جس وقت پوسٹ مین نے ایک نہیں کئی کتابیں اور رسائل میرے ہاتھوں میں تھمائے تو مجھے ہمیشہ کی طرح ایک گوناگوں مسرت کا احساس ہوا اور تقریباً سو صفحات پر مشتمل کتاب نما رسالہ میرے ہاتھ میں آیا تو خوشی دگنی ہوگئی، اس کے ساتھ ہی میں ایک پل میں ماضی کی اتھاہ وادیوں میں پہنچ گئی۔
ان دنوں میں نے لکھنا شروع کیا تھا اور میرے افسانے رسائل و جرائد میں باقاعدگی سے شایع ہو رہے تھے ابتدا میں سب سے زیادہ افسانے میری یادداشت کے مطابق سہ ماہی "سب رس" میں شایع ہوئے۔
"سب رس" کے مدیر اعلیٰ خواجہ حمید الدین شاہد تھے۔ میرے لیے بے حد قابل احترام، خلوص و محبت کا پیکر، شرافت اور نیکی کی تصویر۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ مجھے اللہ نے بیٹی سے نہیں نوازا ہے اور اب آپ میری بیٹی ہیں۔ اس کے بعد کئی بار ان کے دولت کدے پر حاضری کا موقعہ ملا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی سے بھی ملاقات کا شرف خواجہ حمید الدین شاہد کے ہی ذریعے ہوا۔
وہ پابندی سے مجھے "سب رس" ارسال کیا کرتے تھے، اب جب کہ ان کے صاحبزادے جو اس رسالے کے مدیر منتظم ہیں ڈاکٹر خرم فیاض الدین نے مجھے یاد رکھا تو بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔ خواجہ حمید الدین کی وفات کے بعد کتابی سلسلہ "سب رس" شایع ہوا ہے۔ اس کے مرتب میر حسین علی امام ہیں۔ بیادگار پروفیسر خواجہ حمید الدین شاہد (مرحوم) کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔
ڈاکٹر خرم فیاض الدین نے جو مختصر سا مضمون لکھا ہے، گویا ایک تعارف ہے۔ لکھتے ہیں سب رس" کتابی سلسلہ کی پہلی کتاب جامعہ عثمانیہ کے "سو سال" پیش خدمت ہے۔"سب رس" جنوری 1938 میں حیدرآباد دکن سے پروفیسر محی الدین قادری زور نے جاری کیا تھا، ان کے شاگرد اور میرے والد مرحوم پروفیسر خواجہ حمید الدین شاہد پہلے شمارے سے اس سے منسلک تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ نے اسے ایوان اردو کے زیر اہتمام کراچی سے جاری کیا اور تاحیات جاری رکھا۔ ان کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔
جامعہ عثمانیہ کے حوالے سے بڑے قلم کاروں کی تحریریں اس میں شامل ہیں جن میں ڈاکٹر جمیل جالبی، بدر شکیب، شان الحق حقی، ڈاکٹر معین الدین عقیل نے "جامعہ عثمانیہ" کے بارے میں بھرپور معلومات فراہم کی ہیں۔ ابراہیم جلیس کے کا کالم یا مضمون کا ایک اقتباس بھی جامعہ عثمانیہ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
شاہ عثمان نے علم سے ایسا بھرپور پیار کیا ہے جیسا والہانہ پیار شاہ جہاں نے ممتاز محل سے کیا تھا بلکہ شاہ عثمان تو دنیا بھر سے نرالا بادشاہ تھا، جس نے اپنے لیے یا کسی فرد واحد کے لیے کوئی عیش گاہ کوئی شیش محل، کوئی مقبرہ یا کوئی قلعہ تعمیر کرنے کے بجائے سارے انسانوں کے لیے ایک ایسی درسگاہ تعمیر کر گیا جو اسی طرح دنیا کا مرکز بن گئی، جس طرح قطب مینار، تاج محل یا ایلورہ اجنتا۔ میں تو جامعہ عثمانیہ کو بلاشبہ دنیا کا نواں عجوبہ سمجھتا ہوں۔
بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی رائے کے مطابق "اردو زبان کا کوئی ذکر جامعہ عثمانیہ کے بیان سے خالی نہیں ہو سکتا۔ جامعہ عثمانیہ نے "اردو" کو یونیورسٹی کی تعلیم کا ذریعہ بنا کر اور علوم و فنون پر سیکڑوں کتابیں ترجمہ اور تالیف کرا کر اردو زبان کی بنیادوں کو ایسا مضبوط کردیا ہے کہ زمانے کے حوادث اسے ہلا نہیں سکتے۔" وحیدہ نسیم نے بھی شاعری کے ذریعے اپنی درس گاہ جامعہ عثمانیہ کو خوبصورت انداز میں یاد کیا ہے۔ مادرِ جامعہ میری عثمانیہ
تجھ سے میں دور ہوں کتنی مجبور ہوں
تیری آغوش میں علم کی لوریاں
تیرا گہوارا فکر ایک داستاں
مجھ کو دامن کی تیرے ہوا یاد ہے
تیری چاہت کی ہر ہر ادا یاد ہے
دسمبر کا مہینہ دل خراش یادوں سے وابستہ ہے۔ 16 دسمبر کو بھلا کون بھلا سکتا ہے ایک ایسا زخم جو کبھی نہیں بھر سکے گا۔ آج بھی زخموں سے خون رس رہا ہے ہر خون کا قطرہ ان لوگوں سے حساب مانگ رہا ہے جن کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا۔ اسی طرح پشاور کا سانحہ بھی اسی تاریخ کو رونما ہوا۔ ننھے منے معصوم بچوں کا لہو، اساتذہ کی قربانیاں ناقابل فراموش حقیقت بن چکی ہیں۔ قاتلوں کا برا انجام ہوا اور وہ جہنم رسید ہوئے اور شہدا جنت کے باغوں میں جھولا جھولتے اور تتلیاں پکڑتے ہوں گے۔ اللہ ان کے والدین کو صبر جمیل سے نواز دے کہ انھوں نے اپنے لخت جگر، نور نظر کو لہو لہان ہوتے دیکھا ہے۔
سولہ دسمبر سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے شفیق احمد شفیق کی کتاب "یاد عید خوچکاں " منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی ہے۔ شفیق احمد شفیق نے علمی و ادبی لحاظ سے عمر بھر ریاضت کی ہے شعر و سخن اور تنقید و تحقیق کے حوالے سے ان کی بارہ کتابیں شایع ہوچکی ہیں، اسی طرح ترتیب و تدوین کے اعتبار سے بھی ان کا کام نمایاں ہے۔ 5 کتابیں منظر عام پر جلوہ گر ہوئیں اور ناقدین و قارئین سے مسلسل داد و تحسین وصول کر رہی ہیں۔ مصنف کو کئی پرچوں کی ادارت کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ مذکورہ کتاب پر محمود شام اور اکرم کنجاہی کی آرا شامل ہیں۔
اکرم کنجاہی نے اپنے مضمون کی ابتدا اس طرح کی ہے سقوط ڈھاکا ایسا سانحہ تھا کہ جسے بیان کرتے ہوئے تخلیق کاروں کے داخلی یا ان کے شخصی درد و غم نے اجتماعی قومی المیے کا روپ دھار لیا۔ بہت سے محب وطن شعرا نے جو سقوط پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان میں تھے، اپنی نظم کو ایک اجتماعی دکھ کے حوالے کردیا جس کا تعلق الم ناک اور سیاہ ترین باب سے تھا۔ محمود شام نے "یاد عید خوچکاں " پر لکھا ہے یہ صرف پاکستان کا ہی نہیں عالم اسلام کا عظیم المیہ تھا۔
ایک وطن جو لاکھوں شہیدوں کے خون کا نذرانہ دے کر حاصل ہوا، جس کی سمت سفر کرتے ہوئے ہزاروں مائیں، بہنیں، بزرگ، بچے گولیوں، کرپانوں، تلواروں اور نیزوں کا شکار ہوگئے۔ جس کی بنیادوں میں، میرے، آپ کے پنجابیوں، سندھیوں، پٹھانوں، بلوچوں، کشمیریوں اور بنگالیوں کے خون کے ساتھ ساتھ ان عظیم آبا و اجداد کا لہو بھی شامل ہے جو اپنے ہنستے بستے گھر بار چھوڑ کر اس جنت ارضی کی طرف چل پڑے تھے کون جانتا تھا یہ جنت دوزخ بنا دی جائے گی۔
شفیق احمد شفیق خود اس المیے سے دوچار ہوئے ہیں اسی وجہ سے ان کے اشعار لہو رنگ ہوگئے ہیں، درد کی ایک رت، غم کی شدت، ظلم کی یلغار ان کی شاعری میں رچ بس گئی ہے۔ انھوں نے مشرقی پاکستان میں ٹوٹنے والی قیامت، عصمت و آبرو کو لٹتے اور گھروں کو جلتے دیکھا، قتل و غارت کا بازار، آگ دھواں، سوختہ اور بے کفن لاشوں کا قبرستان قدم قدم پر پایا ہے۔ ان کی شاعری مشرقی پاکستان میں ہونے والی سفاکیوں کا نوحہ پیش کرتی ہے۔