شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے افغانستان کے بارے میں ایک ایسی حکیمانہ بات کہی ہے جو اس خطے میں موجود تمام ممالک کے لئے ایک رہنماء اُصول کا درجہ رکھتی ہے اور تاریخ اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ اقبالؒ نے فرمایا:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملتِ افغاں در آں پیکر، دل است
از کُشادِ او، کُشادِ آسی
ااز فسادِ او، فسادِ آسیا
"ایشیا پانی اور مٹی میں گندھا ہوا ایک بہت بڑا وجود ہے اور افغانستان اس وجود کا دھڑکتا ہوا دل ہے۔ اگر یہاں امن ہوگا تو پورے ایشیا میں امن ہوگا اور اگر یہاں فساد برپا ہوا تو پورے ایشیا میں فساد برپا ہوگا"۔
تاریخی واقعات سے نچوڑ کی ہوئی اقبالؒ کی اس حکمت کو وہ تمام قوتیں خوب سمجھیں جو اس خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتی تھیں اور ہم انہی طاقتوں کے ہاتھ میں مسلسل کھیلتے رہے، انہی کا آلۂ کار بنتے رہے اور انہی کے مفادات کے لئے اپنے ہی ہم وطنوں کا خون بھی بہاتے رہے۔ ہم نے افغانستان کے لئے ایسی تمام قوتوں کو راستہ دیا جو وہاں مسلسل فساد برپا کئے رکھنا چاہتی تھیں۔
آج پچاس سال کے بعد یہ حقیقت طشت از بام ہو چکی ہے کہ 1973ء میں صدر نکسن اور اس کے مشہور وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اس خطے کے لئے ایک ایسی پالیسی وضع کی تھی جس پر اس کے بعد آج تک مسلسل عمل درآمد کیا جاتا رہا ہے۔ ریسرچ سکالرز اس پالیسی کا نکسن ڈاکٹرین (Doctrines)، یا پھر کسنجر ڈاکٹرین (Doctrine) کے نام سے اپنے تحقیقی مقالوں میں ذکر کرتے ہیں۔ اس ڈاکٹرین یا پالیسی میں لکھا ہے کہ "اگر امریکہ اس خطے میں اپنا اثرورسوخ اور کنٹرول قائم رکھنا چاہتا ہے تو افغانستان، ایران اور پاکستان کو مسلسل پریشان، تباہ حال اور افراتفری کا شکار رکھا جائے"۔
آپ کو امریکہ کے عسکری رسالے "Journal of Cold War Studies" میں ایسے لاتعداد مضامین مل جائیں گے جو 1973ء میں تخلیق کی گئی نکسن یا کسنجر ڈاکٹرین اور اس خطے پر اس کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ پالیسی ایک پُرامن افغانستان میں سردار دائود کے ہاتھوں ظاہر شاہ کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ آج اس واقعہ کو گزرے پچاس سال ہو چکے ہیں اور اس وقت سے افغانستان آگ اور خون کی ایک وادی میں بدل چکا ہے۔ ملا محمد عمرؒ کی حکومت کے پانچ سال ایسے تھے جو امن سے گزرے مگر اس امن کو غارت کرنے کے لئے امریکہ نے اپنی اسی ڈاکٹرین پر عمل درآمد کے لئے دنیا بھر کی قوتوں کو لے کر افغانستان پر حملہ کر دیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب تک برصغیر کے مسلمانوں کا ربط اور رشتہ افغانستان کے جرّی مسلمانوں کے ساتھ قائم رہا، انہیں برصغیر پاک و ہند میں کبھی بھی خوف کی ایک رات تک نہیں گزارنا پڑی۔ متحدہ ہندوستان میں آخری دفعہ 14 جنوری 1761ء کو پانی پت کے میدان میں ایک عظیم معرکہ برپا ہوا۔ ہندو مرہٹہ افواج ہندوستان پر اپنا قبضہ تقریباً مکمل کر چکی تھیں کہ شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو نصرت اور مدد کے لئے خط لکھا اور اس نے سدا شورائو بھائو کی سرکردگی میں پورے ہندوستان سے اکٹھی کی گئی ہندو فوج کا قلع قمع کر دیا۔
افغانستان کے حالات سے اردگرد کے ممالک جن میں ایران، موجودہ تاجکستان اور ازبکستان بھی ہمیشہ متاثر ہوتے رہے ہیں۔ محمود غزنوی نے صرف ہندوستان پر ہی سترہ حملے نہیں کئے بلکہ اس کی سلطنت تہران، اصفہان سے لے کر سمرقند و بخارا تک پھیلی ہوئی تھی جس کا پایۂ تخت بلوچستان سے ملحقہ شہر غزنی تھا۔ اسی طرح نادر شاہ جو افشارِ قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ خراسانِ قدیمی میں پیدا ہوا مگر اس کی سلطنت موجودہ ایران، آذربائیجان، عراق ترکی، ازبکستان، بحرین اور پاکستان سمیت کئی علاقوں پر پھیلی ہوئی تھی۔
برصغیر کا کوئی ایک بھی مسلمان حکمران ایسا نہیں ہے جس نے افغانستان سے یا پھر افغانستان کے راستے یہاں آ کر حکومت نہ قائم کی ہو۔ پورے خطے میں افغانستان ہی ہمیشہ واحد آزاد سرزمین رہا ہے۔ فرانس، برطانیہ، ہالینڈ اور پرتگال کی عالمی نوآبادیاتی طاقتوں نے دنیا بھر کے ملکوں کو اپنا غلام بنا لیا تھا تو ایسے دور میں بھی جب برطانیہ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، افغانستان کی سرزمین پر کبھی بھی برطانیہ کا سورج طلوع نہ ہو سکا۔
ہندوستان پر 1857ء میں یونین جیک کا پرچم لہرانے سے پندرہ سال قبل جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج کی پوری دنیا پر دھاک بیٹھ چکی تھی، انہوں نے طاقت کے نشے میں افغانستان کا رُخ کر لیا۔ پہلے وہاں"رجیم چینج" کا تجربہ کیا گیا جو کامیاب نہ ہو سکا تو کابل پر حملہ کر دیا گیا۔ جنرل الفنسٹون (Alfhinstone) کی سربراہی میں بیس ہزار سپاہی جن میں چھ ہزار گورے اور باقی ہندوستانی تھے، سب کے سب چھ جنوری 1842ء کے دن کابل کی برف پوش وادیوں میں قتل کر دیئے گئے۔
ایک ڈاکٹر کو زندہ چھوڑا گیا تاکہ وہ برطانوی حکمرانوں کو یہ اطلاع پہنچائے کہ اب اس سرزمین کا رُخ کیا تو زیادہ مختلف نتائج نہیں نکلیں گے۔ اس واقعہ کو آج 180 سال بیت چکے ہیں شاید اسی کا انتقام ہے کہ افغانستان کو تباہ حال اور برباد رکھنے کی عالمی طاقتوں کی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورے خطے کا امن و امان بھی تہہ و بالا ہے۔ افغانستان سے سب سے زیادہ اور براہِ راست متاثر ملک پاکستان ہے، وجہ یہ ہے کہ براہِ راست مداخلت کے ذمہ دار بھی ہم ہی رہے ہیں۔
افغانستان کا امن برباد کرتے اور عالمی خواہشات کی تکمیل کا آلۂ کار بنتے ہوئے ہمیں تیس سال ہو چکے ہیں۔ اس تیس سال کے عرصے میں جو قیمت ہمارے عوام نے چکائی ہے وہ المناک ہے۔ اسّی کی دہائی میں ہمارے ہاں افغان ایجنسی "خاد" اور روسی ایجنسی "کے جی بی " مسلسل دھماکے کروایا کرتی تھیں اور ہم یہاں سے مجاہدین کے قافلے تربیت اور اسلحے سے لیس کر کے بھیجا کرتے تھے۔ افغانستان میں امن تھا اور نہ ہی ہمارے ہاں سکون۔
روس 1988ء میں افغانستان سے نکلا تو 2001ء تک 13 سال پاکستان امن کا گہوارہ بنا رہا۔ کوئٹہ کی جناح روڈ اور پشاور کا قصہ خوانی بازار رات گئے تک رنگ و نور میں ڈوبے رہتے۔ گیارہ ستمبر کے بعد ہم پھر عالمی قوتوں کے آلۂ کار بنے اور ہم نے امریکہ کو اپنی سرزمین دے کر اپنا تیرہ سال کا امن برباد کیا اور پھر اگلے بیس سال کی بدامنی، دہشت اور موت خرید لی۔ افغانوں کا تورہ بورہ تو شاید نہ بن سکا مگر ہمارا تورہ بورہ بن گیا، جس کی گرد میں ستر ہزار پاکستانی دفن ہو گئے۔ افغانستان میں اگست 2021ء میں اماراتِ اسلامی کی حکومت آئی تو وہاں امن آ گیا۔
کابل دنیا کا پُرامن ترین شہر بن گیا۔ لیکن 2022ء کا گذشتہ سال ایسا تھا کہ جب اس خطے میں امریکہ نے جن دہشت گرد گروہوں کو اپنی سربراہی میں پالا پوسا اور ٹریننگ دی تھی انہیں سر اُٹھانے پر اُکسایا گیا۔ پاکستان میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا دونوں اطراف سے دہشت گردی کے حملے شروع ہو گئے۔ افغانستان میں اس کا آغاز 22 جنوری کو ہرات میں بس میں دھماکے سے ہوا اور پاکستان میں جنوری میں ہی لاہور اور کیچ ضلع میں دھماکے اور حملے کئے گئے۔ دونوں ممالک کی مساجد پر حملے کئے گئے، دونوں ملکوں میں سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
دسمبر 2022ء میں افغانستان میں ہرات کا دھماکہ اور کابل کے ہوٹل پر دہشت گرد حملے کے تین ہفتے بعد پشاور میں پولیس لائن پر حملہ، یوں لگتا ہے جیسے کوئی ایک ہی قوت ہے جو بیک وقت دونوں ممالک کا امن برباد کرنا چاہتی ہے۔ یہ قوت کونسی ہے؟ یہ کونسی ڈاکٹرین جس پر عمل شروع ہے۔ اگر سمجھنا ہو تو امریکہ کے کولڈ وار جرنل کا مطالعہ سمجھانے کے لئے کافی ہے۔