گے وہ بولنے لگیں گے کہ یہ شخص ہمارے پیچھے ہے۔ ہائے رے بدنصیبی! جہنم کا ایندھن، جو آج اپنی بقا کی جنگ کے لیے بے شمار ان فلسطینیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر رہے ہیں جو نہتے ہیں۔ ان کے پاس جدید اسلحہ ہے اور مظلوم فلسطینیوں کے پاس پتھر۔
مسلم حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ہمدردی کرنے اور اسرائیل کو ظلم سے باز رکھنے کے لیے اجلاس میں زبانی جمع خرچ کریں، ان کی حمایت کا تقاضا ہے کہ فلسطینیوں کو اسلحہ فراہم کیا جائے اپنے اپنے ملک کی افواج کو ان کی حفاظت اور اسرائیلیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا جائے۔ آج فلسطینی بچے، خواتین آواز دے رہی ہیں فلسطینی اپنے مسلمان بھائیوں کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا نہیں کہ اپنے ملک کے فوجی دستوں کو فی الفور روانہ کردے۔ حماس کے پاس ایک حد تک اسلحہ بھی ہے لیکن اسرائیل نے اپنے بچاؤ کے لیے ٹیکنالوجی کا خاطر خواہ انتظام کیا ہوا ہے۔
لہٰذا میزائل اپنے ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی ناکارہ ہو جاتا ہے اور جو میزائل کامیابی سے پہنچے تو اسرائیل کا تھوڑا بہت ہی نقصان ہوا، چند اسرائیلیوں کی موت کے سوا۔ فلسطین دنیا کا وہ خطہ ہے جسے یہودی عیسائی اور مسلمان تینوں مقدس مانتے ہیں۔ یہودی امت محمد ﷺ کے کھلے دشمن ہیں، اس دشمنی کی وجہ ان کا تکبر ہے کیونکہ یہودی بعثت محمدی ﷺ سے قبل اہم منصب پر فائز تھے۔
حضور پاکؐ کی نبوت و رسالت کے بعد انھیں معزول کردیا گیا۔ اسی وجہ سے وہ مسلمانوں سے عداوت رکھنے لگے اور کھلی دشمنی پر اتر آئے۔ عیسائیوں کے لیے یہ ملک اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ یہی علاقہ حضرت عیسیٰؑ کا مولد ہے آپ نے ادھر سے ہی تبلیغ کا آغاز کیا۔ مسلمانوں کی عقیدت اس سے محبت اور حفاظت فطری ہے کہ اس مقام مقدسہ پر حضرت محمدؐ نے سفر معراج سے قبل مسجد اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت کی تھی۔
پہلی صلیبی جنگ کی ابتدا بھی اس وقت ہوئی جب حضرت عمرؓ کے دور میں مسلمانوں نے بازنطینیوں کو شکست دی تھی، مسیحی دنیا میں یہ فتح عظیم سانحہ کا درجہ رکھتی ہے۔ لہٰذا 1095 میں پوپ اربن دوم نے یورپ بھر میں مہم چلا کر فوجیں اکٹھی کیں اس کا نتیجہ یہ نکلا 1099 میں عوام امرا اور بادشاہوں کی مشترکہ فوج یروشلم کو آزاد کروانے میں کامیاب ہوگئی۔
ایک طویل عرصے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کے تسلط کا خاتمہ کردیا، اور اب بھی فلسطین آزاد ہو سکتا ہے اگر مسلم حکمران اللہ کی رضا اور امت مسلمہ کے استحکام کے لیے جہاد شروع کریں، جہاد کا حکم اللہ اور اس کے رسولؐ نے دیا ہے۔ اس پر عمل پیرا ہونا لازم ہے کہ یہ وقتِ جہاد ہے۔