پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری کی خلاف ورزی نہ کرنے کے 2003ء کے معاہدے کی پاسداری کے اعلان اور لدّاخ کے علاقے میں چین اور بھارت کی افواج کا زمانۂ امن کے مقامات کی جانب لوٹنا، یہ سب صرف جنوبی ایشیا کا ایک علیحدہ واقعہ نہیں ہے، بلکہ شمالی افریقہ کے ساحلوں سے لے کر آسٹریلیا کے میدانوں تک پورے خطے میں بدلتے ہوئے اتحادوں اور نئی صف بندیوں کی ایک چھوٹی سی علامت ہے۔ موٹروے پر جاتے ہوئے آپ کو اچانک یہ خیال آجائے کہ تھوڑا پیچھے رہ جانے والے ایگزٹ (Exit)سے راستہ بدل لینا اچھا ہے تو آپ گاڑی کو تھوڑا سا پیچھے لا کر اس مقام پر لے آتے ہیں، جہاں سے آپ نے نئی سمت مڑنا ہوتا ہے، چین اور بھارت نے بھی اپنی افواج کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوباما سے لے کر جوبائیڈن تک امریکی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح "چین کے اثر و رسوخ کو روکنا" ہے اورگذشتہ دس سالوں میں کبھی بھی امریکہ کے نزدیک بھارت کے کردار میں کوئی کمی نہیں آئی۔
اصل مسٔلہ یہ ہے کہ بھارت جب تک علاقائی تنازعات سے آزاد نہیں ہو جاتا، وہ چین کے مد مقابل ایک بھرپورعسکری کردار ادا نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد، جب اکتوبر میں امریکی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو امریکہ کا سب سے اہم تذویراتی (Strategic)پارٹنر تو پاکستان تھا، لیکن افغانستان میں بھارت کو کھل کر کھیلنے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا پورا موقع دیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو اپنی مغربی سرحدوں میں اسقدر الجھایا جائے کہ بھارت اس کے خطرے سے بے نیاز ہو کر اپنی توجہ صرف اور صرف چین پر مرکوز کر سکے۔ لیکن افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کی ذلت آمیز شکست اور طالبان کے کردار کی بالادستی نے اس منصوبے کا ستیاناس کر دیا۔ منصوبے پر ناکامی کی مہرِ تصدیق مزید دو وجوہات سے لگی، ایک طالبان نے خود کو پاکستان کی پالیسیوں سے منسلک کر لیا اور دوسری وجہ یہ کہ امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں اپنے جانے کے بعد، براہ راست کردار ادا کرنے کے لیے کہا، تو بھارت نے صاف انکار کر دیا۔ بھارت کی یہ حکمتِ عملی ایک تاریخی تجربے کے تسلسل اور خوف کا نتیجہ تھی۔ انہیں اندازہ تھا کہ ایسا کرنے سے دریائے آمو سے لے کر نربدا تک خطے کے تمام مسلمان بھارت کے خلاف صف آرا ہو جائیں گے اور دنیا بھر کے مجاہدین کو بھی بھارت سے براہ راست لڑنے کے لیے جواز فراہم ہو جائے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے میں صرف اور صرف پاکستان ہی نظر آتا ہے اور ایسی تمام قوتیں غائب ہیں، جو افغانستان میں پاکستان مخالف تصور ہو سکتی تھیں، ان میں افغان حکومت، بھارت اور ایران شامل تھے۔ طالبان کی فتح کے بعد پاکستان مضبوط تر ہوا اور اس کی مغربی سرحد نسبتاً پر امن ہو گئی، لیکن بھارت میں کشمیر اور خالصتان کی تحریک نے زیادہ شدت سے سر اٹھا لیا۔ ایسے میں اگر بھارت نے زمینی سطح پر چین سے مقابلہ کرنا ہے تو پھر اس کیلئے اندرونی علیحدگی پسند تحریکوں اور بیرونی دباؤ، دونوں سے آزاد ہوناضروری ہے۔ چین بھی اس ساری صورتحال سے باخبر تھا، اسی لیے اس نے اپنی خارجہ پالیسی اور سرمایہ کاری ان تمام ملکوں میں تیز کر دی جو بھارت کے پڑوسی تھے اور جو اس خطے پر براہ راست اثرانداز ہو سکتے تھے۔ سری لنکا، میانمار، نیپال، تبت اور کسی حد تک بنگلہ دیش میں چین نے بے شمار سرمایہ کاری کی اور انہیں بھارت کی بنیا نما تجارتی اجارہ داری اور عسکری بلیک میلنگ سے بھی نجات دلائی۔
ایسے ماحول میں جہاں پڑوسی ملک آپ سے خیر خواہی والے تعلقات نہ رکھتے ہوں اور اندرونی طور پر کشمیر کی آزادی کی تحریک گذشتہ 70سال سے ایک آتش فشاں کی طرح موجود ہو، ساتھ میں 1984ء سے خالصتان کے زخم بھی رس رہے ہوں، تویہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھارت ایشیا پیسیفک (Asia - Pacific) ریجن میں امریکہ کی بالادستی کے منصوبے میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ علاقائی ممالک کو چین کے حلقۂ اثر سے نکالنا، اب مشکل ہو گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بھارت کو ہی مضبوط بنانے کے لیے اس کے اہم اندرونی مسٔلے اور رستے ہوئے "ناسور" کشمیر سے نجات دلانے کی پالیسی اپنائی۔ امریکہ کی وزارتِ خارجہ کی ترجیحات میں کشمیر گذشتہ آٹھ سال سے شامل ہو چکا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اسی لیے بار بار سرعام ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے کہتا رہا، جسے نریندر مودی نے عوامی دباؤ کے زیرِ اثر مسترد کر دیااور آج بھی یہ جو بائیڈن حکومت کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔
بھارت کے علاوہ جوبائیڈن کی حکومت کے برسرِ اقتدار آتے ہی لاتعداد ایسی پالیسیوں میں تبدیلیاں آئی ہیں، جو مراکش سے لے کر آسٹریلیا تک کے وسیع خطے میں خارجہ اور عسکری اتحادوں کو بدل کر رکھ دیں گی۔ مشرقِ وسطیٰ میں گذشتہ اتحادی تقریباً بدل چکے ہیں۔ سعودی عرب جو کبھی امریکی مفادات کا سب سے بڑا ٹھکانہ تھا، اب اسے ایک چلے ہوئے کارتوس کا مقام مل چکا ہے۔ عدن کی وہ پورٹ جو گذشتہ دو سو سال سے علاقے میں طاقت کا توازن متعین کرتی رہی ہے، وہاں شاید اب ایران کو راستہ دے دیا جائے، کیونکہ امریکہ نے حوثی باغیوں کو دہشت گردی کی لسٹ سے خارج کر دیا ہے۔ سعودی عرب کو یمن پر حملوں سے روک دیا ہے۔ ایران اور یورپی ممالک کے درمیان ہونے والی ایٹمی ڈیل جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر ختم کر دیا تھا، اب دوبارہ زندہ کی جانے والی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے تمام معاہدے منجمد کر دیئے گئے ہیں، جن میں فائٹر طیاروں کے علاوہ 290 ملین ڈالر کے چھوٹے GBU-39 بم اور 423ملین ڈالر کے سات ہزار Paveway Bombبھی شامل ہیں۔ ان ہتھیاروں کی فروخت پرپابندی دراصل یمن کو سعودی عرب کے حملوں سے بچانے کے لیے لگائی ہے۔
صحافی جمال خشوگی کے قتل کی خفیہ رپورٹ میں محمد بن سلمان کی نامزدگی شاہی خاندان کو امریکہ سے بہت دور لے جا چکی ہے۔ خطرے کی بو سونگھتے ہی چند ماہ پہلے، متحدہ عرب امارات، بحرین، مسقط اور دیگر ممالک نے اسرائیل کی فوجی قوت اور اسلحہ سازی کو اپنے لیے سہارا تصور کیا اور اس کے ساتھ تعلقات بڑھالیے۔ علاقے میں عربوں کے ساتھ نئے بننے والے تعلقات کی اسرائیل کے مذہبی رہنماؤں نے تائید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ امریکہ اور یورپ دراصل یاجوج اور ماجوج ہیں اور تورات اور تالمود کے مطابق انہوں نے بنی اسرائیل سے بڑی جنگ لڑنا ہے۔ یہودی ربائیوں کے نزدیک یورپ کے باسی بھی یاجوج ماجوج ہیں جو دو ہزار سال تک ان پر ظلم کرتے رہے ہیں اور اب ان کے ساتھ امریکہ مل گیا ہے۔ یہودیوں کے علم آخر الزمان کے مطابق اسرائیل کوجلد ایک بہت بڑا المیہ (Tragedy)پیش آنے والا ہے، مگر اس کے بعد آسمانی صحیفوں کے مطابق بنی اسرائیل کیلئے فتح (Triumph) کی خوشخبری لکھی ہوئی ہیں۔ اس عسکری، سیاسی اور کسی حد تک مذہبی تناظر میں خطے کے وہ تمام ممالک جو امریکہ سے دور ہو رہے ہیں، چین کے حلقۂ اثر میں آتے جا رہے ہیں۔ نئی صف بندیاں شروع ہیں۔
ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس خطے میں صرف ایک ہی ملک ایسا ہے جو اپنے مذہبی عقیدے کے لحاظ سے "عالمی بادشاہت" کا خواب گذشتہ ستر سالوں سے دیکھ رہا ہے، اور وہ اسرائیل ہے۔ یہ ملک اسلحہ سازی اور جنگی مہارت میں کسی عالمی طاقت سے کم نہیں ہے۔ اس نئی صف بندی کیلئے پاکستان کو کشمیر کا لالی پاپ دیا جا رہا ہے تاکہ اگر یہ مسٔلہ حل کروادیا جائے تو پھر پاکستان بھارت کے شانہ بشانہ چین کے مقابل کھڑے ہوسکے۔ امریکی تھنک ٹینک جن خطوط پر سوچ رہے ہیں انہیں بالکل اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس خطے میں مسلمان اور ہندو دشمنی کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اسے کھرچنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ پاکستان اور بھارت کا ایک محدود طبقہ اگر راضی ہو بھی گیاتو اس پورے خطے کو"ہندوتوا" بنانے کا خواب دیکھنے والے کٹر ہندو گروہ اس حکمتِ عملی کو برباد کر کے رکھ دیں گے۔ (ختم شد)