Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bad Niyati o Bad Dyanti Ka Saal

Bad Niyati o Bad Dyanti Ka Saal

دنیا بھر کے قوانین میں ایک لفظ خاص طور پر استعمال ہوتا ہے جو کسی ملزم، تفتیش کرنے والوں حتیٰ کہ قانون سازی کرنے والوں کے عمومی روّیوں سے کشید کیا گیا ہے۔ اسے انگریزی زبان میں"Mala fide" کہتے ہیں، جس کا اُردو ترجمہ "بدنیتی" ہے۔ اس کی تشریح کے لئے قانونی لغات میں صفحات کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر اسے کسی غلط مقصد، بُری نیت یا دھوکے سے قانون کے استعمال کرنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

میاں بیوی کے مقدس رشتے میں وفاداری اور عصمت و عفت کی نگہداری کو بھی انگریزی زبان میں"Fidelity" کہتے ہیں اور اس کے برعکس دھوکہ، فریب یا بے وفائی کو "infidelity" کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ اسی تصور سے مختص ہے اور دنیا بھر کے ممالک میں جرم و سزاء کی دنیا سے لے کر قانونی سازی کے اداروں تک ہر جگہ استعمال ہوتا ہے۔

آپ کسی بے گناہ شخص کو کسی مقدمے میں پھنسانے کے لئے ایف آئی آر کاٹیں، کسی ایف آئی آر میں اس کا بلا وجہ نام شامل کریں، کسی فرد کو کسی جرم کی سزاء سے بچانے کے لئے تفتیش کا رُخ بددیانتی سے موڑیں، کسی عدالت میں جھوٹے گواہ پیش کریں، گواہوں پر دھونس سے اثرانداز ہوں، ریکارڈ کو کسی مقصد کے لئے تبدیل کریں یا سراسر تلف ہی کر دیں، یہ اور اس طرح کے دیگر کئی اقدامات کو قانون کی زبان میں بددیانتی یا "میلا فائڈ" کہا جاتا ہے۔

یہ تصور صرف جرم و سزاء کی دنیا تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ کار قانون سازی تک پھیلا ہوا ہے۔ مثلاً کسی بھی ملک کی پارلیمنٹ یا حکومت کوئی ایسا قانون بناتی ہے، جس سے کسی خاص گروہ یا فرد کو کسی جرم کی سزاء سے بچانا مقصود ہو یا کسی شخص کو خاص طور پر کسی جرم کا سزاوار ٹھہرانا ہو، ایسے مقصد کے لئے کی جانے والی قانونی سازی کے پورے عمل کو "میلا فائڈ" کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں گزشتہ اپریل سے لے کر موجودہ مارچ تک جو ایک سال گزرا ہے اس میں اگر ہم اپنے نظامِ تفتیش یا نظامِ عدل اور پارلیمنٹ کی قانونی سازی کا جائزہ لیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان کی پچھتر سال کی تاریخ میں اس سال کو خاص طور پر بدنیتی کا سال "Year of Mala fide" کہا جا سکتا ہے۔

اگر ہم اس سال کی مشہور عدالتی کارروائیوں اور لوگوں پر بنائے جانے والے مجرمانہ سیاسی مقدموں کی ایک تاریخ وار فہرست مرتب کریں تو ہمیں ان تمام مقدمات میں ایک چیز مشترک نظر آئے گی اور وہ یہی "میلا فائڈ" ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس سال پاکستان میں قتل و غارت، اغوائ، چوری و ڈکیتی اور دیگر تمام جرائم سرے سے ناپید ہو گئے تھے اور صرف ایک شخص اور اس کی پارٹی کو دہشت گردی، بلوے، قتل، غنڈہ گردی حتیٰ کہ بددیانتی اور کرپشن کے مقدمات میں"گھسیٹنے" کا عمل ہی نظامِ عدل کا منشاء و مقصود بنا دیا گیا تھا۔

اس کی اہم ترین مثال وہ وارنٹ ہیں جو عدالت میں پیشی کو ممکن بنانے کے لئے عدالتیں روزانہ جاری کرتی ہیں اور ایسے سینکڑوں وارنٹ تھانوں میں عموماً پڑے ہوتے ہیں، اور تھانیدار انہیں ایک عام ہرکارے کے ذریعے متعلقہ شخص تک وہ وارنٹ پہنچاتے ہیں اور پھر اس ملزم یا گواہ سے شخصی ضمانت یا کسی اہم فرد کی ضمانت لے کر اس سے ایک تحریر لکھوا لیتے ہیں کہ وہ اس دن عدالت میں حاضر ہو جائے گا۔

یہی طریقہ کار 1898ء سے آج تک تھا، جس دن سے ضابطۂ فوجداری وجود میں آیا ہے۔ لیکن پورے پاکستان کی پولیس اور پیرا ملٹری فورسز یکجان ہو کر ایسے ہی ایک وارنٹ کو لہراتی ہوئی پہلے ایک گھر پر حملہ آور ہوں، بدترین تشدد کریں، پسپائی اختیار کریں اور جب وہ شخص اسی وارنٹ کی تکمیل کے لئے اسلام آباد کی عدالت میں حاضر ہونے گیا ہو تو اس کے گھر پر اتنی ہی طاقت اور قوت سے حملہ آور ہو جائیں۔ یہ واقعہ ایک علامت ہے، اس جیسے تمام اقدامات قانون کی نظر میں بدنیتی پر مبنی تصور ہوتے ہیں جنہیں عرفِ عام میں"میلا فائڈ" کہا جاتا ہے۔

اس بددیانتی یا میلافائڈ کی انتہا قانون سازی ہوتی ہے۔ یعنی ملک میں ایک ایسا قانون بنایا جائے جس کا مقصد اور منشاء کسی خاص شخص یا گروہ کو فائدہ پہنچانا یا کسی خاص شخص یا گروہ کو نقصان پہنچانا مقصود ہو۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے گزشتہ دنوں عدالتی اصلاحات کا ایک ایسا ہی قانون منظور کیا ہے جس کا بنیادی مقصد سپریم کورٹ کے "ازخود نوٹس" کے اختیار کو محدود کرنا ہے۔

یہ الگ بحث ہے کہ کیا یہ قانون سازی پارلیمنٹ کے اختیار میں تھی یا نہیں۔ اس پر دونوں طرف آراء موجود ہیں۔ اس قانون کے پارلیمنٹ میں لانے کے وقت پر بھی بحث ہو سکتی ہے اور اس سے قانون ساز اراکین کی نیت یا بدنیتی کا بھی تعین کیا جا سکتا ہے، لیکن اس قانون کی منظوری کے بعد ایک ترمیمی بل اس کے فوراً بعد ہی انتہائی عجلت میں محسن داوڑ کی طرف سے پیش کروایا گیا۔

اس ترمیم سے یوں لگتا ہے جیسے قانون بناتے وقت یہ نکتہ یا تو قانون سازوں کے ذہن میں ہی نہیں تھا اور بعد میں ایسا سوچا گیا، لیکن بظاہر ایسا نہیں لگتا بلکہ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ قانون بنایا ہی اس مقصد کے لئے گیا تھا کہ اس میں بعد میں کی جانے والی ترمیم شامل کرکے چند مخصوص افراد کو فائدہ پہنچایا جائے۔ ترمیم میں یہ کہا گیا ہے کہ چونکہ اب قانون کے مطابق ازخود نوٹس کے تحت ہونے والے فیصلوں پر اپیل کا حق دے دیا گیا ہے تو پھر اس کا اطلاق ماضی میں کئے گئے فیصلوں پر بھی ہوگا۔ یعنی نواز شریف اور جہانگیر ترین وغیرہ جو ازخود نوٹس کے ذریعے نااہل ہوئے تھے وہ اپیل کرکے خود کو بحال کروا سکتے ہیں۔ اسے قانون کی زبان میں"متعلق بہ زمانۂ گذشتہ") کہتے ہیں۔

انسانوں نے اب تک جتنے بھی قوانین بنائے ہیں ان میں جزاء و سزاء کا تصور قانون بننے کے بعد آئندہ آنے والے زمانے سے ہوتا ہے۔ یہی تصور قانونِ الٰہی کا بھی ہے۔ جس دن شراب، چوری اور زنا کی حرمت کے احکامات آئے تھے، اسی دن کے بعد ہونے والے جرائم پر ہی حدود نافذ کی گئیں تھیں۔ ایسا نہیں ہوا تھا کہ حرمتِ شراب سے پہلے شراب پینے والوں کو بلا کر کوڑے لگائے گئے ہوں۔ یہی عالم قانون کے تحت ملنے والی سزائوں کا ہوتا ہے۔

ایسا نہیں ہو سکتا کہ چونکہ ایک شخص کو پرانے قانون کے تحت سزاء مل چکی ہے تو اسے نئے قانون کے تحت معاف کر دیا جائے۔ لیکن پاکستان کی"معزز اسمبلی" نے ایسا ہی ایک بل منظور کر لیا ہے۔ اس بل کے محرکات میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہر عدالتی سزاء کے بعد ایک اپیل ہوتی ہے، لیکن ازخود نوٹس میں اپیل نہیں ہوتی۔ ازخود نوٹس صرف سپریم کورٹ لیتی ہے اور سپریم کورٹ کے تو کسی بھی فیصلے کے خلاف اپیل نہیں ہو سکتی خواہ وہ ازخود نوٹس والا ہو یا بغیر ازخود نوٹس والا۔

کیا منظور کیا جانے والا قانون دراصل اعلیٰ عدلیہ پر یہ الزام عائد کرتا ہے کہ سپریم کورٹ کے معزز جج حضرات اگر عام پٹیشن سنیں گے تو وہ ایماندارانہ اور نیک نیتی سے فیصلے کریں گے اس لئے عام پٹیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل جائز نہیں لیکن اگر یہی معزز جج حضرات ازخود نوٹس کے تحت کسی کیس کی سماعت کریں گے تو ان سے ضرور لغزش ہوگی، اس لئے ازخود نوٹس کے تحت فیصلے کے خلاف اپیل ضروری ہے۔

یہ ہے وہ قانون سازی جو اس گذشتہ ایک سالہ بدنیتی اور بددیانتی کے موسم کی گئی۔ یہ سال پاکستان کی تاریخ میں بدنیتی و بددیانتی کے سال یعنی "Year of Mala fide" کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.