سولہ دسمبر 2020ء کو رات آٹھ بجے وہ میرے پروگرام "حرفِ راز" میں ان نوجوانوں کی ایمان افروز داستان بیان کر رہے تھے، جو مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج اور اس کی تیار کردہ "مکتی باہنی" کے مظالم کے سامنے سینہ سپر ہوئے تھے، تو میں باوجود ضبط و احتیاط اپنی آنکھ کے کونوں پر آئے ہوئے آنسوؤں کو نہ روک سکا تھا۔ قصہ طویل بھی ہے اور دلگداز بھی۔ مکتی باہنی کے انہی مظالم کی داستان وارث میر صاحب نے اپنے ان کالموں میں بھی بیان کی ہے، جو انہوں نے 1971ء میں مشرقی پاکستان کے اپنے دورے کے بعد تحریر کئے تھے۔ یہ دراصل پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کا ایک وفد تھا، جو اس وقت سٹوڈنٹس یونین کے صدر جاوید ہاشمی کے ساتھیوں پر مشتمل تھا، جس کی قیادت بحیثیت سٹوڈنٹس ایڈوائزر وارث میر کر ہے تھے۔ انہوں نے "مکتی باہنی" کے قائم کردہ ان "مذبحہ خانوں " کا ذکر کیا ہے، جہاں پاکستان کے حامیوں، غیر بنگالیوں، بِہاریوں اور مغربی پاکستان سے آئے ہوئے دیگر زبانیں بولنے والے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جاتاتھا۔
بقول وارث میر، انہوں نے وہاں ایک ٹَب دیکھا تھا جس کے اوپر بینچ پر بِہاریوں یا غیر بنگالی مسلمانوں کو لٹا کر ان کی رگیں کاٹ دی جاتی تھیں، خون ایک ٹَب میں جمع ہوتا رہتا تھا اور آخر کار وہ شخص اذیت ناک موت مر جاتا تھا۔ ایسا کچھ ہی وہ میرے پروگرام میں بھی بتا رہے تھے کہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے پورا ماحول افسردہ ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان دنوں میرے آرمی یونٹ کا دفتر، جو "جمال پور" ضلع کے ایک قصبے شیر پور میں واقع تھا، وہاں ایک لڑکا آیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، "میرے بڑے بھائی کو گرفتار کر لو، وہ مکتی باہنی میں شامل ہو کر بھارت سے ٹریننگ لے کر آیا ہے اور وہاں جاتا آتا رہتا ہے، وہ پاکستان کے حامی لوگوں کو قتل کرتا پھر رہا ہے"۔ انہوں نے لڑکے سے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس جرم کی آخر کار سزا موت بھی ہو سکتی ہے اور کیا تمہیں یا تمہارے ماں باپ کو اس بات کا اندازہ ہے۔ اس نے کہا کہ میرے والد فوت ہو چکے ہیں، لیکن میری ماں اور مجھے دکھ تو یقینا ہوگا لیکن ایسے بھائی کا مر جانا ہی اچھا ہے جو میرے کروڑوں بھائیوں کے ساتھ غداری کررہا ہو۔ پھر کہنے لگا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کر کے لے آؤں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے ساتھی کون ہیں۔
اس نے جواب دیا کہ میرے ساتھی "اسلامی چھاترو شنگھو"(اسلامی جمعیتِ طلبہ)کے لڑکے ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ تم ایسا مت کرو، میں خود اسے بلوالوں گا اور دو دن کے اندر ہی ہم نے اس کے بھائی کو اسوقت گرفتار کروالیا، جب وہ بھارت کے بارڈر سے مشرقی پاکستان میں داخل ہو رہا تھا۔ تین دن تک اسے کیمپ میں رکھا اور سمجھایا، تو بات اس کی بھی سمجھ میں آ گئی۔ لیکن میرے ذہن میں ایک بات اٹک کر رہ گئی کہ اس لڑکے کے ساتھی کس بلا کے ہوں گے کہ جو اپنے سگے بھائی کو بھی گرفتار کروانے اور کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ریٹائرڈ میجر ریاض حسین ملک اس کے بعد بیان کرنے لگے کہ میں ان لڑکوں سے جا کر ملا تو مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان میں سے ہر نوجوان، ایمان کی حلاوت اور جذبے سے اس قدر مالامال ہے کہ وہ اس دور کے لوگ ہی معلوم نہیں ہوتے۔ اسی دوران میجر صاحب کو خیال آیا کہ کیوں نہ ان نوجوانوں کی ایک فورس تخلیق کی جائے جو بھارت کی تیارکردہ "مکتی باہنی" کا مقابلہ کر سکے۔ میجر صاحب نے اس سے کہا کہ وہ اپنے تمام ساتھیوں کو لے کر سکول کے احاطے میں آجائے۔ وہ لڑکا شام کو اسلامی چھاترو شنگھو کے بے شمار نوجوانوں کو لے کر وہاں آگیا۔ یہ لڑکے کافی زیادہ تھے اور اس قصبے کے لیے ہمیں کم لڑکوں کی ضرورت تھی۔ اس لیے میجر صاحب نے مضبوط جسم اور قد کاٹھ کے لڑکوں کو ایک طرف کرنا شروع کیا اور کمزور جسامت اور چھوٹے قد کے لڑکوں کو اس فورس سے علیحدہ کر دیا۔ اس دوران وہ جب ایک چھوٹے سے قد کے لڑکے کے پاس گئے اور اسے علیحدہ ہونے کو کہا تو اس نے انکار کر دیا۔ میجر صاحب نے کہا کہ تمہارا قد بہت چھوٹا ہے، اس لیے تم فورس میں شامل نہیں ہو سکتے۔ یہ سنتے ہی وہ اپنی ایڑیاں اٹھا کر پنجوں پر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ" اب تو قد پورا ہو گیا"۔
واقعہ کے بیان کے وقت کایہ وہ لمحہ تھا جب پروگرام میں موجود ہر شخص کی آنکھ نم تھی اور یہ آنسو غم کے نہیں تھے بلکہ اُمتِ مسلمہ کی اس روایت کے تسلسل میں تشکرکے آنسو تھے، جس کی بنیاد میدانِ بدر میں دو چھوٹے بچوں "معاذ" اور "معوذ" نے رکھی تھی۔ بدر کے معرکے کی کسمپرسی کا بھی کیا عالم ہوگا۔ سید الانبیاء ﷺ کی چودہ سالوں کی محنتوں کا ثمر، کُل تین سو تیرہ "نفوسِ قدسیہ" صحابہ کرامؓ جب اس ریتلے ٹیلوں والے میدان میں جمع ہوئے تھے۔ ان تین سو تیرہ کا کُل سامانِ حرب، دو گھوڑے، چھ زرہیں اور آٹھ تلواریں تھیں۔ یعنی صرف آٹھ صحابہ کرامؓ ایسے تھے جن کو لڑائی کے لیئے ہتھیار میسر تھے، جبکہ باقی 295میں کوئی پتھر تیز کرکے لایا تھا اور کسی کے ہاتھ میں کجھور یاکسی اور درخت کی لکڑی سے بنایا گیا ڈنڈا تھا۔ یہ تین سو تیرہ وہ تھے جو اس دن کائنات کی تاریخ بدلنے والے تھے۔ ایمان کا عالم یہ تھا کہ مسجد نبوی ؐ سے میدانِ بدر کی جانب روانگی سے قبل ہر کسی کو معلوم تھا کہ کفار کا لشکر ایک ہزار لوگوں پر مشتمل ہے اور ہر کسی کے پاس اسلحہ موجود ہے، لیکن کسی ایک نے بھی سید الانبیاء ﷺ کے سامنے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ہم ایک ایسی جنگ کی طرف کیوں بڑھ رہے ہیں جس میں دنیاوی اسباب کے اعتبار سے صرف شکست ہی شکست نظر آتی۔ حفیظ جالندھری کے شاہنامہ اسلام نے اس کی کیا خوب منظر کشی کی ہے:
نہ تیغ و تیر پر تکیہ نہ خنجر پر نہ بھالے پر
بھروسہ تھا انہیں اک سیدھی سادھی کملی والے پر
تھے ان کے پاس دو گھوڑے، چھ زرہیں، آٹھ شمشیریں
پلٹنے آئے تھے یہ لوگ دنیا بھر کی تقدیریں دنیا کی
تقدیر بدلنے والے اس قافلے میں دونوجوان "معاذ" اور"معوذ" بھی تھے کہ جنہیں رسول اکرم ﷺ نے بچہ سمجھتے ہوئے ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا تو وہ دونوں آقا ؐ کے سامنے ایڑیاں اٹھا کر پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے "اب تو ہمارا قد بڑا ہو گیا ہے"۔ میرے اللہ نے ان کے اس جذبے کی ایسی لاج رکھی کہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن، جسے رسول اللہ ﷺ نے تمام اُمتوں کے فرعونوں سے بڑا فرعون کہا، "ابوجہل" ان دونوں کم سن جنگجوؤں "معاذ " اور "معوذ" کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔ چودہ سو سال بعد جب اس بنگالی لڑکے نے جمال پور کی آرمی یونٹ میں پنجوں پر کھڑے ہو کر اپنا قد بلند کیا، تو بقول میجر ریاض حسین ملک، میرے دماغ میں "میدانِ بدر" گھوم گیا اور ایک ہی لمحے میں اس تنظیم کا نام "البدر" رکھ دیاگیا۔ ان سرفروشوں اور صاحبانِ ایمان "البدر" کے مجاہدوں اور شہیدوں کی داستان "سلیم منصور خالد" نے البدر کے نام سے چھ سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب میں تحریر کی ہے۔ وہ بھی اس لمحے نم آنکھوں کے ساتھ اس پروگرام میں موجود تھے۔ مشرقی پاکستان کے سانحے کو پچاس سال بیت چکے ہیں، لیکن ہم، ہمارا میڈیا، ہماری سیاست اور حکومت ان "البدر" کے مجاہدین کو فراموش کر چکے ہیں۔ برطانیہ کا وزیر اعظم آج بھی جنگِ عظیم اوّل میں ان کے لیے لڑنے والے گوجر خان کے سپاہی کی قبر پر پھول چڑھاتا ہے، تاکہ لوگوں کے دلوں میں تاجِ برطانیہ کے لیے جان دینے والوں کی عزت و تکریم قائم رہے۔ جو قومیں اپنے لیے قربانی دینے والوں کو بھول جاتی ہیں، تاریخ بھی ان قوموں کو فراموش کر دیا کرتی ہے۔