انسان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں چند افراد کے وسائل پر قبضہ کرنے کی ایک داستان ہے جس میں اشرافیہ کے اختیار میں وقت کے ساتھ ساتھ وسعت آتی چلی گئی ہے۔ آج سے اندازاً بارہ ہزار سال قبل انسان نے شکار پر اپنا دارومدار ختم کرکے کھیتی باڑی کا آغاز کیا تو وہ مستقل ٹھکانوں پر رہنے لگا اور یوں چھوٹی چھوٹی بستیاں اور شہر آباد ہونا شروع ہو گئے۔
آثارِ قدیمہ کی کھدائیوں سے دنیا کے ہر براعظم میں ایسی بستیوں بلکہ موہنجو داڑو جیسے بڑے بڑے شہروں کا بھی سُراغ ملتا ہے۔ اس دَور کے گائوں یا چھوٹے شہروں میں چند متمول یا طاقتور لوگ ایسے ہوتے تھے جن کا وسائل پر قبضہ ہوتا تھا۔ انہیں عرفِ عام میں مقامی اشرافیہ (Local Elite) کہا جا سکتا ہے۔
یہ اشرافیہ بھی قوت یا قبیلے کی افرادی طاقت سے قابض ہوتی تھی۔ بڑی سطح کی تہذیبی زندگی آج سے پانچ ہزار سال قبل وجود میں آئی جس میں دنیا بھر میں قوت و طاقت کے بڑے بڑے مراکز بن گئے، جیسے دجلہ و فرات یعنی بابل کی سلطنت کے نمرود، مصر کی بادشاہی کے فرعون اور روم کے سیزر وغیرہ۔ انہوں نے اپنے قبضے کے لئے ایک وسیع فوج، بیوروکریسی کا نظام اور دیگر شعبہ ہائے زندگی تخلیق کئے۔ یوں اب مقامی اشرافیہ کی جگہ قومی اشرافیہ (National Elite) کے گروہ وجود میں آ گئے۔
کئی صدیوں تک یہ بڑی بڑی سلطنتیں قائم رہیں اور ان پر قابض یہ طاقتور افراد اپنی مضبوطی، قوت اور اختیار کے لئے زیرسایہ علاقوں کے لئے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور قانونی نظام تخلیق کرتے رہے۔ ٹیکس، لگان، خراج، تاوانِ جنگ کی صورت عام آدمی کی جیب سے سرمایہ نکال کر اشرافیہ کی پُرتعیش زندگیوں کے لئے وقف کرتے رہے۔ گلوبل ریسرچ سنٹر کی 21 جنوری 2013ء کو چھپنے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں مصنّف رابرٹ بروز (Robert Burrows) نے اس تاریخی سفر کو ایک لائن میں یوں سمیٹا ہے۔
"Elite control ensured that the Economy perpetually redistributed wealth from those who have less than those who have more."
"اشرافیہ کا قبضہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ معیشت مسلسل دولت کو ایسے ازسرنو تقسیم کرے کہ جس سے غریب آدمی کے پاس موجود دولت کو چھین کر امیر آدمی کو دے دی جائے"۔
اپنے اس تاریخی تجزیے کی بنیاد اس نے آدم سمتھ (Adam Smith) کی مشہور کتاب "قوموں کا سرمایہ" (Wealth of Nations) بتائی ہے جو 1775 میں چھپی تھی جس میں اس نے اشرافیہ کا مقصود یہ بتایا تھا، "سب کچھ ہمارا ہے اور دوسری اقوام کے لئے کچھ نہیں" (All for ourselves and nothing for other people)۔
جس دَور میں یہ کتاب لکھی گئی اس دَور میں دولت کا ارتکاز اور اشرافیہ کی بادشاہی صرف ایک صورت ہی ممکن تھی کہ آپ کے پاس ایک طاقتور فوج ہو اور آپ علاقوں پر علاقے فتح کرتے ہوئے، وہاں کے وسائل پر بزورِ طاقت قبضہ کر لیں۔ ایک سلطنت کی حدود بڑھتی جاتیں اور نئے شامل ہونے والے علاقوں کے محکوم زمیندار ان قابض حکمرانوں کے لئے غلہ اُگاتے، ہنرمند مصنوعات تخلیق کرتے اور پھر اپنی محنت سے ایک خطیر رقم اس قابض اشرافیہ کی نذر کر دیتے جس کے پاس اس دولت کو ہتھیانے کے لئے صرف ایک ہی قوت یعنی طاقت ور فوج کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ انسان بیدار اور ہوشیار ہوتا گیا اور ان تمام طاقتوں یعنی سلطنتوں (Empires) کے خلاف محکوم علاقوں میں آزادی کی تحریکوں کا آغاز ہوگیا۔ استعماری قوتوں سے آزادی کی پہلی جاندار تحریک ڈھائی سو سال پہلے امریکہ میں شروع ہوئی اور 1777ء میں اس نے برطانوی استعمار کا یونین جیک اُتار کر پھینک دیا۔ لیکن اس بیداری سے بہت پہلے ہی اشرافیہ نے بھانپ لیا تھا اور اس نے دولت کو ہتھیانے اور وسائل پر قبضہ کرنے کا ایک محفوظ اور خفیہ راستہ اختیار کر لیا تھا۔
یہ ہے وہ عالمی سودی نظام جس کی بنیاد 1694ء میں بینک آف انگلینڈ کے سرکاری چارٹر سے ہوئی تھی۔ امریکہ کی آزادی سے پہلے ہی اس بینک نے حکومتِ برطانیہ کو اس قدر مقروض کر دیا تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ نے قرض اُتارنے کے لئے اپنے زیرِ قبضہ علاقوں خصوصاً امریکہ کے عوام پر بے شمار ناجائز ٹیکس عائد کر دیئے تھے۔
امریکی آزادی کے سات بانیان (Fathers) میں سے بنجمن فرینکلن (Benjamin Franklin) جو ایک مؤرخ اور فلاسفر تھا، اس نے انقلاب کی وجوہات میں لکھا ہے کہ امریکہ میں آزادی کی تحریک کی بنیادی وجہ یہی ناجائز ٹیکس تھے، جو برطانوی حکومت نے نجی بینکوں کے مطالبات پورا کرنے کے لئے امریکی عوام پر لگائے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اپنے آغاز میں ہی اس نجی بینکاری کے سسٹم کی بھر پور مخالفت کی۔
بینکاری کے خلاف یہ جنگ امریکہ کی آزادی سے لے کر ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ تک چلتی رہی اور اس کے خلاف امریکی صدور، اینڈریو جیکسن اور ابراہم لنکن نے بہت کردار ادا کیا۔ آخرِکار 1913ء میں ان سودی بینکاروں نے فتح حاصل کر لی اور ان کے مجموعے سے ایک "فیڈرل ریزرو سسٹم" قائم کر دیا گیا۔ جنگِ عظیم اوّل کے ہنگاموں میں یہ سب زیرِ بحث ہی نہ آ سکا اور امریکہ پر بینکاروں کا خاموش اور پسِ پردہ قبضہ مسلّط ہوگیا۔
اب دنیا قومی اشرافیہ سے بین الاقوامی اشرافیہ (International Elite) اور پھر عالمی اشرافیہ (Global Elite) کے قبضے میں چلی گئی۔ دنیا بھر کے وسائل ان بینکاروں کے قبضے میں آ گئے اور اس کے لئے انہیں کوئی اسلحہ استعمال کرنا پڑا اور نہ ہی مسلح افواج کا سہارا لینا پڑا۔ بینکوں نے دنیا کے تمام وسائل صرف اور صرف کاغذی کرنسی کی صورت جعلی اور فراڈ سرمایہ (Money) تخلیق کرکے اپنے قبضے میں لے لئے۔
یہ تمام نجی بینک کرتے کیا ہیں؟ یہ کاغذ کے کرنسی نوٹوں کے ذریعے سرمایہ تخلیق کرتے ہیں جس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی (Out of Nothing) پھر اس کے بعد یہ سرمایہ حکومتوں اور عام آدمی کو قرض کے طور پر دیا جاتا ہے۔ یوں ایک عام آدمی ہو یا حکومت، وہ پوری زندگی محنت مشقت کرکے اس قرض کو اُتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے قرض کی غلامی (Debt slavery) کہتے ہیں۔ یہ قرض اسی سرمائے سے دیا جاتا ہے، جو اسی عوام نے بینکوں میں جمع کروایا ہوتا ہے۔
عوام کا یہی سرمایہ حکومت کو قرض کی صورت دیا جاتا ہے۔ پھر یہ حکومت انہی عوام پر ٹیکس لگا کر سود سمیت انہی سے وصول کرتی ہے جن کا یہ اپنا سرمایہ ہوتا ہے۔ یعنی بینکوں کا تخلیق کردہ سرمایہ (Money) برابر ہے قرض (Debt) اور قرض کا مطلب ہے غلامی (slavery) یعنی دراصل یہ براہِ راست بینکاری سرمائے کی غلامی ہے۔
یہی سرمایہ جب حکومتیں تخلیق کیا کرتی تھیں تو وہ بغیر سود ہوتا اور ایسے سونے اور چاندی کے سکوں کی صورت میں ہوتا جنہیں اگر توڑ کر بھی بیچا جائے تو وہ مارکیٹ میں اپنی قیمت وصول کر لیں گے۔ لیکن بینکوں کے کاغذی نوٹ ایک ایسی دستاویز ہے جو خلاء میں تخلیق کی جاتی ہے اور اگر بینک ڈوب جائے یا حکومت اس کی قیمت اجناس کی صورت دینے سے انکار کر دے تو یہ ردّی کے ٹکڑے سے بھی کم حیثیت اختیار کر جائیں گے۔
اس کا ایک اور خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ بینک جتنا سرمایہ تخلیق کرتے ہیں وہ اصل زر کے مطابق ہوتا ہے، لیکن مطالبہ وہ سود کے ساتھ کرتے ہیں۔ یعنی ادائیگی کے لئے اتنے نوٹ ہی موجود نہیں ہوتے۔ جب مارکیٹ میں نوٹ کم ہوں اور ادائیگی کے لئے زیادہ چاہئیں تو آدمی ایک گھن چکر میں پھنس جاتا ہے۔ ایسے میں انسان محنت زیادہ کرتا ہے اور کماتا کم ہے کیونکہ مارکیٹ میں سرمایہ کم ہوتا ہے اور اشیاء زیادہ۔
یعنی اس کو قرض اُتارنے کے لئے کئی گنا زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اور سود بھی دن بدن بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہ کسی صورت بھی اسے ادا نہیں کر پاتا اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ اس کی جائیداد کی قرقی کا حکم نامہ آ جاتا ہے۔ یہی صورتِ حال ملکوں کے ساتھ پیش آتی ہے کہ وہ دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ غلامی جس میں اس وقت پوری دنیا جکڑی ہوئی ہے۔ (ختم شد)