ہم نے یقیناً اس مملکتِ خداداد پاکستان کے وہ دن دیکھے ہیں کہ جب محلے میں رہنے والے کسی سرکاری ملازم کے گھر میں پیسے کی ریل پیل ہونے لگتی، اس کے اخراجات بڑھ جاتے، پرانا فرنیچر بدل دیا جاتا اور آخر کار گھر گرا کر نیا عالیشان مکان کھڑا کر دیا جاتا تو پورا محلہ اسے حیرت نہیں بلکہ نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگتا۔
بچے اگر مائوں سے سوال کرتے کہ ہمیں بھی اس گھر والے بچوں جیسے کھلونے لے کر دیں تو وہ انہیں ڈانٹ کر چُپ کروا دیتی اور کہتیں، "وہ تو حرام کا پیسہ ہے، میں اپنے لاڈلوں کو حرام تو نہیں کھلا سکتی"۔ شہر بھر میں ایسے لوگ بطور "راشی" مشہور تھے۔ کوئی ان کا بائیکاٹ تو نہیں کرتا تھا کہ کل کو انہی سے سو طرح کے کام پڑنے تھے، مگر ان کے بارے میں منفی گفتگو پورے شہر میں زبانِ زدِ عام ہوتی تھی۔
ایسے بددیانت سرکاری ملازمین کو بھی اس بات کا عموماً احساس ہوتا تھا اور وہ باتوں باتوں میں خود کو تسلی دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف بھی کر لیتے اور کہتے کہ "فی زمانہ گزارا نہیں ہوتا" یا پھر یہ کہ اوپر والے آفیسر ہم سے حصہ مانگتے ہیں تو ہمیں دینا پڑتا۔ ایسا ماحول اس ملک میں ایک اندازے کے مطابق 1975ء تک قائم رہا۔
عزت کا پیمانہ دولت نہیں بلکہ کسی شخص کی شرافت، دیانت داری اور علم ہوا کرتا تھا۔ ایسے باصفا لوگوں کے قصے مثال کے طور پر پیش کئے جاتے جبکہ ان کے مقابلے میں اعلیٰ سطح پر کرپشن کی بھی چند گِنی چُنی مثالیں زبانِ زدِ عام تھیں، مگر بحیثیتِ مجموعی معاشرہ خیر پر قائم تھا۔
جاپان کا معاشرہ پوری دنیا میں معاشرتی اقدار کے حوالے سے سب سے مہذب سمجھا جاتا ہے۔ جھوٹ اس معاشرے میں نام کو نہیں۔ اگر کوئی شخص جھوٹ بولتے ہوئے پکڑا جائے تو معاشرتی سزا یہ ہے کہ وہ اپنی ایک انگلی کاٹ دے۔ میں نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنی انگلی پر برف لپیٹ کر اسے سُن کر رہا تھا اور لوگ اسے طعنہ دے رہے تھے کہ مرد بنو، جھوٹ بولا ہے تو سزا بھی بھگتو۔ بے ایمانی اور دھوکے کی سزا تو اس قدر سخت ہے کہ ایسا شخص خود اپنے ہاتھ سے پیٹ میں خنجر مار کر خودکشی کرے گا۔ ایسے مناظر طویل وقفے کے بعد جاپان میں کبھی کبھار نظر آتے ہیں کیونکہ معاشرہ صالح ہے۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ اس کا جواب ان کے ایک تاریخی فیصلے میں پوشیدہ ہے۔
جاپان نے1639ء سے 1853ء تک 214 سال اپنے معاشرے کو بیرونی دنیا سے علیحدہ کئے رکھا، مکمل طور پر کاٹ دیا۔ اسے جاپانی معاشرے میں سکوکو "Sakoku" کہتے ہیں۔ جاپان کے اس 214 سال کے عرصے پر مغرب میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ یورپ کے مصنّفین اسے خود ارادی تنہائی "Voluntary Isolation" کہتے ہیں۔ اس 214 سال کے عرصہ میں بیرونی دنیا سے کوئی شخص جاپان میں داخل نہیں ہو سکتا تھا اور اگر کوئی جاپانی باہر چلا جاتا تو اسے واپسی کی اجازت نہیں تھی۔ اس عالمِ تنہائی میں جاپان کو اپنے اندر موجود لاتعداد خوبیوں اور اچھائیوں کو معاشرتی طور پر محفوظ کرنے کا موقع مل گیا، جو آج مغربی دنیا میں ناپید ہو چکی ہیں۔ جاپان والا یہ کلیہ ہر معاشرے کے لئے کارآمد ہے۔
پاکستانی معاشرہ بھی نیکی، دیانت اور انسانی ہمدردی جیسی اقدار پر قائم تھا، لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران ہمارے اڑوس پڑوس کی عرب دنیا میں تیل کی وجہ سے بے پناہ ترقیاتی کام شروع ہوگیا۔ پاسپورٹ پر پابندی ختم ہوئی، دبئی چلو کا نعرہ بلند ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے کچے مکان بلند و بالا عمارتوں میں تبدیل ہونے لگے اور صرف چند برس کے عرصے میں عزت، توقیر اور احترام کے معیار ہی بدل گئے۔ اس سے پہلے یہ تبدیلی میر پور میں دیکھنے کو ملی تھی کہ مرد یورپ کو روانہ ہوئے اور اپنے پیچھے پورا معاشرہ بے نیل و مرام چھوڑ گئے۔
بیرون ملک کمانے والے تو رزقِ حلال کماتے تھے، لیکن وہ پاکستانی معاشرے سے اس قدر زیادہ ہوتا تھا کہ یہاں کا ایمانداری سے محنت کرنے والا شخص زندگی بھر کی تگ و دو کے بعد بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ دیکھتے دیکھتے صرف ایک دہائی میں اس مملکتِ خداداد پاکستان کی کایا کلپ ہوگئی۔ اب سرمائے کی ایسی دوڑ شروع ہوئی جس میں سب کچھ بہتا چلا گیا، ایمانداری، شرافت، اور علم۔ اس دوڑ کو آگے ان لوگوں نے بڑھایا جنہیں سرکاری اہلکار کہتے ہیں۔
اگر سمگلنگ، چور بازاری، ناجائز قبضوں، ٹیکس چوری اور ایسے ناجائز دھندوں پر قابو پاتے رہتے تو معاشرے میں ایک توازن قائم رہتا۔ لیکن جب انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے اردگرد ایسے اہلکاروں کو دیکھنا شروع کیا، جن کا معیارِ زندگی رشوت اور حرام کی کمائی سے بلند ہوا اور معاشرے نے انہیں عزت بھی دی اور دیکھتے ہی دیکھتے انہیں اس ملک کی اشرافیہ میں شامل کر لیا گیا، تو یہ ایک ایسی ترغیب تھی جس نے پاکستانی معاشرے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔
یہ المیہ چالیس سال سے ہم پر آسیب بن کر چھایا ہوا ہے۔ ہماری اس خرابی کو ہم سے زیادہ وہ عالمی ادارے جانتے ہیں جو ہمیں مسلسل قرض دیتے رہے ہیں۔ اسی لئے آئی ایم ایف نے اپنے تیئسویں پروگرام میں یہ سوال اُٹھا دیا ہے کہ آپ گریڈ سترہ سے لے کر گریڈ بائیس تک کے ملازمین کے اثاثے ظاہر کرو، انہیں طشت اَز بام کرو۔ آئی ایم ایف نے اس معاملے میں کسی بھی قسم کی کوئی درجہ بندی یا تخصیص نہیں کی۔ جو بھی ریاست پاکستان کے خزانے سے تنخواہ اور مراعات لیتا ہے، خواہ وہ وفاقی سول سروس سے تعلق رکھتا ہو یا صوبائی، افواجِ پاکستان کا ملازم ہو یا عدلیہ کا قابلِ احترام جج۔
آج سے ٹھیک نو سال قبل جب میں سپریم کورٹ میں پٹیشن لے کر گیا تھا کہ سول سروس کو تباہی سے بچانا ہے تو ان کے افسران کے اثاثے مشتہر کئے جانے چاہئیں اور پرموشن کے وقت عام لوگوں سے پوچھنا چاہئے کہ کسی کو اس شخص کے ایسے اثاثوں کا علم ہے جو اس نے چھپائے ہوں تو پٹیشن پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی داخلِ دفتر کر دیا گیا۔
پاکستان میں ریاستِ پاکستان کے خزانے سے تنخواہ لینے والے یہ افسران ہی ہیں جو ہر سال اپنے اثاثہ جات ایک فارم پر لکھ کر جمع کرواتے ہیں لیکن انہیں مقفل الماریوں میں بند کر دیا جاتا ہے اور اگر کسی کے اثاثہ جات کی معلومات باہر نکل آئیں تو اس محکمہ کے افسران کی شامت آ جاتی ہے۔
دنیا میں بددیانتی روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سرکاری افسران سے ان کے ایسے اثاثوں کے بارے میں سوال کیا جائے جو ان کی بظاہر آمدن سے زیادہ ہیں جسے عرفِ عام میں آمدن سے زیادہ اثاثے (Assets beyond means) کہتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے ایسا سوال کیوں پوچھا ہے؟ اس لئے کہ 17 ستمبر 2007ء کو اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک نے ایک مشترکہ پروگرام شروع کیا ہے جسے چوری کے مال کی برآمدگی "Stolen Asset Recovery Initiative" کہتے ہیں۔
اس کے مطابق ہر وہ شخص جو اپنے اثاثوں (منقولہ یا غیر منقولہ) کے بارے میں ذرائع آمدن کا ثبوت فراہم نہیں کر سکتا تو وہ اثاثے چوری کے تصور ہوں گے اور ان کی برآمدگی عالمی برادری پر لازم ہے۔ نیب قوانین میں پہلے یہی اُصول تھا جسے شہباز حکومت نے ترمیم کر کے اس عالمی قانون کا پہیہ اُلٹا گھما دیا تھا۔ یعنی اب سرکار کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ یہ اثاثے چوری کے ہیں۔ لیکن اب تو آئی ایم ایف نے اپنی شرائط میں اسے شامل کر لیا ہے۔
وہ خوب جانتے ہیں کہ پاکستانی قوم جو اس قدر مقروض بھی ہے اور پھر بھی غریب ہے تو اس کی وجہ افسران کے ان اثاثہ جات میں چھپی ہوئی ہے۔ وہ ان سرکاری افسران کو گذشتہ چالیس سال سے جانتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ انہوں نے یہ اثاثے کیسے بنائے ہیں۔