"اگر کشمیر کا مسٔلہ حل کئے بغیرامریکہ افغانستان سے نکل گیا تو پھر دنیا بھر کے جہادیوں کو ایک ایسا متبال ٹھکانہ مل جائے گا، جہاں سے وہ اس پورے خطے میں بڑی آسانی سے دخل اندازی کرسکیں گے"۔ یہ محض ایک تجزیہ نہیں، بلکہ "وارننگ" ہے جو امریکی افواج کے سب سے بڑے پالیسی تھنک ٹینک نے وائٹ ہاؤس کے نو وارد امریکی صدر جو بائیڈن کو اپنی تازہ ترین رپورٹ میں دی ہے۔ امریکی افواج کی سمت متعین کرنے، موجودہ اور مستقبل کی قیادت کی رہنمائی کرنے اور دنیا بھر کی پیچیدہ جنگی صورتحال میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے رہنمائی فراہم کرنے کے واسطے امریکی ملٹری اکیڈمی کے زیرِ سایہ ایک تھنک ٹینک "ماڈرن وار انسٹیٹیوٹ" (Modern War Institute) کے نام پر قائم ہے۔ یہ ادارہ امریکی فوج کے افسران کی ہر سطح پر رہنمائی کرتا ہے، ان کے لئے نصاب ترتیب دیتا ہے، اس نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتا ہے اور جدید ترین تحقیقات کے مطالعے سے ہتھیاروں کی دنیا اور جنگی حکمتِ عملی کے نت نئے تصورات ان تک پہنچاتا ہے۔ یہ دراصل ایک پالیسی ادارہ ہے یعنی ایک ایسا تھنک ٹینک ہے جس کی تحقیقاتی رپورٹ عموماً رد نہیں کی جاتی، بلکہ یہ امریکہ کی دنیا بھر میں جنگی پالیسی کے رہنما اصول مرتب کرتی ہے۔ ماڈرن وار انسٹیٹیوٹ نے اکیس صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس کا مرکزی نکتہ "کشمیر" ہے۔
اس رپورٹ میں کشمیر کو ایک "رستا ہوا زخم" (Festering Wound) کا نام دیا گیا ہے۔ ایک ایسا زخم جس کی موجودگی میں امریکہ علاقے میں اپنی بالادستی کا خواب پورا نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور جنگی قوت کو لگام ڈال سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک سال سے بھارت کی عالمی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس کے مقابلے میں کشمیریوں نے عالمی سطح پر توجہ اور ہمدردی حاصل کی ہے۔ رپورٹ میں جوبائیڈن حکومت کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ آئندہ چار سالوں میں اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف میں سب سے اہم نکتہ "کشمیر امن مذاکرات"کو بنائے۔ موجودہ امریکی صدر کو سابقہ صدر ڈونلڈڈ ٹرمپ کی طرح براہ راست ثالثی کی پیش کش کرنے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ ایسی کسی بھی قسم کی پیشکش کو بھارتی حکومت، عوامی دباؤ کی وجہ سے مسترد کر دیگی۔ اس کے برعکس امریکہ کو بھارت پر اپنا اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اسے فوراً کشمیر پر پاکستان سے امن مذاکرات کے آغاز پر مجبور کرنا چاہیے۔ رپورٹ میں چین کے لداخ کے علاقے میں فوجی اقدامات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے اوراس تناظر میں بھارت کی جنگی صلاحیتوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ امریکہ کو فوری طور پر کشمیر پر نریندر مودی کے ظالمانہ کنٹرول کے خاتمے کیلئے دباؤڈالنا چاہیے۔ اسکے ساتھ ساتھ امریکہ نئی دہلی کی قیادت کو مجبور کرے کہ وہ کشمیر کے سیاستدانوں اور سیاسی گروہوں کے بارے میں اپنی گفتگو نرم کرے اور کشمیری سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔
رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ امن مذاکرات کے آغاز سے پہلے بھارت سے کچھ اہم اقدامات کروائے جائیں، جن میں فوراً4جی انٹرنیٹ کا کشمیر میں کھولنا، کشمیر رہائشیوں کے حقِ ملکیت اور نوکریوں کے تحفظ کی یقین دہانی کرانا اور کشمیر سے باہر سے آئے لوگوں کی کشمیر میں آباد کاری کی حوصلہ شکنی کرنا شامل ہو۔ کشمیری نوجوانوں کو امن کی جانب لانے کیلئے پروگراموں کا آغازکیا جانا چاہے اور ایسے نوجوانوں کی فوری رہائی یقینی بنائی جائے جو ابھی تک صرف پتھر پھینکنے کے جرم میں جیل میں پڑے ہوئے ہیں۔ بھارت کو وادی میں لڑنے والے مجاہدین کیلئے ایک ایسی پالیسی بنانا ہو گی کہ اگر مجاہدین چھاپہ مار کارروائیاں چھوڑ دیتے ہیں تو پھر انہیں مکمل تحفظ دیا جائے گا۔ اس پالیسی تھنک ٹینک نے بائیڈن حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ فوراً امریکی خارجہ پالیسی میں کشمیر کو ایک مرکزی نکتے کی حیثیت دے۔ اس رپورٹ کی اہم مصنفہ یلینہ بابر مین (Yelena Baberman)ہے، جو بھارت اور پاکستان کے حوالے سے اپنی تحقیقات کی وجہ سے ایک شہرت اور مقام رکھتی ہے اور اس کی مشہور کتاب "Gambling with voilence" (تشدد کی قمار بازی) کو آکسفورڈ یونیورسٹی نے 2019ء میں شائع کیاتھا۔ یہ کتاب بھارت اور پاکستان میں تنازعات، جنگی صورتحال اور سول وار کے حوالے سے ایک جامع کتاب سمجھی جاتی ہے۔
یہ کتاب صرف حالات و واقعات کا جائزہ ہی نہیں لیتی بلکہ ایک عملی حل بھی تجویز کرتی ہے کہ کیسے خطے کے ممالک کو اکٹھا کر کے امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے امریکی حکومت کے سامنے پیش ہونے کے بعد سے اب تک اس خطے میں اب دو اہم واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ یہ دونوں واقعات اس قدر اہم ہیں کہ آج سے چند ہفتے پہلے ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پہلا واقعہ چین اور بھارت کی سرحد پر پیش آیا، جہاں نو ماہ سے جاری فوجی کشمکش کا اچانک خاتمہ ہوا ہے۔ لداخ کا وہ میدان ِ جنگ جہاں چین تقریباً ایک ہزار ٹینکوں اور افواج کی کثیر تعداد کے ساتھ بھارتی افواج سے آکر متصادم ہوا تھا، وہاں سے اسکے دس ہزار فوجیوں کی واپسی ہوئی اور بھارت نے بھی مزید مورچہ بندی ختم کر دی۔ اس واقعے نے ایک لمحے کیلئے دنیا بھر کو ابھی چونکایا ہی تھا کہ اس کے تھوڑے عرصے بعد پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے آپس میں رابطے اور لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے معاہدے نے تمام مبصرین کو حیران کر دیا۔ پاکستانی میجر جنرل نعمان ذکریا اور بھارتی لیفٹیننٹ جنرل پرم جیت سنگھ اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ 23 اور 24 فروری کی درمیانی شب سے دونوں ملک، کشمیر کی لائن آف کنٹرول اور پاکستان کی ورکنگ باؤنڈری کی کسی صورت میں خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول اور وارننگ باؤنڈری کی خلاف ورزی نہ کرنے کاایک معاہدہ 2003ء سے چلا آرہا ہے۔ لیکن 2008ء کے بعد سے اس کی ہلکی پھلکی خلاف ورزیاں شروع ہوئیں پھر 2014ء میں نریندر مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ان میں تیزی آگئی اور گزشتہ سال یعنی 2020ء میں بھارتی افواج نے تین ہزار بار پاکستانی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی۔
دونوں واقعات سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے خطے میں امریکہ اور چین دونوں پس پردہ کسی نہ کسی طور پر ایک پُرامن بقائے باہمی کی فضا کو بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسی فضا افغانستان میں بھی مدتوں سے قائم رہی ہے۔ امریکہ اپنی نیٹو ممالک کی افواج کے ساتھ افغانستان میں لڑ رہا تھا، وہاں ایک کٹھ پتلی افغان حکومت کو اقتدار کے لئے تیاربھی کیا جا رہا تھا، اسے اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے نا قابلِ تسخیر بنانے کوششیں بھی زوروں پر تھیں، مگر افغانستان کے قدرتی اور معدنی وسائل کو کاروباری مقاصد کی غرض سے استعمال کرنے کے لئے چین کی سرمایہ کاری زوروں پر تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امریکہ کے اہم حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ ہم دراصل چین کے کاروبار کو امریکی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے سیکورٹی فراہم کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے امریکی سرمایہ بھی خرچ ہو رہا ہے اور امریکی اپنے بچوں کی لاشوں کے تابوت بھی اٹھا رہے ہیں، لیکن اس سب کا معاشی فائدہ چینی کمپنیاں اٹھا رہی ہیں۔ ایسا سب کچھ ایک خاموش بقائے باہمی کی وجہ سے تھا۔ روس، چین، امریکہ ایران اور بھارت ایک بظاہر نظر نہ آنے والے معاہدے کے تحت خطے میں اپنے مفادات کو آگے بڑھا رہے تھے کہ طالبان کی کامیابیوں نے ان کے ہوش اُڑا دیئے۔ (جاری)