پاکستان کی ایک فیصد اشرافیہ گذشتہ چالیس سال کے عرصہ میں صرف بائیس خاندانوں سے بائیس لاکھ تک کیسے پہنچی؟ دولت کی یہ پیوند کاری کیسے ہوئی؟ اور یہ فصل اتنی ثمربار کس طرح ہوگئی۔ روزیٹا آرمٹیج (Rosita Armytage) کا تحقیقی مطالعہ پاکستان میں ارتکازِ دولت اور استحصالی طبقات کے مختلف طریقِ ہائے کار سے پردہ اُٹھاتا ہے۔
اس کے مطابق یہ ایک خوفناک گٹھ جوڑ ہے جو اعلیٰ سطح کے بیوروکریٹس، فوجی جرنیلوں، سیاسی رہنمائوں اور کاروباری اشرافیہ کے درمیان وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یوں تو ہر گروہ کے اپنے اپنے طاقت کے مراکز (Power Blocks) ہیں، لیکن مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لئے یہ تمام گروہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہ طاقت کے مراکز فوج، سول بیوروکریسی، بزنس اور سیاست میں پائے جاتے ہیں۔
یہ تمام لوگ اپنے اپنے گروہوں میں انفرادی طور ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے معاملات میں اکثر اوقات کبھی مداخلت نہیں کرتے۔ انفرادی سطح پر یہ اپنے تعلقات کے حوالے سے کسی جاننے والے، یا رشتے دار کی مدد ضرور کرتے ہیں لیکن دوسرے گروہ کی حدود کا احترام کرتے ہیں۔ یہ دوسرے کے مضبوط "قلعے" میں کبھی نقب زنی نہیں کرتے۔ ان کا آپس کا گٹھ جوڑ ایسا ہے کہ ایک گروہ کو باقی تمام گروہ مل کر تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
یہ سب مل کر اشرافیہ بنتی ہے جو پاکستان کی سمت کا تعین کرتی ہے، ایسے قوانین بناتی ہے جن سے اس کے ممبران خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں اور اپنے آپ کو مزید مستحکم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چاروں گروہ اس قدر "خوش بخت" ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی قسم کی آفت، مصیبت، جنگ یا بیماری آ جائے، ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔
یہ 1971ء کے بہت بڑے سانحے سے بھی صاف بچ نکلے۔ سرمایہ کاروں کا سرمایہ محفوظ رہا، بیوروکریٹس کی نوکریاں چلتی رہیں، فوجیوں کی پرومشنیں ہوتی رہیں اور سیاست دان بھی ویسے کے ویسے دودھ کے دُھلے نظر آتے رہے۔ گھر، کاروبار تو غریب بنگالیوں اور بہاریوں کے اُجڑے۔ جان سے عام لوگ گئے، نسلیں ان کی برباد ہوئیں۔ اس سانحے میں اشرافیہ کے تحفظ کی مثال صرف ایک اصفہانی خاندان سے واضح کی جا سکتی ہے۔
مرزا ابو طالب اصفہانی کو 1799ء میں انگریز نے لندن بلا کر رچمنڈ کے علاقے میں جائیداد "عطا" فرمائی اور پھر جب "ایسٹ انڈیا کمپنی"نے سراج الدولہ کے جرنیل میر جعفر کی غدّاری سے بنگال فتح کیا تو پھر اپنے "لاڈلوں" کو یہاں لا کر آباد کیا جانے لگا۔ یوں اصفہانی خاندان لندن سے آ کر یہاں آباد ہوگیا اور چائے کا کاروبار کرنے لگا جس کی وسعت پورے برصغیر اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئی۔ متحدہ پاکستان تک اصفہانی چائے مغربی پاکستان میں بھی مقبولِ عام برانڈ تھا۔
پاکستان بننے کے بعد یہ خاندان کلکتہ سے چٹاگانگ منتقل ہوگیا، جس کی پہاڑیوں پر چائے کے وسیع باغات تھے۔ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں، بہاریوں اور دیگر قومیتوں پر 1971ء میں کیا کیا مظالم نہیں ٹوٹے، لیکن اصفہانی خاندان کی کاروباری سلطنت کو اس سانحے کے دوران بھی تحفظ فراہم کیا گیا۔ روزیٹا کے مطابق یہ تمام طبقات قوانین تو بناتے ہیں، مگر ان میں سے ایسے راستے نکالتے ہیں تاکہ انہیں اپنے ہی بنائے ہوئے ان قوانین پر عمل نہ کرنا پڑے۔
قوانین سے بالاتر ہونے کی یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ دن بدن امیر سے امیر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور خوفناک حد تک طاقت ور بھی۔ بائیس خاندانوں کے گروہ کا بائیس لاکھ افراد کے جمِ غفیر میں ڈھلنے کے عمل کے اہم ترین راستے، طریقِ کار یا گٹھ جوڑ کا تذکرہ اس کتاب میں دو اہم اصطلاحات سے کیا گیا ہے۔ پہلا، "Socialising and Marriages" معاشرتی میل جول اور شادیاں، دوسرا "Culture of Exemption" استثناء کا کلچر۔
شادیاں اور معاشرتی میل جول وہ زینہ ہے جس کے ذریعے یہ تمام گروہ بلندی کی منازل طے کرتے ہیں۔ روزیٹا لکھتی ہے کہ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نوجوان فوجی افسران، صنعت کاروں کی بیٹیوں سے شادی کرنا پسند کرتے ہیں اور اعلیٰ بیوروکریٹس کی بیٹیاں بھی ایسے ہی سرمایہ دار اور صنعت کار افراد کو پسند کرتی ہیں اور سیاست دانوں سے کنارہ کشی (Shyaway) اختیار کرتی ہیں۔ اس کتاب کا ایک فقرہ غضب کا ہے، جسے ہوبہو انگریزی میں تحریر کر رہا ہوں تاکہ اس کا اصل لطف قائم رہے اور ترجمہ کرنے کے بعد اُردو قارئین بھی آگاہ ہو سکیں۔
"Marital strategies continue to be one of the most powerful mechanisms employed by the Pakistani elite to protect their economic assets and their social status، to foster inter-elite networks and to gather information on other elite families۔ "
"شادیوں کی حکمتِ عملی ایک ایسا طاقتور طریقِ کار ہے جسے پاکستان کی اشرافیہ مسلسل استعمال کرتی ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنے مالی اثاثوں اور معاشرتی رُتبے کا تحفظ کر سکے اور اس کے ذریعے اپنے اشرافیہ کے نیٹ ورک کی شاندار نشوونما کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے صاحبِ حیثیت خاندانوں کے بارے میں بھی اپنی معلومات میں اضافہ کرتی رہے"۔
اس سارے کھیل میں پاکستان میں دو مختلف اقسام کی اشرافیہ پائی جاتی ہیں، جن کا آپس میں میل کچھ عرصہ پہلے تک مشکل سے ہوا کرتا تھا، لیکن اب یہ فرق تقریباً مٹ چکا ہے۔ پہلی قسم، قیامِ پاکستان سے قبل کی اشرافیہ کی ہے جو مغلوں اور پھر انگریزوں کی وفاداریوں کے عوض مراعات حاصل کر کے مقام و مرتبہ پر صدیوں پہلے ہی فائز ہو چکی تھی۔ اس اشرافیہ کے لئے یہ کڑوی گولی نگلنا مشکل تھی کہ وہ بعد میں امیر بننے والوں کو اپنے برابر سمجھیں۔
روزیٹا نے اپنی کتاب میں ہمارے ملک میں زبان زدِ عام اصطلاح "نودولتئے" کا استعمال اس فرانسیسی نعم البدل "Nouveau Riche" کی اصطلاح سے کیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ 1970ء کے بعد امارت کی بلندیوں کو اچانک چھونے والے خاندان اس قدیم اشرافیہ کی نظروں میں شروع شروع میں گھٹیا تصور ہوتے تھے۔ قدیم اشرافیہ اپنے لئے مخصوص "ٹھکانوں" کے دروازے ان کے لئے بند رکھتی تھی، جیسے یہ لوگ جم خانہ جیسے بڑے کلبوں کی ممبر شپ نہیں لے سکتے تھے اور ان کی اولادوں کے لئے ایچی سن جیسے سکولوں میں داخلہ مشکل سے ہوتا تھا۔
قدیم اشرافیہ، یہ روّیہ اس لئے اختیار کرتی تھی، کیونکہ ان پرانے "خاندانی رئیس" لوگوں کی آمدن وقت کے ساتھ کم ہو رہی تھی اور وہ ان نودولتیوں کا کسی صورت مقابلہ نہیں کر پاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی معاشرتی میل جول کی جگہوں سے انہیں دُور رکھتے تھے اور وہ آج بھی عموماً ایسا ہی کرتے ہیں۔ لیکن اب کسی ایک خاندان کی دولت اور دوسرے خاندان کے مرتبے کو شادی کے "اعلیٰ پیڈسٹل" یا "منچ" پر یوں اکٹھا کر دیا جاتا ہے کہ ایک جرنیل کی طاقت و قوت، ایک بیوروکریٹ کی حیثیت و مرتبہ اور ایک عام سے خاندان سے تعلق رکھنے والے کسی نودولتئے پراپرٹی ٹائیکون، صنعت کار یا بزنس مین کی دولت کا یہ ایک حسین ملاپ بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی ایک فیڈرل سیکرٹری یا ایک جرنیل کا بیٹا یا بیٹی کسی ایسے ہی نودولتئے کے ہاں بیاہا جاتا ہے تو پھر وہ ایک ہی زقند میں دولت میں نہانے لگتا ہے اور نودولتیا خاندان اس مرتبے، مقام اور سماجی حیثیت کا لطف اُٹھانے لگتا ہے جس کے بارے میں اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس غیر مقدس (Unholy) ملاپ کے نتیجے میں پاکستان کے معاشرے میں ایک "معاشرتی استثنائ" پیدا ہو چکا ہے، جو اس اشرافیہ کو ہر جرم کی سزا سے مبّرا کر دیتا ہے۔ اس ملک کے یہ بائیس لاکھ لوگ ہی تو ہیں جو اب ایک خاندان بن چکے ہیں اور جن کا شجرہ نسب بھی ایک ہے۔
یہ آپس میں لڑتے ضرور ہیں مگر عوام کے مقابل یہ سب کے سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے وہ سانپ ہیں جن کے ہاتھوں میں لوٹی ہوئی دولت کے خزانوں کی چابیاں ہیں اور ان کے نتھنوں سے قوت و غلبے کی پھنکاریں نکل رہی ہیں۔ (ختم شد)