مئی اور جون 1941ء کے دو ماہ ایسے تھے، جب اتحادی افواج جن میں برطانیہ، فرانس، روس، یورپی ممالک اور ان کے زیر تسلّط ایشیائی اور افریقی ممالک شامل تھے، ان سب کو امریکہ ایک بہت بڑی اجتماعی قوت خیال کرتا تھا، مگر یہ تمام اتحادی ہٹلر اور میسولینی کی افواج سے پے در پے شکست کھانے لگے۔ فرانس پر مکمل قبضہ ہو گیا، مغربی اور وسطی یورپ بھی ہٹلر کے زیر تسلّط آ گیا، میسولینی نے بحیرۂ قلزم کے افریقی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں برطانیہ کے خلاف نیا محاذ کھول دیا۔
اب دُنیا پر یہ خطرہ شدت سے منڈلانے لگا کہ جنگ جیتنے کے بعد جرمنی ہی دُنیا بھر کی معیشت کو کنٹرول کرے گا اور میلوں دُور بیٹھا، امریکہ جو ان تمام علاقوں کو اپنی معاشی منڈی کے طور پر پہلی جنگِ عظیم کے بعد سے استعمال کرتا چلا آ رہا تھا، وہاں اس کا داخلہ بھی ممنوع ہو جائے گا۔ امریکہ یوں تو اس جنگ میں اتحادیوں کو اسلحہ فروخت کر رہا تھا، لیکن ابھی تک کھل کر سامنے نہیں آیا تھا۔
1940ء میں روز ویلٹ نے تیسری دفعہ امریکہ کی صدارت کے الیکشن میں حصہ لیا، تو اس نے امریکی عوام سے امریکہ کو جنگ سے دُور رکھنے کا وعدہ کیا۔ وجہ یہ تھی کہ امریکی ڈیمو کریٹک پارٹی نے عوام کو جنگ اور خونریزی سے علیحدگی کی ایک کامیاب مہم چلا رکھی تھی اور رائے عامہ جنگ کے خلاف ہموار تھی۔ امریکی عوام عمومی طور پر ریپبلکن والوں کو جنگی جنونی تصور کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ روز ویلٹ نے جیتنے کے بعد برطانوی اور امریکی آرمی چیف کی خفیہ طور پر ملاقات کروائی اور امریکہ نے خفیہ طور پر اپنی افواج آئس لینڈ میں بھیجیں تاکہ برطانوی افواج کا بوجھ ہلکا ہو اور وہ وہاں سے نکل کر ہٹلر کا مقابلہ کر سکیں۔
یورپ میں ہٹلر آگے بڑھ رہا تھا اور مشرق میں جاپان کی افواج انڈونیشیا اور ملائیشیا سمیت برطانوی اور ولندیزی کالونیوں میں داخل ہو گئیں۔ اس کے بعد امریکہ نے جاپان کے اثاثے منجمد کئے لیکن پھر بھی براہِ راست جنگ میں نہ کودا۔ کیونکہ امریکی رائے عامہ اس کی حمایت میں نہ تھی۔ لیکن سی آئی اے اور پینٹاگون نے جنگ میں کودنے کے لئے ایک خوفناک منصوبہ بنایا جس کی تفصیلات اب منظرِ عام پر آ چکی ہیں کہ کس طرح امریکی حکام نے اپنی دُور دراز بندرگاہ، پرل ہاربر پر اپنے چند جنگی جہاز کھڑے کئے جس کے سامنے جاپان کے ساحل پر ان کا ایئر فورس بیس تھا۔
جہازوں کے انچارج چیختے رہے کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ ہمیں اس بکرے کی طرح درخت سے باندھ رہے ہیں جس کے دھوکے میں شکاری شیر کا شکار کرتا ہے اور یوں 7 دسمبر 1941ء کی صبح جاپان کے طیاروں نے "پرل ہاربر" پر امریکی جہازوں کو اکیلے پا کر حملہ کر دیا۔ صدر روز ویلٹ نے فوراً قوم سے خطاب کیا اور اسے امریکی سرزمین پر حملہ تصور کرتے ہوئے جنگ میں کودنے کا اعلان کر دیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے لاتعداد ماہرین کے نزدیک گیارہ ستمبر 2001ء کو "ورلڈ ٹریڈ سینٹر" کا ڈرامہ رچا کر دہشت گردی کی جنگ کا اعلان کیا گیا۔
امریکہ اس جنگ میں کودنا کیوں چاہتا تھا؟ کس لئے پرل ہاربر پر حملے کا ڈرامہ رچایا گیا؟ ایک بنیادی خوف تو وہی تھا کہ اگر جرمنی نے یورپی قوتوں کو شکست دے دی، تو پھر نہ صرف یورپ بلکہ اس کے زیر تسلّط ہندوستان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، افریقہ کے ممالک اور مشرق وسطیٰ سمیت تمام منڈیاں اس کے قبضے میں چلی جائیں گی، لیکن دوسری وجہ خوف نہیں بلکہ وہ لالچ اور حرص تھا جس کی وجہ سے امریکہ ہمیشہ ہر جنگ کا حصہ بنتا ہے۔
اگر دسمبر 1941ء میں پرل ہاربر کا واقعہ نہ ہوتا تو جنگ کا پانسہ پلٹ چکا تھا اور جنگ کچھ ماہ بعد جرمنی اور جاپان کے حق میں ختم ہو جاتی۔ اس جنگ کے دوران امریکہ کی اسلحہ سازی کی صنعت جو دن رات کمائی کر رہی تھی وہ فوراً ٹھپ ہو کر رہ جاتی۔ لیکن جیسے ہی امریکہ اس جنگ میں کودا، تو جنگ میں شدت آ گئی اور پھر یہ جنگ مزید چار سال چلتی رہی۔ اس چار سال کے عرصے میں امریکی اسلحہ سازوں نے خوب کمائی کی۔ یورپ کے ممالک نے ان سے دھڑا دھڑ اسلحہ خریدا اور امریکی افواج نے جو اسلحہ استعمال کیا اس کی قیمت امریکی عوام نے ٹیکسوں کی صورت ادا کی۔
دوسری جنگِ عظیم میں شمولیت سے امریکی معیشت کو جو فوائد حاصل ہوئے وہ حیران کن تھے۔ اس جنگ کی وجہ سے ایک کروڑ ستر لاکھ نئی سویلین نوکریاں پیدا ہوئیں۔ ظاہر بات اس کی وجہ شرح پیداوار تھی جو گذشتہ سالوں کی نسبت 96 فیصد زیادہ ہوئی۔ جب پیداوار زیادہ ہوتی ہے تو پھر حکومت کو ٹیکس بھی زیادہ ملتا ہے، امریکہ کی حکومت کو جنگ کے دوران دوگنا ٹیکس وصول ہوا۔
جنگ براہِ راست ہو تو تمام مصنوعات وغیرہ کا ایک تہائی حصہ اس کی نذر ہوتا ہے جیسے خوراک، کپڑے، ادویات وغیرہ، لیکن جنگ کی وجہ سے لوگوں کی آمدن میں جو اضافہ ہوتا ہے تو پھر لوگ مزید اشیاء خریدنے اور زیادہ پیسے خرچ کرنے لگتے ہیں۔ امریکہ دُنیا کا واحد ملک تھا جس کی اس جنگِ عظیم دوّم کے دوران اشیائے صرف کی کھپت باقی دُنیا کے مقابلے میں بڑھی۔ چونکہ اسلحہ سازی کی صنعت کی ڈیمانڈ بہت بڑھ گئی تھی، اس لئے کارخانوں کو دو سے تین شفٹوں میں کام کرنا پڑا۔
ماہر کاریگر تو کم تھے، اس لئے موجودہ ہی کو اوورٹائم پر رکھا جاتا رہا، جس کے نتیجے میں 1939ء میں ایک مزدور کی جو اوسط کمائی تھی، وہ جنگ کی وجہ سے بڑھ کر ڈیڑھ سے دوگنا زیادہ ہو گئی۔ اسی جنگ کی وجہ سے نئی نئی ٹیکنالوجی متعارف ہوئی، یہاں تک کہ امریکہ نے 16جولائی 1945ء کو پہلا ایٹمی تجربہ کر کے جہاں دُنیا کو ایٹمی جنگ میں جھونکا وہاں ایک انتہائی مہنگی ٹیکنالوجی کی دوڑ شروع ہو گئی جس میں کئی ملکوں کے اربوں ڈالر جھونکے جانے لگے۔ اس جنگِ عظیم دوّم کی وجہ سے امریکہ میں پہلی دفعہ خواتین اور سیاہ فام امریکیوں کو بھی کارخانوں میں ملازمت دی جانے لگی۔ اس سے پہلے وہ صرف کھیتوں، گھروں، ہوٹلوں وغیرہ پر نوکریاں کرتے تھے۔
اس معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ امریکی ریاست بہت مضبوط ہو گئی اور ایمرجنسی قوانین کی وجہ سے اس کا عوام پر کنٹرول سخت سے سخت ترین ہو گیا۔ جنگ کے نام پر قیمتوں اور اُجرتوں کو حکومتی اختیار میں لے لیا گیا، بینکوں نے جنگ کے نام پر بانڈز جاری کئے اور اربوں ڈالر کمائے، خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت پر ریاستی کنٹرول اور راشنگ ہو گئی اور تمام فیکٹریوں کو پابند کیا گیا کہ جنگ کے لئے کوئی نہ کوئی شئے ضرور بنائیں۔
جنگی مصنوعات میں تیزی کا یہ عالم تھا کہ بحری جہاز بنانے کی کمپنی "ہنری کیسر شپ یارڈ" (Henry Kaiser's Shipyard) جو پہلے 365 دنوں میں ایک جہاز بناتی تھی، پھر وہ 92 دن میں ایک بنانے لگی، اس کے بعد 62 دنوں میں ایک، آخری دنوں میں روزانہ ایک نیا جہاز اس کمپنی نے شپ یارڈ میں تیار ہو کر آتا۔ اس شپ یارڈ کو چلانے والے ورکروں کے لئے فیکٹری کے ساتھ چوبیس گھنٹے چلنے والا بچوں کی نگہداشت کا ایک ادارہ بنایا گیا جس میں ڈے کیئر سنٹر سے لے کر نرسری سکول تک سب کچھ تھا۔
کارکن اپنے بچوں کو لے کر آتے، ڈیوٹی کے دوران بچے وہاں رہتے اور وہ لوگ اسلحہ سازی کرتے رہتے۔ کام اس قدر بڑھا اور ضرورت اس قدر زیادہ ہوئی کہ ایک زمانہ تھا جب 1941ء میں گاڑیاں بنانے والی فیکٹریوں کے مزدوروں نے اس بات پر مشہورِ عام کیلسی ہیز (Kelsey Hayes) ہڑتال کی کہ عورتوں کو بھرتی نہ کیا جائے کیونکہ اس سے بے روزگاری بڑھے گی۔ لیکن جیسے ہی امریکہ جنگ میں کودا ہڑتال تو دُور کی بات ہے، عورتوں کے غول کے غول مزدوروں کی صورت بھرتی کئے جانے لگ اور کسی کو کوئی اعتراض بھی باقی نہ رہا۔
یہ ایک لمبی تفصیل ہے، جس کا آخری نکتہ یہ ہے کہ امریکی حکومت نے دوسری جنگِ عظیم میں 135 ارب ڈالر کمائے جبکہ عام آدمی اور فیکٹریوں کا منافع اس سے الگ ہے۔ اس تناظر میں آپ افغانستان اور عراق کی جنگ اور اب یوکرین کی جنگ دیکھیں۔ تو حیرت سے آپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔