صاحب! عرصہ پہلے ہم نے کسی دُکھیا فلاسفر کا یہ قول پڑھا تھا کہ انسان کے لیے بہترین چیز تو یہ ہے کہ وہ شادی نہ کرے لیکن اگر بدقسمتی سے اُس کی شادی ہوجائے تو اُس کے لیے اگلی بہترین چیز یہ ہے کہ وہ فوری طور پر علیحدگی اختیار کرلے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ مرد حضرات (شادی شدہ) کی ایک قابلِ ذکر تعداد اسی خیال کی حامی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ خوفِ فسادِ خلق کی بنا پر اس کے اظہار کی تاب ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ لیکن اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سکول آف تھاٹ، کا حامل ہونے کے باوجود شادی شد ہ مردوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جن کے دل میں عقدِ ثانی کی خواہش بھی پوری آب و تاب سے سر اُٹھاتی ہے اور ان میں کچھ لوگ تو اس پر باقاعدہ عمل بھی کر گزرتے ہیں۔ ہمارے کچھ دوستوں نے بڑے شوق سے دوسری شادی رچائی لیکن چند دن بعد ہی پتہ چلا کہ اُن کے لیے یہ تجربہ بڑا گھمبیر اور تلخ ثا بت ہوا ہے۔ اور اب اُن کے حالات دیکھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایک عزیز دوست نے اپنی پہلی شادی کی تو بے حد پریشان رہنے لگے۔ کئی سال اُن کو پہلی شادی کے آفٹر شاکس، محسوس ہوتے رہے۔ لیکن ایک دن معلوم ہو ا کہ موصوف نے ایک اور شادی کر لی ہے۔ بڑی حیرت ہوئی۔ عرض کیا "حضور! آپ تو ابھی پہلے کانٹے چُن رہے تھے، ایسے میں یہ کیا سوجھی؟ " اس پر آں جناب کہنے لگے کہ وہ شادی شدہ زندگی کی خرابیوں کو مزید شادیوں کے ذریعے ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ لیجیے! شادی نہ ہوئی گویا جمہوریت ہو گئی۔۔ پھر سُنا کہ موصوف نے ایک اور یعنی تیسری شادی کر لی ہے۔ آخر آخر معلوم ہوا کہ آپ کو احتیاطاً دماغی ہسپتال میں چھوڑ دیا گیا ہے جہاں وہ اپنی بقایا خرابیوں کو ٹھیک کر رہے ہیں۔ عقدِ ثانی کرنے والوں کی ایک اور قسم اُن مرد حضرات کی ہے جو دوسری شادی کر کے اُسے مکمل خُفیہ رکھنے کی اپنے تئیں بڑی کامیاب کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے بقول ان کے ازدواجی سٹیٹس، کا ان کے علاوہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔ یہ تمام عمر چھپتے پھرتے ہیں۔ عجیب اشتہاری مجرموں کی سی زندگی ہوتی ہے۔ کن اکھیوں اور سرگوشیوں میں بات کرتے ہیں۔ اور پکڑے جانے کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے۔ ان حالات میں نجانے یہ لو گ وہ راحت، تسکین اور خوشی جو اس رشتے کے بنیادی لوازمات ہیں، کیسے حاصل کر پاتے ہیں۔ پھر ایک اور قسم ان حضرات کی ہے جن کی دوسری(اور تیسری) شادی کا سب کو پتہ ہوتا ہے، سوائے خود ان صاحب کے! حواس باختگی اور لا پرواہی سے مزیّن، طرز زندگی کے حامل ان حضرات کو کچھ خیال نہیں ہوتا کہ ان کے متعلقین کس حال میں ہیں۔ فیملیز، بچے کہیں رُل رہے ہوتے ہیں اور یہ صاحب کہیں اور بیٹھے چین کی بانسری بجا رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے ایک عزیز دوست نے حال ہی میں عقدِ ثانی فرمایا ہے اور اس دوران ان موصوف کا جو حال ہوا ہے اور جان کنی کے جن مراحل سے یہ صاحب گزرے ہیں اس میں اہل دانش کے لیے غوروفکر کا کافی سامان موجودہے۔ بارات والے دن ان صاحب پر وہ تمام کیفیات ہمہ وقت طاری رہیں جو عام طور پر کسی سیریس بیماری سے ذرا پہلے کسی مریض پر طاری ہوتی ہیں۔ پچاس ساٹھ لوگوں کی بارات تھی، جس میں باراتی کم اور جاسوس زیادہ تھے۔ پلان یہ تھا کہ تمام سرگرمی کو انتہائی مخفی رکھا جائے۔ چنانچہ قصداً ایسے لوگوں کو بلایا گیا تھا جن کا آپس میں دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔ اخفاء اور کیموفلاج کے اس ماحول میں بارات کی وہ روایتی خوشی اور سرشاری تو کیا ہونا تھی اُلٹا یوں لگ رہا تھا کہ ہم کسی جائے واردات پہ موجود ہیں اور ابھی کوئی جُرم سرزد ہو نے والا ہے۔ بہرحال! ہم نے ایک دوست کے ناطے اس شادی میں شرکت کی، تھوڑی دیر وہاں بیٹھے اور پھر دلہا صاحب کو حوصلہ دیا، سلامی تھمائی اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہال سے باہر نکل آئے۔
آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے وہ دوست جنہوں نے ایک سے زیادہ شادیوں کا رِسک لیا ہے ان میں سے اکثر، " دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو " کی تصویر بنے پھرتے ہیں۔ دراصل جو لوگ اس زعم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اُن کے پاس دولت، جائیداد، وقت اور دیگر لوازمات موجود ہیں لہذا وہ آسانی سے Afford کر سکتے ہیں وہ بھی اکثر ایسا نہیں کر سکتے اور دوسری شادی کے بعدمعاملات کو کما حقّہ چلا نے میں ناکام رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی صورت میں توازن برقرار رکھنے کے لیے جس دانشمندی اور معاملات کو سلجھانے کے لیے جس حکمتِ عملی اور مضبوط اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہرکسی کے پاس نہیں ہوتے۔ لیکن بیان کردہ اس حقیقت کے باوجود کئی شادی شدہ مرد حضرات کی زندگی میں بسا اوقات ایسا موقع آتا ہے جب وہ عقدِ ثانی کے بارے میں غور کرنے لگتے ہیں۔ ہمارا شمار بھی آپ انہی لوگوں میں کر لیجئے۔ چنانچہ ایک دن ماحول ساز گار دیکھ کر ہم نے بیگم صاحبہ کے سا منے عقد ثانی کی کا ذکر چھیڑا اور اپنے موقف کی تائید میں مذہب اور تاریخ وغیرہ کے کئی حوالے پیش کئے لیکن صاحب! سب بے سود!! پھر ہم نے ایک تُرپ کا پتّا پھینکا اور کہا "دیکھیے! ہمارے اسلاف اور تاریخی ہیرو زمیں سے کئی ایک نے زیادہ شادیاں کیں اور تاریخ میں بڑانام کمایا "۔ کہنے لگیں، "دیکھیں ! پہلی بات تو یہ ہے کہ ان ہیروز کے تاریخ میں نام کی وجہ ان کی شادیاں نہیں تھیں اور دوسرے یہ کہ ان اسلاف میں کئی اور کمالات اور خوبیاں بھی تھیں کبھی آپ کی نظر اُن اوصاف اور خوبیوں پر بھی پڑی ہے؟ " اب اصولی طور پر ہمارے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ اگر کسی بات کا جواب نہ ہو تو اس کا جواب بھی نہ دیا جائے (اور یہ اُصول بھی تو ہم نے بیگم صاحبہ سے ہی سیکھا ہے)۔ چنانچہ ہم نے اپنے موقف کو ایک اور رنگ دیا اور پروین ؔ شاکر کا یہ شعر پڑھا:
کمال ضبط کو خود بھی تو آزمائوں گی
میں اپنے ہاتھ سے اُس کی دلہن سجائوں گی
اور اس باکمال رومانوی شاعرہ کے جذبے، خلوص اور حوصلے کی طرف اشارہ کیا۔ بیگم صاحبہ نے فوری طور پر رومینٹک شاعری پر تین حرف بھیجے اور کہنے لگیں کہ آپ نے پطرسؔ کے مضامین پڑھے ہیں انہوں نے ایسی ہی شاعری کو خلاف فطرت اور ایشیاء کیلئے باعث ننگ کہا ہے۔ ہم نے موضوع یہیں ختم کیا او ر گھر میں موجود " پطرس ؔ کے مضامین " سمیت تمام غیر ضروری کتابوں کو فوری تلف کرنے کا فیصلہ کیا۔ انسان جو کچھ کر سکتا ہے کم از کم وہ تو اُسے کرنا چاہیے۔