بلوچستان میں اس وقت سات "نواب" کئی سو "سردار" اور ہزاروں"ٹکری"، "ملک" اور "وڈیرے" بلوچ قبائلی نظام کو ستونوں کی طرح قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ سیاسی لحاظ سے قوم پرست بھی ہیں اور کچھ اسٹیبلشمنٹ پرست۔ نواب خیر بخش مری اور سردار عطاء اللہ مینگل بلوچوں کی قوم پرستانہ سیاست کے سرخیل سمجھے جاتے تھے۔
ان دونوں کے ہمرکاب نواب اکبر بگٹی بھی ہوا کرتے تھے مگر 1974ء میں عطاء اللہ مینگل کی حکومت کے برطرف ہونے کے فوراً بعد جب فوجی ایکشن کی سرپرستی کے لئے وہ گورنر بلوچستان بن گئے تو پورا ملک چاہے انہیں کسی بھی مقام و مرتبہ پر فائز کرے، بلوچ قوم پرست سیاسی حلقوں نے ان پر کبھی اعتبار نہیں کیا۔
یہ الگ بات ہے کہ انہی کی موت کے سانحہ نے بلوچستان میں ایک ایسی چنگاری سُلگائی جس نے قوم پرستانہ سیاست اور مسلح جدوجہد کے تن مردہ میں جان ڈال دی۔ بلوچستان میں آباد پشتونوں کے حصے میں بھی ایک نواب آتا ہے، جسے نواب جوگیزئی کہتے ہیں، لیکن جس طرح پشتون معاشرہ اپنے قدیم قبائلی جال کو بہت حد تک توڑنے میں کامیاب ہو چکا ہے، اس لئے اب پشتونوں میں نواب بس نام کا ہے، وہاں قوم پرست باقی رہ گئے ہیں یا ملّا اور طالب۔
المیہ یہ ہے کہ یہ سب سردار، نواب، ٹکری، ملک اور خان اپنی سیاست و حکومت کے حوالے سے جو بھی کریں، ایک کے ساتھ اپنی وفاداری توڑیں اور دوسرے کے ساتھ قائم کریں، بلوچ قوم کے استحصال کا نعرہ بلند کر کے مراعات لیں، یا پھر اسی نعرے کی وجہ سے جیل کی صعوبتیں اُٹھائیں، جمہوریت، انسانی حقوق، برابری، کیمونزم، انقلاب وغیرہ جیسے عالمی تصورات کا پرچار کریں، لیکن جیسے ہی معاملہ قبائلی نظام اور اس میں نواب اور سردار کی حیثیت، مرتبے اور کنٹرول کا آ جائے گا یہ اپنے تمام اُصول اور سیاسی مقام و مرتبہ کو بالائے طاق رکھ کر اس محدود اور مخصوص قبائلی نظام کا بھر پور دفاع کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے کھیتران قبیلے کے سردار اور صوبائی وزیر عبدالرحمن کھیتران پر یہ الزام لگا کہ اس نے اپنے نجی عقوبت خانے میں ایک خاندان کی عورتوں اور بچوں کو رکھا ہوا ہے اور ان پر بدترین تشدد کرنے کے علاوہ خواتین سے جنسی زیادتی بھی کی جاتی ہے۔ یہ خاندان کوہلو کے رہائشی خان محمد مری کا تھا جو اسی سردار کھیتران کے ساتھ کام کرتا تھا۔
ایک قبائلی جھگڑے کی وجہ سے سردار عبدالرحمن کے گھر چھاپہ پڑا اور سردار کے ساتھ خان محمد مری کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ سردار نے اس پر اپنا جرم بھی تھوپ دیا اور اس کو اپنے مخالف بیٹے کے خلاف گواہی دینے پر مجبور کیا۔ لیکن اس گواہی سے انکار کی وجہ سے خان محمد مری کے چھ بچوں، ایک بچی اور ایک بیوی کو اُٹھا لیا گیا اور اسے نجی جیل میں رکھا گیا۔
یہ 2019ء کا واقعہ ہے۔ یہ آٹھ افراد چار سال سے بلوچ قبائلی نظام کے "لاپتہ افراد" تھے جن کی اس چار سال کے عرصے میں نہ تو کوئی شنوائی ہو سکی اور نہ ہی یہ خبر منظر عام پر آئی۔ ان کا نام لاپتہ افراد کی کسی لسٹ میں بھی شامل نہ کیا گیا اور نہ ہی ان کی رہائی کے لئے کوئی تحریک چلی۔ کچھ عرصہ پہلے خان محمد مری کی بیوی "گران نواز" نے موبائل سے ایک ویڈیو بنائی جس میں وہ قرآن ہاتھ میں لے کر فریاد کر رہی تھی کہ اسے اور اس کے بچوں کو سردار عبدالرحمن کھیتران کی جیل سے نکالا جائے۔
یہ ویڈیو ابھی ملک میں پھیلی بھی نہیں تھی کہ عبدالرحمن کھیتران کے گھر کے قریب ایک کنویں سے تین لاشیں برآمد ہوئیں جن میں سے ایک اسی خاتون کی لاش تھی جس نے قرآن ہاتھ میں پکڑ کر پوری قوم سے فریاد کی تھی۔ اس واقعے نے پوری قوم کو دہلا کر رکھ دیا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک بلوچستان کے کسی قوم پرست سردار، نواب یا اسٹیبلشمنٹ کے حامی سردار اور نواب میں سے کسی فرد کا مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔
سیاسی لاپتہ افراد کا تو سب کو علم ہوتا ہے کہ وہ کن کے پاس ہیں لوگ ان اداروں کا نام بھی لیتے ہیں مگر ان "قبائلی لاپتہ افراد" کا بھی سب کو پتہ ہے کہ وہ کس سردار کے پاس ہیں مگر کوئی زبان نہیں کھولتا۔ اس لئے کہ بلوچ معاشرے میں یہ سردار اور نواب، ملک اور ٹکری سب کے سب ایسے ہی جرائم میں خود ملوث ہیں۔
صدیوں سے ان سرداروں کو قبائلی روایات نے نجی جیلیں بنانے، لوگوں کو حراست میں رکھ کر تشدد کرنے اور پھر لاپتہ کر دینے کے لامحدود اختیارات حاصل رہے ہیں اور آج بھی وہ ان اختیارات کا بے محابہ استعمال کر رہے ہیں۔ یوں تو بلوچ معاشرے میں نواب اور سردار خاصے جمہوری ہوتے ہیں اور جرگے کی عمومی کارروائی قبائلی نظامِ انصاف کے مطابق خاصی بہتر ہوتی ہے لیکن جو آمرانہ اختیارات بلوچ معاشرے میں کلّی طور پر سردار کو حاصل ہیں وہ خوفناک اور ظالمانہ ہیں۔ وہ اپنی دستار بچانے اور ذاتی دشمنی نبھانے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔
سردار کا ظالمانہ اختیار نچلی سطح پر ملک اور ٹکری وغیرہ بھی اپنی بساط کے مطابق بھر پور استعمال کرتے ہیں اور ان کے ظالمانہ فیصلوں کے خلاف بھی کوئی چوں چرا نہیں کرتا۔ جو جتنا کمزور ہوگا، اتنا ہی زیادہ مظلوم ہوگا۔ سبّی میں جن دنوں میں ڈپٹی کمشنر تھا تو ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ ڈاکٹر صدیق بگٹی وہاں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر تھا۔ یہ ڈاکٹر ایک خدا کا خوف رکھنے والا عبادت گزار اور دلیر بلوچ تھا۔ اس کے زیر انتظام مری قبیلے کے علاقے کٹ منڈائی میں ایک ڈسپنسری تھی۔
ڈسپنسری پر جو درجہ چہارم کے ملازم ہوتے ہیں وہ عموماً خاندانی طور پر چلے آتے ہیں۔ چوکیدار، چپراسی اور خاکروب کے مرنے پر ان کی اولاد میں سے ہی کوئی اپنے باپ کی جگہ پر تعینات کیا جاتا ہے۔ اس ڈسپنسری کا خاکروب انتقال کر گیا۔ وہ پارٹ ٹائم کام کرتا تھا لیکن سرکار نے اس کی موت سے چند دن پہلے ہی اس ڈسپنسری کے لئے مستقل خاکروب کی آسامی نکال دی۔ اس مستقل آسامی پر کٹ منڈائی کے ایک وڈیرے کی نظریں للچائیں اور وہ ڈاکٹر صدیق بگٹی کے پاس گیا اور اسے کہا کہ یہ پوسٹ ہمیں دے دو۔
ڈاکٹر بگٹی نے انکار کیا اور اسے کہا کہ یہ اس کے بیٹے کا حق ہے اور کیا تم مری لوگ اب خاکروب کا کام کرو گے؟ وڈیرے نے کہا کام وہی کرے گا اور ہم اسے تھوڑے سے پیسے دے دیا کریں گے۔ وڈیرہ اُٹھ کر چلا گیا اور کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ وہ کیسے یہ نوکری لیتا ہے۔ اس کے شیطانی دماغ میں ایک ترکیب آئی جسے بلوچ روایات کی منظوری حاصل تھی۔ اس نے اپنی ایک پچھہتر سالہ بوڑھی عورت پر الزام لگایا کہ وہ اس خاکروب کے بیٹے کے ساتھ تعلقات رکھتی ہے اور پھر اسے "کاری" کر کے قتل کر دیا اور اس کے بعد روایت کے مطابق اس معصوم نوجوان کو بھی قتل کر دیا۔
دونوں کو قتل کرنے کے بعد وہ وڈیرہ ڈاکٹر صدیق بگٹی کے پاس پہنچا اور کہا، بتائو ڈاکٹر صاحب اب پوسٹ ہماری ہوئی یا کچھ اور چاہئے۔ (جاری ہے)