پاکستان میں تجزیہ نگاری ایک ایسا میدان بن چکا ہے، جس میں ہر تجزیہ نگار صرف ایک آنکھ کھول کر بولتا یا لکھتا ہے۔ تاریخ کے صفحات سے اپنی مرضی کے واقعات اٹھاتا ہے، اور جو مرضی کے مطابق نہ ہو ں، انہیں وقت کے کوڑے دان کی نذر کر کے منتخب کئے گئے واقعات کو ایک ترتیب سے جوڑ کر ایک ایسی کہانی مرتب کرتا ہے، جس میں ہر کردار لکھنے والے تجزیہ نگار کی خواہش کے عین مطابق ہیرو اور ولن بنا دیا جاتا ہے۔
پاکستانی تاریخ کے دو کردار ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاالحق ایسے ہیں، جن سے محبت اور نفرت نے اس ملک کو آج تک عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ تاریخ کے تعصبات میں سے سچ کی تلاش ایسے ہی ہے جیسے اندھیرے کمرے میں سیاہ پتھر پر چلتی ہوئی سیاہ چیونٹی کو تلاش کرنا۔ یہی حال آج کے تبصروں، تجزیوں اور جائزوں کا ہے۔ ایسا ہی ایک نعرہ مستانہ "بزرجمہر"، "نابغہ روزگار" اور "عبقری تجزیہ نگاروں " نے لگایا ہے
کہ 2018ء کے انتخابات میں جس طرح سب کیلئے یکساں مواقع ختم کئے جا رہے ہیں، ایسا کچھ الیکشن کے بعد ایک ایسی صورتحال کو جنم دے گا جس کی کوکھ سے تمام سیاسی پارٹیاں مل کر ایک بار پھر 1977ء جیسی ایک تحریک پیدا کر سکیں گی، ملک بحران کا شکار ہوگا اور نتیجے میں کوئی طالع آزما بساط الٹ دے گا۔ میں صرف 1977ء کے زبانی واقعات کی ترتیب بیان کر دیتا اور آپ اس سے جنم لینے والی تحریک کا موازنہ آج کے حالات سے خود کرسکیں گے۔
1977ء کے الیکشن ایسے الیکشن تھے، جن کی آمد سے تقریبا ایک سال پہلے ہی ذوالفقار علی بھٹو کی مخالف اپوزیشن پارٹیاں، رنگ، نسل، عقیدہ، مسلک اور نظریہ بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو چکی تھیں۔ یہ اتحاد بنیادی طور پر الیکشن کیلئے نہیں بنا تھا، بلکہ دسمبر 1971 میں بھٹو کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے سے لے کر گذشتہ پانچ سالہ دور کے آمرانہ رویے کے خلاف جمہوری جدوجہد کے لیے بنا تھا۔ اس اتحاد میں ہر پارٹی زخم خوردہ تھی اور ہر سیاستدان ہراساں۔
جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر شہید کیے جاچکے تھے اور میاں طفیل محمد کے ساتھ جیل میں بہیمانہ تشدد کی دردناک کہانی موجود تھی۔ جاوید ہاشمی جو اس وقت جمعیت میں تھا، اس پر شاہی قلعے میں وحشیانہ سلوک کیا گیا تھا، خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ محمد رفیق اور احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کو سرکاری اہلکار کے ذریعے قتل کروایا گیا تھا۔ پہلی دفعہ لاپتہ افراد کا فیشن شروع ہوا تھا اور غلام مصطفٰی کھر کے ساتھی، میاں افتخار تاری اور دوسروں کو دلائی کیمپ میں رکھ کر لاپتہ کردیا گیا تھا۔
نیشنل عوامی پارٹی کو غدار اور کالعدم قرار دیا جاچکا تھا، جس کے نتیجے میں بلوچستان اور سرحد کی حکومتوں کو برطرف کرکے بلوچستان میں فوجی ایکشن کا آغاز ہوا تھا۔ حیدرآباد بغاوت کیس کے تحت ولی خان، غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل، گل خان نصیر اور حبیب جالب جیسے اہم رہنما غداری کا مقدمہ بھگت رہے تھے۔ جمعیت العلمائے اسلام کے مولوی شمس الدین اور محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی دھماکوں میں شہید کردیے گئے تھے۔
خود بھٹو کے کئی پرانے وفادار جن میں حنیف رامے اور دوسرے شامل تھے، جیل کی اذیتیں برداشت کررہے تھے۔ اس سیاسی انتقامی منظر نامے کے علاوہ الیکشن اور الیکشن کمیشن بھٹو کی جیب کی گھڑی تھا۔ بھٹو کو اپنے دور اقتدار میں مقابلہ کرنے والوں سے سخت نفرت تھی۔ اسی لیے اس نے بلا مقابلہ جیتنے کا راستہ اختیار کیا۔ اعتزاز احسن کو ضمنی الیکشن میں گجرات سے ٹکٹ ملا، تو ڈپٹی کمشنر ذوالقرنین کی ذمہ داری تھی کہ تمام مخالف امیدوار دھونس، دھاندلی اور ڈراوے سے بٹھا دیے جائیں اور ایسا ہی ہوا اور پاکستان کے اس عظیم انقلابی کے سیاسی کیریئر کا آغاز "بلا مقابلہ" سے ہوا۔
اس کے بعد پاکستان میں جہاں کہیں انتخابات ہوئے، انتظامیہ کا امتحان پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو بلامقابلہ جتوانا تھا۔ اس پانچ سالہ دور میں ایک مسلسل تحریک کی فضا قائم رہی۔ اخبارات بند ہوتے رہے اور صحافی جیل میں جاتے رہے۔ بھٹو کے نزدیک اظہار رائے کا گلا گھونٹنے کے لیے دائیں اور بائیں بازو کے صحافیوں میں کوئی تمیز نہ تھی۔ دائیں بازو کے الطاف حسن قریشی، صلاح الدین یا مجیب الرحمٰن شامی ہوں یا بائیں بازو کے مظفر قادر، سب کے اخبار بند اور سب کی جیل یاترا۔
پاکستان کی تاریخ میں جیتنے اخبار و رسائل پر پابندی بھٹو دور میں لگی، کسی اور دور میں نہیں لگی۔ جلسے، جلوس، ریلیاں سب پولیس تشدد کی نذر ہوجاتیں۔ جس دن ڈیوس روڈ لاہور کے دفتر میں انتخابی اتحاد بنا جس کا نام "پاکستان قومی اتحاد" رکھا گیا، تو جلوس مال روڈ پر جا کر رک گیا۔ خوف زدہ لوگ آگے نہیں بڑھ رہے تھے کہ کہیں بدترین تشدد سے ہی آغاز نہ ہو، اچانک ایک نعرہ مستانہ بلند ہوا، اور جلوس مال روڈ پر تھا۔ یہ پاکستان قومی اتحاد کا آغاز تھا، جس میں کٹر کیمونسٹ بھی موجود تھے اور اسلامی انقلاب والے بھی، قوم پرست بھی تھے اور دیوبندی، بریلوی اور شیعہ بھی۔
بھٹو سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے والا جنرل نیازی جلسوں میں بھٹو کے خلاف تقریر کرتا تھا تو لوگ تالیاں بجاتے تھے۔ حبیب جالب اور استاد دامن کی بھٹو مخالف شاعری زبان زد عام تھی۔ ایسے ماحول میں الیکشن کا آغاز ہوا، جس میں بھٹو کی "خواہشِ بلامقابلگی" کے شوق میں خود بھٹو اور اسکے چاروں چیف منسٹر بلامقابلہ جتوا دیے گئے۔ ان حالات میں 7 مارچ 1977ء کو قومی اسمبلی کے الیکشن ہوئے، بھٹو کی پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کی۔ دس مارچ کو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن تھے۔ قومی اتحاد نے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔
پورے ملک میں پولنگ سٹیشنوں پر ہو کا عالم تھا۔ تین فیصد کے قریب لوگ ووٹ ڈالنے گئے۔ یہ تھے وہ حالات جن میں تحریک کا آغاز ہوا جو چار ماہ چلی۔ روزانہ ہر قصبے، محلے، گلی اور کوچے میں جلوس نکلتے۔ پورے پاکستان میں موجود پولیس کی نفری اتنی ناکافی ہو گئی کہ اکثر جلوسوں کے ساتھ کوئی پولیس والا نہ ہوتا۔ نو اپریل 1977ء کا پنجاب اسمبلی کے سامنے میدان کا معرکہ ایک ایسا آغاز تھا، جس نے حکومت کی بساط الٹ دی۔ پہلے بھٹو نے خود تین شہروں میں مارشل لاء لگایا اور آخر کار وہ خود آ گئے۔ یہ ہے 1977ء کی مختصر کہانی۔
کیا گذشتہ پانچ سالوں بلکہ دس سالوں میں کبھی ایسے حالات رہے ہیں کہ تمام پارٹیاں اپنے اختلافات بھلا کر حکومت کے خلاف متحد ہو جائیں۔ کیا ویسے سیاسی قتل ہورہے ہیں یا ویسے سیاسی مقدمے بن رہے ہیں۔ بھٹو نے جن لوگوں کو جیل میں ڈالا تھا یا جن پر مقدمہ بنائے تھے، ان کے دامن پر کرپشن، بدیانتی اور جرم کا کوئی داغ تک نہ تھا۔ تمام کے تمام مقدمے سیاسی تھے۔ لیکن آج تمام مقدمے کرپشن، بد دیانتی اور دیگر جرائم کے گرد گھومتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اور اس کی تمام اپوزیشن سب کے سب سیاسی لیڈروں کو عوام میں سے کوئی کرپٹ، بددیانت، ٹین پرسنٹ وغیرہ نہیں کہتا تھا۔
بھٹو کا کو ئی سرے محل تھا اور نہ قومی اتحاد کے لیڈروں والوں میں سے کسی کا لندن میں ایون فیلڈ۔ سب کے سب لوگوں کی نظروں میں محترم تھے۔ آج آپ کیمرہ لے کر بازار میں نکل جائیں، آپ کو گلیوں بازاروں میں سیاستدانوں کی رشوت خوری، اقربا پروری، کرپشن، بد دیانتی، بھتہ خوری، اسمگلنگ، رسہ گیری کی کہانیاں سنانے والے لوگ مل جائیں گے۔ 1977ء میں سیاستدان کے نام کے ساتھ سیاست وابستہ تھی جرم نہیں، آج سیاست دان کے نام کے ساتھ جرم وابستہ ہے سیاست نہیں۔ یہ اتنا بڑا فرق ہے جو 2018ء کو 1977ء نہیں بننے دے سکتا۔