آج سے تقریباً ایک سو سال قبل جب دنیا بھر کے ایوانوں میں روس کے کیمونسٹ انقلاب نے ایک ہیجان برپا کر رکھا تھا، تو ایسے لگنے لگا تھا کہ جیسے اب اس کرۂ ارض پر آباد مزدوروں، کسانوں اور مفلوک الحال انسانوں کی قسمت بدلنے والی ہے۔ کیمونزم کی اس انقلابی تبدیلی نے غلام برطانوی ہند میں لکھنے والوں کو بے حد متاثر کیا۔ اس دور کی سب سے توانا آواز اور مسلم اُمّہ کی نشاۃِ ثانیہ کے علمبردار علامہ اقبالؒ نے بھی اشتراکیت کے مثبت پہلوئوں پر شاعری کی۔
کیمونسٹ انقلاب کے بانی "لینن" کو وہ چشمِ تصور میں خدا کے سامنے لے گئے اور ایک بھر پور نظم "لینن، خدا کے حضور" تحریر کی۔ یہ نظم مکمل طور پر مغرب کے سرمایہ دارانہ سودی نظام کے خلاف لینن کی زبان میں ایک بھر پور احتجاج ہے۔ علامہ اقبالؒ کی اس نظم کے دو اشعار نے عالمی سودی نظام کے پورے ڈھانچے کو انتہائی آسانی سے بیان کر دیا ہے:
رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جُواء ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لئے مرگِ مفاجات
نظم کے آخر میں، دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کی برائیاں، ظلم اور جبر و استبداد گنواتے ہوئے لینن اللہ سے یوں شکوہ کناں ہوتا ہے۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات
اقبالؒ اس احتجاج میں تنہا نہیں تھے۔ ان کے ہم عصر اور بعد میں آنے والے شاعروں، ناول نگاروں اور افسانہ نویسوں کا ایک قافلہ تھا جو کبھی انجمنِ ترقی پسند مصنّفین کی صورت میں منظم ہوا اور کبھی مختلف ادیب انفرادی سطح پر حلقۂ اربابِ ذوق کی محفلوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سراپا احتجاج بنتے چلے گئے۔
اس دور میں جنم لینے والی ٹریڈ یونین سیاست کی گرم جوشی نے بھی بڑے بڑے سیاسی رہنمائوں کو اپنا اسیر کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی ہند کے اہم ترین سیاست دان خواہ وہ جواہر لال نہرو جیسا خاندانی رئیس ہو یا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسرت موہانی جیسے مذہبی خیالات والا لیڈر، ان میں بیشتر سرمایہ داری کے مقابلے میں مزدور کی بالادستی کی بات کرتے تھے۔
کیمونسٹ پارٹی تخلیقِ پاکستان کی بھی مخالف تھی۔ ان کے نزدیک تو برصغیر پاک و ہند کی تقسیم اور پاکستان کی تخلیق دراصل ایک سرمایہ دارانہ سازش کا نتیجہ تھی تاکہ مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کی مشترکہ قوت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور سرمایہ داروں کے خلاف ان کی توانائیوں کو اکٹھا نہ ہونے دیا جائے۔ قیامِ پاکستان کے آغاز میں ہی اقتدار کی طنابیں ایسے سیاست دانوں کے ہاتھ میں آ گئیں جو اپنے مخصوص حلقوں سے جیت کر آئے تھے۔ یہ بڑے بڑے زمیندار تھے، اس لئے انقلاب دشمن بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کیمونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنّفین دونوں پاکستان میں شروع دن سے زیرِ عتاب ہی رہیں۔
ایک زرعی معاشرہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں کھیتوں میں کام کرنے والا ہاری اور مزارع پورے ملک میں منتشر تھا۔ کسانوں کو کسی ایسے نعرے پر اکٹھا کرنا بہت مشکل تھا، کیونکہ وہ دیہی زندگی کے معمولات میں اُلجھے ہوئے ہوتے ہیں اور مطمئن بھی۔ لیکن جیسے ہی پہلے تیس سالوں میں پاکستان میں بیش بہا صنعتیں لگیں اور صنعتی ترقی نے اپنے پَر پھیلائے تو اس کے نتیجے میں مزدور دیہات سے شہروں میں آ کر ملوں کی چھتری تلے جمع ہونے لگے، جس سے ٹریڈ یونین سیاست نے ایک دَم عروج پکڑا۔
ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کا ایک اہم نعرہ یہ بھی تھا کہ "اس ملک پر بائیس خاندانوں کا قبضہ" ہے۔ یہ نعرہ اس قدر مقبول تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا بڑا زمیندار جس کی پارٹی میں مصطفی جتوئی، طالب المولیٰ اور مصطفی کھر جیسے لاتعداد بڑے بڑے زمیندار تھے، اس نے بھی ووٹ کی سیاست اور عوامی مقبولیت کے لئے سرمایہ داری کے خلاف پارٹی پوزیشن اس حد تک لی کہ پیپلز پارٹی کے منشور کے چار بنیادی نکات میں سے تیسرا نکتہ یہ تھا کہ "سوشلزم ہماری معیشت ہے"۔ ملک پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ہے، یہ فقرہ بھٹو کی تقریروں کا جزوِلاینفق تھا۔ اور اس نعرے سے وہ اپنے جلسوں میں عوام کا لہو گرماتا تھا۔
آج نصف صدی گزرنے کے بعد اب ان بائیس خاندانوں کا دائرۂ اثر بڑھ کر اس ملک کی ایک فیصد آبادی تک پھیل چکا ہے۔ یعنی بائیس کروڑ لوگوں کی آبادی میں سے بائیس لاکھ لوگ ایسے ہیں جو اس ملک کے نوے فیصد سے زیادہ سرمائے پر قابض ہیں۔ اس کیفیت کو دنیا بھر میں"Elite Capture" یعنی اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ کہتے ہیں۔
یہ اصطلاح گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں مسلسل استعمال کی جا رہی ہے، لیکن اس "اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ" پر ایک خالصتاً تحقیقاتی کام آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کے علم بشریات (Anthropology) ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر روزیٹا آرمیٹج (Rosita Armytage) نے کیا ہے۔ اس نے اپنی چودہ ماہ کی تحقیق کے بعد ایک کتاب تحریر کی جس کا نام ہے، "Big Capital in an Unequal Word" یعنی "غیر مساوی دنیا میں سرمایہ کی فراوانی"۔
کتاب کا ذیلی عنوان ہے "The Micropolitics of Welth in Pakistan" یعنی "دولت کی پاکستانی سیاست میں کارستانیاں" روزیٹا نے اپنی تحقیق کے لئے موضوع کا انتخاب کرتے وقت یہ ارادہ کیا کہ وہ پاکستان جیسے ملک کی مڈل کلاس کے بارے میں تحقیق کرے گی۔ اس کی وجہ اس کے آسٹریلیا میں موجود پاکستانی دوست اور ساتھ کام کرنے والے افراد تھے جو مڈل کلاس سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ ان کی وجہ سے ہی وہ پاکستان کی مڈل کلاس پر ہی تحقیق کرنے کے لئے پاکستان آ گئی، لیکن اس کے بقول، اسلام آباد سے لاہور تک کے ایک سفر نے اس کا ارادہ یکسر بدل دیا۔
اس نے بتایا کہ میں نے اپنی تحقیق کے دوران اسلام آباد سے لاہور کی ایک یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ سے ملنے جانا تھا اور اس کے لئے میں نے ایک آرام دہ بس کا ٹکٹ بھی لے لیا تھا، لیکن میری ایک دوست نے مجھے کہا کہ تم میرے فلاں دوست کی گاڑی میں سفر کرو۔ ایک آرام دہ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے، روزیٹا نے اس شخص سے اس کی زندگی، خاندان اور کاروبار کے سوالات پوچھنا شروع کر دیئے۔ جوابات سے ایک حیران کن کہانی سامنے آئی اور اسے پاکستان کی ایک "کلاس" کے نیٹ ورک کا اندازہ ہونے لگا۔
اس شخص کا خاندان سگریٹ بنانے کے کاروبار سے منسلک تھا اور اس کے خاندان کے افراد، "انکل"، کزن" اور دیگر افراد کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک تھا جو چین کے ساتھ بھی تجارت کرتے تھے اور اس دوران وہ مختلف مراحل سے گزرتے تھے، یہاں تک اس نے یہ بھی بتایا کہ ہم سے پہلے کچھ عرصہ پہلے کتنی بڑی رشوت مانگی گئی تھی۔
روزیٹا بتاتی ہے کہ اس گفتگو سے اسے اندازہ ہوا کہ پاکستان میں اشرافیہ اور سرمایہ داروں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے جو ملکی سیاست، کاروبار اور معیشت پر چھایا ہوا ہے اور اس طبقے پر اسے تحقیق کرنی چاہئے۔ اس کے چند دن بعد ہی وہ ایک بہت بڑے صنعتکار، اس کے بھائی، کزن، ان کے ایک ایسے خاندانی دوست کے ساتھ بیٹھی تھی جو لاہور کے بہت اہم سیاست دان کا بیٹا تھا۔ ان سب نے مل کر روزیٹا کے لئے تین صفحات پر مشتمل پاکستان کے امیر ترین صنعت کاروں، کاروباری حضرات اور طاقت ور سرمایہ داروں کی ایک فہرست مرتب کی جن سے اسے اپنی تحقیق کا آغاز کرنا تھا۔
یہ فہرست آہستہ آہستہ طویل ہوتی گئی اور چودہ ماہ کی تحقیق کے بعد وہ یہ کتاب لے کر سامنے آئی جس کے مطابق پاکستان کی ایک فیصد اشرافیہ اس ملک کی معیشت، حکومت اور سیاست پر قابض ہے۔ (جاری ہے)