مستونگ وہ ضلع ہے جو ہمیشہ سے نہ صرف ریاستِ قلات، بلکہ پوری بلوچ سیاست کا مرکز و محور رہا ہے۔ ریاستِ قلات کے دونوں مرکزی حصے، ساراوان اور جھالاوان، میں براہوی قبائل کی اکثریت آباد ہے۔ براہوی قوم نسلی اعتبار سے بھی اور اپنی زبان کے حوالے سے بھی برصغیر کی قدیم ترین دراوڑ اقوام میں سے سمجھی جاتی ہے۔
دراوڑ اقوام وہ ہیں جو اس خطے میں آریائوں اور دیگر قوموں کی آمد سے پہلے یہاں آباد تھیں اور جنہیں فاتحین نے ہندوستان کے جنوبی خطوں کی جانب دھکیل دیا گیا تھا۔ براہوی خوش قسمت تھے کہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ بلوچوں کے ساتھ رہتے رہتے براہوی بھی اب بلوچ کلچر کا مکمل حصہ بن چکے ہیں اور ان کے ہاں بھی بلوچوں والی ساری خوبیاں اور خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ مستونگ وہ ضلع ہے جو دو نواب، شاھوانی اور رئیسانی اور کئی سردار جن میں بنگلزئی، محمد شہی، کُرد اور ساتکزئی وغیرہ کا مسکن ہے۔
یہ 1992ء کا سال تھا جب مستونگ نیا ضلع بنا تو اس کے پہلے ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے میری وہاں تعیناتی ہوئی۔ کسی بروہی علاقے میں یہ میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ بالکل آغاز میں ہی مجھے ایک ایسے واقعے کا سامنا کرنا پڑا جس کو یاد کرتا ہوں تو اس کی کیفیت مجھے آج بھی لرزا دیتی ہے۔ میرے اسسٹنٹ کمشنر ساجد یوسفانی نے مجھے بتایا کہ دشت کے علاقے میں ایک گائوں کے لوگ ایک تیرہ سالہ بچی کو "کاری" کر کے مارنا چاہتے ہیں۔
جب میں اور ساجد لیویز کے ساتھ وہاں پہنچے تو وہاں ایک خوفناک منظر تھا۔ ایک چھوٹے سے کچے گھر کو پورے قبیلے نے گھیرا ہوا تھا اور وہ اندر محصور ماں بیٹی کو باہر آنے کی آوازیں لگا رہے تھے اور ساتھ دروازے کو زور زور سے ٹُھڈے مار رہے تھے۔ لیویز نے ہجوم کو ہٹایا اور ہمیں دروازے تک پہنچایا۔
ہمارے کہنے پر بھی دروازہ نہ کھلا تو اسے مجبوراً توڑنا پڑا۔ اندر داخل ہوئے تو ایک تیرہ سالہ سہمی ہوئی بچی اپنی ماں سے لپٹی خوفزدہ نظروں سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ بچی کی برآمدگی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اسے کہاں رکھا جائے۔ دارالامان نام کی چڑیا سے قبائلی معاشرہ تو واقف نہیں تھا، عموماً ایسی خواتین کو سپرداری پر کسی نواب یا سردار کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جس کے گھر میں وہ ایک نوکرانی بن کر زندگی گزارتی ہے البتہ وہ موت کے خوف سے آزاد ضرور ہو جاتی ہے۔ اس معاملے میں سب سے حیران کن رواج مری قبیلے کا ہے۔
اگر کسی مری عورت پر "کاری" ہونے کا الزام لگے اور وہ قتل ہونے سے پہلے بھاگ کر نواب کے گھر پہنچ جائے تو اسے امان مل جاتی ہے، لیکن نواب اسے اپنے پاس نہیں رکھتا، بلکہ اسے عمومی طور پر سندھ میں بیچ دیا جاتا ہے۔ اس "فروخت" سے حاصل ہونے والی آمدن میں آدھا حصہ نواب کو ملتا ہے اور باقی آدھا لڑکی کے والدین کے حصے میں آتا ہے۔
سپرداری پر دی گئی یا جان بچا کر بھاگی ہوئی ایسی بے شمار عورتوں سے سرداروں، نوابوں، ملکوں اور وڈیروں کے گھرانے آباد ہیں۔ یہ عورتیں دراصل وہ قیدی ہیں جنہیں آج کی جدید قانونی اصطلاحات میں"ملامت زدہ قیدی" (Condemned Prisoner) کہا جاتا ہے اور جنہیں عوامی غیظ و غضب سے بچانے کے لئے حفاظتی قید (Protective Custody) میں رکھا جاتا ہے۔
جس طرح کی ذاتی جیلیں اور عقوبت خانے آپ کو بلوچستان کے بلوچ معاشرے میں ملتے ہیں، ویسے کسی دوسرے خطے میں بالکل نظر نہیں آئیں گے، یہاں تک کہ ان کے شانہ بشانہ اور بالکل پڑوس میں رہنے والے پشتون قبائل جو کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، ژہوب، لورالائی اور قلعہ سیف اللہ کے اضلاع میں آباد ہیں، ان میں بھی اس طرح کی نجی جیلیں اب نظر نہیں آتیں۔
تاریخی طور پر ایسی جیلیں نہ صرف برصغیر پاک و ہند، بلکہ دنیا کے ہر خطے میں موجود تھیں کیونکہ دنیا بھر میں قبائلی نظام تھا اور ریاست جیسا ادارہ بھی وجود میں نہیں آیا تھا۔ اگر کسی نے ہنزہ میں بلتت فورٹ دیکھا ہو تو اس کے اندر ایک قید خانہ ہے جو والئی بلتستان کی خواب گاہ کے ساتھ ایک کمرے میں زیرِ زمین بنایا گیا ہے جس کی چھت پر سلاخوں کا جنگلہ لگا ہوا ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے زمین کھود کر ایک مرغیوں کا ٹھکانہ بنایا جائے اور اس پر جالی لگا دی جائے۔ ایسی ہی ذاتی جیلوں کا سراغ تاریخ اور آثارِ قدیمہ میں ہر جگہ ملتا ہے۔ لیکن ریاست کے تصور کے زور پکڑنے، پہلے بڑی بادشاہتوں اور پھر قومی ریاستوں کے وجود میں آنے سے چونکہ امنِ عامہ اور انصاف اب ریاست کی ذمہ داری بن گئے تھے، اس لئے عدالتیں، سزائیں، جیل اور قید وغیرہ سب ریاست اور حکومت کے دائرۂ اختیار میں چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح ہندوستان کے باقی علاقوں میں بھی سرداروں، وڈیروں، نوابوں اور خانوں کی ذاتی جیلیں ختم ہوگئیں۔
بلوچستان میں ایسا کیوں ہے کہ ابھی تک سردار اس قدر طاقت ور ہے کہ ایک آئینی حکومت کی موجودگی میں بھی ایسی ذاتی جیلیں رکھتے ہیں اور ان جیلوں کو نہ صرف قبیلہ بلکہ پورا بلوچ معاشرہ خاموشی سے قبول کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ انگریز استعماری حکومت کا اس خطے کے ساتھ روّیہ ہے۔
برصغیر پاک و ہند کے تمام علاقے انگریز نے لڑ کر فتح کئے اور وہاں اپنا نظامِ انصاف و قانون ضابطۂ فوجداری، تعزیراتِ ہند اور ضابطۂ دیوانی کی صورت میں نافذ کیا۔ لیکن بلوچستان میں رابرٹ سنڈیمن کی فاروڈ پالیسی میں تاجِ برطانیہ نے سرداروں کو اقتدار میں اپنا حصے دار بنا کر بلوچستان میں اپنے اقتدار کو مستحکم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں نہ عدالتیں قائم ہوئیں اور نہ ہی پولیس کے تھانے۔
یہاں تعزیراتِ ہند، ضابطۂ فوجداری اور ضابطۂ دیوانی کا بھی نفاذ نہیں کیا گیا۔ اس کی بجائے فیصلے کے لئے قدیم جرگہ سسٹم کو ہی حکومتی تحفظ دے دیا گیا اور حکومت کی طرف سے اپنے علاقے میں ایک نواب یا سردار ہر طرح کے جرم پر قابو پانے اور جرگے کے ذریعے انصاف فراہم کرنے کا ذمہ دار بنا دیا گیا۔ اسے مزید مضبوط اور طاقت ور بنانے کے لئے اسی کے قبیلے سے لیویز کے سپاہی بھرتی کئے گئے، انہیں تنخواہ حکومت دیتی، لیکن وہ سردار اور ڈپٹی کمشنر دونوں کے مشترکہ ملازم ہوتے۔
تمام سردار اور نواب لیویز فورس میں کوئی نہ کوئی عہدہ ضرور رکھتے۔ اسی حال میں انگریز کی حکمرانی کی ایک صدی بیتی، پاکستان بن گیا، پورے ملک میں تعزیراتِ پاکستان کا پھریرا لہرایا لیکن بلوچستان میں جرگہ اور سردار ہی قائم رہے۔ ایوب خان نے 1968ء کے آرڈیننس سے اس کی شکل تھوڑی سی بدلی مگر سردار کی سرداری مقدم ہی رہی۔ 1973ء کے الیکشنوں نے سرداری نظام کو ایک دفعہ ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن بھٹو کی ذاتی انّا اور عالمی حالات کے تحت بلوچستان میں آرمی ایکشن شروع ہوا تو عام بلوچ مرغی کے چوزوں کی طرح سرداروں کے پروں تلے جا بیٹھا۔
بھٹو گیا تو ضیاء الحق سے لے کر موجودہ دور تک ہر کسی نے بلوچستان پر حکومت کرنے کے لئے سردار کا کندھا ہی استعمال کیا، اسے ریاستی طاقت کے ساتھ مضبوط کیا۔ آج جو سردار یا نواب ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں وہ بھی اور وہ سردار اور نواب جو ریاست کے مخالف برسرِ پیکار ہیں وہ بھی اس سسٹم کے لاڈلے ہیں۔ جو ریاست کے مخالف ہیں ان کی طاقت ان کا قبیلہ ہے اس لئے وہ قبیلے پر اپنا غلبہ چاہتے ہیں اور جو ریاست کے حق میں ہیں وہ اسی قبائلی قوت کی بنیاد پر ریاست کو بلیک میل کر کے مزید مراعات لیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عبدالرحمن کھیتران کی جیل میں قید مظلوم ہوں یا کسی اور سردار یا نواب کے عقوبت خانے میں بند افراد، کوئی سردار، نواب، وڈیرہ، ملک اور خان اس ظلم پر کبھی آواز بلند نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سیاسی میدان کے کتنے بڑے نام ہیں جو سب کے سب چُپ ہیں، دَم بخود ہیں۔ (ختم شد)