پرویز مشرف کی روشن خیالی ایک ایسا زہریلا پودا تھا جس نے اس مملکتِ خداداد پاکستان کے باسیوں کی صدیوں پرانی صنفی اخلاقیات اور معاشرتی حیاء کو آلودہ کر کے رکھ دیا۔ موصوف اپنے عہدِ شباب میں ہی ایسے تمام "اوصاف" کے خوشہ چین تھے، جنہیں عرفِ عام میں سیکولر، لبرل یا مذہب بیزار کہا جاتا ہے۔ مشرف کی ایوانِ صدر میں آمد نے اس گھر کے ماحول کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
ضیاء الحق، غلام اسحاق خان، فاروق لغاری اور رفیق تارڑ تک دو دہائیاں جو عمارت اللہ اکبر کی صدائوں سے گونجتی تھی وہاں سے رقص کے توڑوں اور سرود کے الاپ کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ مشرف کے اس ذاتی میلانِ طبع کو گیارہ ستمبر کے واقعہ نے عالمی پشت پناہی عطا کر دی۔
اس کی جنوری 2002ء کی مشہور تقریر کو نہ صرف دہشت گردی کے خلاف عالمی استعمار کی جنگ کی قیادت کرنے والی طاقت امریکہ نے سرعام سراہا بلکہ یہ پاکستان میں رہنے والے ہر اُس شخص کے دلوں کی آواز بن گئی جو اس ملک کی بنیادوں سے اسلام کے گہرے پودے کو اُکھاڑ پھینکنے کی خواہش دل میں دبائے بیٹھا تھا۔
تاریخ میں جہاں کہیں بھی اسلام پر حملہ کیا گیا تو سب سے پہلے اس کی تہذیبی اخلاقیات اور صنفی اُصول و قواعد کو تباہ کیا گیا۔ اس تہذیبی یلغار کا بنیادی ہتھیار ہمیشہ عورت تھی۔ "ابلیس کی مجلسِ شوریٰ" کے آخر میں ابلیس اپنے خطاب میں اپنے حواریوں کو صرف اور صرف اسلام سے ڈراتے ہوئے متنبہ کرتا ہے۔
عصرِ حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظِ ناموسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں
"مرد آزما" اور "مرد آفریں" کی صفات ہی ہیں جو ایک اسلامی تہذیب میں خواتین کی ناموس اور عزت و حرمت اور عصمت و حیاء کی محافظ ہوتی ہیں۔ اس تہذیبی اساس پر حملہ خواتین کو خوبصورت ترغیبات دلا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایسا نسخہ صرف اسلام کی تہذیب کو تباہ کرنے کے لئے نہیں آزمایا گیا، بلکہ دنیا کی ہر تہذیب کا اخلاقی زوال اور خاندانی نظام کی تباہی نے اسی صنفی بے راہ روی کی کوکھ سے جنم لیا۔
مشرف نے جس طرح نظامِ تعلیم سے لے کر ہر محاذ پر پاکستانی معاشرے کو صرف مغرب زدہ نہیں، بلکہ مغرب پرست بنانے کی بھر پور کوشش کی، اور اس کی ان کوششوں نے مغربی تہذیبی کے جس پودے کو لگایا، اس کی آبیاری اس کے بعد آنے والے دونوں حکمرانوں، آصف علی زرداری اور نواز شریف نے بھر پور طریقے سے کی۔
پیپلز پارٹی کا تو خمیر ہی سیکولر تھا، لیکن نون لیگ چونکہ نئی نئی لبرل خیالات کے حبالۂ عقد میں آئی تھی، اس لئے اس نے پرانے سیکولروں سے بڑھ کر خود کو مغرب پرست ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ان سب کی کوششوں کا نکتہ عروج 2018ء کے سال میں نظر آیا۔ یہ نون لیگ کی "تلچھٹ" شاہد خاقان عباسی کی وزارتِ عظمیٰ کا سال تھا۔ اس سال پاکستان میں اسلامی تہذیبی اخلاقیات پر دو بھر پور حملے ہوئے۔ ایک تو اس سال آٹھ مارچ "عورت مارچ" کا آغاز ہوا۔
یہ مارچ دراصل خواتین کے حقوق نہیں، بلکہ ان کے جنسی میلانات، صنفی جذبات اور اخلاقی پابندیوں سے آزادی کے پرچم اُٹھائے ہوا تھا، جبکہ دوسرا بڑا واقعہ 22 مئی 2018ء کو پیش آیا جب ہم جنس پرستی کو تحفظ دینے کے لئے "ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ" پاس کیا گیا۔ اس دن سے لے کر آج تک ٹرانس جینڈر لوگ ہر عورت مارچ کا جزوِلاینفک چلے آ رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عورت مارچ میں حصہ لینے والوں میں وہ مظلوم مخنث کبھی شامل نہیں ہوتے، جو پیدائشی طور پر اس محرومی کا شکار ہوتے ہیں اور جنہیں عرفِ عام میں خواجہ سراء کہتے ہیں۔
ان لوگوں کو طبّی اصطلاح میں"انٹر سیکس" (intersex) کہا جاتا ہے۔ لیکن اس متنازعہ بل کے لئے ایک عمومی اصطلاح ٹرانس جینڈر استعمال کی گئی تاکہ ہم جنس پرست اس کا حصہ بن سکیں۔ عورت مارچ میں حصہ لینے والے یہی بہروپئے ہوتے ہیں جو دراصل مرد ہوتے ہیں مگر عورتوں کے ملبوس میں خود کو ٹرانس جینڈر ظاہر کرتے ہیں۔
پیدائشی مخنثوں کی تنظیم کی سربراہ الماس بوبی نے ان ہم جنس پرستوں اور ایل جی بی ٹی کے بہروپیوں کا پردہ ہر جگہ چاک کیا ہے۔ اس نے شریعت کورٹ میں خوفناک اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ملک بھر میں خواجہ سرائوں پر آج تک جتنے بھی حملے ہوئے ہیں ان میں سے ایک بھی خواجہ سراء نہیں مارا گیا۔ بلکہ مرنے والوں کی میڈیکل رپورٹس نے ثابت کیا ہے کہ وہ سب کے سب ہم جنس پرست مرد تھے جو خواجہ سرائوں کا روپ دھار کر جسم فروشی کے مکروہ دھندے میں ملوث تھے۔
ٹرانس جینڈر بل کی ساری تیاری بھی مشرف، زرداری اور نواز شریف کے ادوار میں پسِ پردہ اور خاموشی سے ان حقوقِ نسواں کے نام پر کام کرنے والی مقامی اور عالمی این جی اوز کے ذریعے آگے بڑھائی گئی۔ انہی حقوقِ نسواں کی تنظیموں نے ایک ورکنگ گروپ بنایا جو اسمبلی اور سینیٹ میں ہم خیال ممبران سے مل کر خواجہ سرائوں کے حقوق کے نام پر قانون سازی پر کام کرتا رہا اور آخر میں انہوں نے پارلیمنٹ سے ایک ایسا بل منظور کروا لیا جس کے بارے میں ہم جنس پرستوں کے تحفظ کی علمبردار ماہرینِ قانون کی عالمی تنظیم "International Commission of Jurists" نے مارچ 2022ء میں پاکستان کے بارے میں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ "اس بل کے منظور ہونے سے پاکستان اگر دنیا بھر میں نہیں تو اپنے خطے میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے تحفظ میں اہم ترین ملک بن گیا ہے"۔
ہم جنس پرستی کو تحفظ دینے والا ایسا ایکٹ مسلم دنیا میں صرف پاکستان میں ہی منظور کیا جا سکا۔ اسی سال جب عورت مارچ کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر گھوما تو برازیل کے جسم فروشی کے اڈے کی ایک طوائف نے پرتگالی زبان میں جو یہ نعرہ بلند کیا تھا "EU sou UMA Prostituta Orgulhosa; Meu" جس کا انگریزی ترجمہ "A Proud Prostitute: my body my Choices" تھا اور جسے 1980ء میں ایک طوائفوں کے حقوق کی ترجمان گیبریلا لائٹ نے مقبولیت بخشی، اس نعرے کو اُردو میں ترجمہ کر کے "میرا جسم میری مرضی" کے نعرے میں تبدیل کیا گیا اور پھر اسے پاکستان کے عورت مارچ کا بنیادی نعرہ بنا دیا گیا۔ یعنی ایک شخص کے جسم پر نہ اس کے مالک و خالق کا کچھ حق ہے اور نہ ہی اس کے معاشرے کی تہذیب و اخلاقیات اس پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی لگا سکتی ہے۔
اسی "میرا جسم میری مرضی" کےنعرے کی آڑ میں وہ تمام ہم جنس پرست جو پہلے خواجہ سرائوں کے بہروپ میں گھومتے تھے، اب اس عورت مارچ میں دندناتے ہوئے پوسٹر پکڑے نظر آنے لگے۔ اس پانچ سال کے عرصے میں جتنے بھی عورت مارچ ہوئے، ان پر جنسی آزادی اور صنفی بے راہ روی کی فضاء چھائی رہی۔
پاکستان کی پچھہتر سالہ تاریخ میں شاید ہی کسی اور جلوس یا جلسہ میں اتنی گندی زبان میں نعرے لکھے گئے ہوں اور اتنی فحش زبان میں لکھے بینر اُٹھائے گئے ہوں، جتنے فحش نعرے اور تصویری سلوگن عورت مارچ میں ہر سال بلند ہوتے ہیں۔ عورتوں کیلئے صحت، تعلیم، گھریلو تشدد سے آزادی، جائداد میں حصہ اور سیاسی و معاشرتی سرگرمیوں کے حقوق جیسے مسائل سب پسِ پشت ڈال دیئے گئے اور جسم اور صرف جسم کے نعرے ہی گونجتے رہے۔
اس دفعہ عورت مارچ نے خاص طور پر ٹرانس جینڈرز کو اپنا ایجنڈہ بنایا تھا کیونکہ وہ اس متنازعہ ہم جنس پرستی کے قانون "ٹرانس جینڈر ایکٹ" کے تحفظ کے لئے بھر پور کوشش کر رہی ہیں۔ ان کے محبوب ٹیلی ویژن اینکروں نے انہیں اس ہم جنس پرستی کے قوانین کے حق میں نکلنے پر داد دی، سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ کاش! یہ عورت مارچ کے منتظمین اور ٹی وی اینکر اور دانشور، منافقت سے کام لینے کی بجائے کھل کر بتاتے کہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں بس ہم جنس پرستی کا تحفظ چاہتے ہیں۔
گذشتہ چھ سال میں ہونے والے عورت مارچ میں کبھی بھی کسی مظلوم، غریب اور بے آسرا خاتون نے شرکت نہیں کی۔ سب خوشحال گھرانوں کی آسائشوں میں پَلی ہوئی عورتیں نظر آتی ہیں۔ انہیں معاشرتی سطح پر تمام حقوق میسر ہیں، بس جھگڑا صرف جسم کی آزادی کا ہے۔
نوٹ: آج صبح نو بجے فیڈریل شریعت کورٹ اسلام آباد میں ٹرانس جینڈر بل کے خلاف دائر درخواست کی پیشی ہے۔