آج سے ٹھیک پچاس سال قبل 7مارچ 1971ء کو رمناریس کورس گراؤنڈ ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمٰن نے 19منٹ طویل تقریرکے دوران سول نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے پانچ اعلانات کیئے۔ (1)لوگ ٹیکس ادا نہ کریں، (2) سرکاری ملازمین شیخ مجیب الرحمٰن سے احکامات وصول کریں، (3) مشرقی پاکستان کی سیکرٹریٹ، تمام سرکاری ادارے اور عدالتیں ہڑتال پر چلی جائیں، (4) ٹیلی فون صرف لوکل کالیں ملائیں اور(5) بندرگاہیں اور ریلوے کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے سے تعاون نہ کریں۔ تقریر کے آخر میں اس نے بنگلہ دیش کا پرچم لہراتے ہوئے کہا، اس دفعہ ہماری جدوجہد خودمختاری کے لیے نہیں بلکہ آزادی کے لیے ہے۔ مجیب الرحمٰن کی یہ تقریر یونیسکو کی عالمی یاداشتوں کے رجسٹر (Memory Of World Register) میں محفوظ ہے۔"اگرتلہ سازش" کیس میں شیخ مجیب پر غداری اور بھارت کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کا مقدمہ 1968ء میں چلنا شروع ہوا تھااور اس وقت سے پورے ملک میں اس پر گفتگو جاری تھی۔ پاکستان کا محدود کیمونسٹ بھارت نواز دانشور اسے ایک جھوٹا مقدمہ کہتا تھا اور اسے فوج اور ایوب خان کی سازش گردانتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر تلہ کے 35ملزمان میں سے اہم ملزم شوکت علی نے 22فروری 2011ء کو پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ" اگر تلہ غداری" کیس کا ایک ایک حرف سچ ہے۔ اس نے بتایا کہ ریاست تریپورہ کے شہر "اگرتلہ" میں شیخ مجیب اور ہم بھارتی اہلکاروں سے ملے تھے اور ان کے ساتھ مل کر ہم نے بنگلہ دیش کی آزادی کا پلان بنایا اور ہر طرح کی مدد بھی حاصل کی تھی۔
مجیب الرحمٰن کے متنازعہ چھ نکات، اسکا قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں بلائے جانے پر اصرار اور ذوالفقار علی بھٹو کا لاہورکے جلسے میں یہ اعلان کہ "جو رکن اسمبلی بھی ڈھاکہ جائے گا، میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا"، یہ تھی وہ فضا جس میں 25مارچ 1971ء کو شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو کے یحییٰ خان کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوگئے۔ پورا مشرقی پاکستان اسوقت سول نافرمانی اور احتجاج میں ڈوبا تھا اور مکتی باہنی لوگوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے لیے مکمل تیار تھی۔ ٹھیک ان حالات میں اس دن شیخ مجیب الرحمٰن کے گھر میں بنگلہ دیش کی آزادی کا ڈیکلریشن جاری کر دیاگیا۔ اگلے دن یعنی 26مارچ کی خبروں میں تین اہم خبریں ایک ساتھ نمایاں تھیں۔ انتقالِ اقتدار کے مذاکرات کی ناکامی، سول نافرمانی روکنے کے لیے فوج کا آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز اور عوامی لیگ کی جانب سے آزادی کے ڈیکلریشن کا اعلان۔ 25مارچ سے 16دسمبر 1971ء یعنی سقوطِ ڈھاکہ تک کی ایک خونچکاں تاریخ ہے۔ لیکن اس تاریخ کی سب سے بڑی گواہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا وہ اعتراف اور انکشاف ہے جو اس نے 25مئی 2018ء کو ڈھاکہ میں بنگلہ دیش بھون کے افتتاح پر تقریر میں کیا تھا کہ "پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک میں بھارت کی فوج نے بنگالیوں کا ساتھ دیا"۔
سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کی پچاس سالہ تاریخ نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے۔ بہت کچھ کہنے سننے کو ہے لیکن اس تاریخ کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک ایک بنگلہ قومیت، ایک بنگلہ ثقافت اور ایک بنگالی زبان کے نعرے کی بنیاد پر چلائی گئی تھی، لیکن جیسے انہیں آزادی ملی، بیچارے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کا مسلمان ہونے کا "داغ"اسقدر نمایاں تھا کہ وہ کٹر ہندو جو تقسیم ہند کو دھرتی ماتا کے ٹکڑے کرنے پر تعبیرکیا کرتے تھے اور وہ جو ایک "ھندوتوا" کے نعرے بلند کیا کرتے تھے انہوں نے بھی بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو "ملیچھ" یعنی پلید مسلمان کہتے ہوئے بھارت کا حصہ نہ بنایا، بلکہ ایک علیحدہ ملک "بنگلہ دیش " کی شناخت دے دی۔ آج بھارت میں رہنے والے بنگالی تو بنگالی کہلاتے ہیں اور بنگلہ دیش میں رہنے والے مسلمانوں کو مضحکہ خیز طور پر "بنگلہ دیشی" کہا جاتا ہے۔ ان دونوں قومیتوں میں صرف ایک لا الہ الا للہ کا فرق ہے۔ سچ یہ ہے کہ دسمبر 1971ء میں ایک اور ملک دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔ مسلم شناخت نے اکھنڈ بھارت سے ایک اور وطن تخلیق کیا تھا۔ آج پچاس سال بعد جب 25مارچ کے دن کو منانے کے لیے حسینہ واجد حکومت نے نریندر مودی کو ڈھاکہ بلایا تو ملک میں گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔
حسینہ واجد کی حکومت، جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو 1971ء کے حوالے سے پھانسیاں دے کر یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ بھارت سے محبت کا جلا ہوا درخت دوبارہ ہرا کیا جا سکے گا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ گذشتہ جمعہ کی نماز کے بعد بیت المکرم سے جو جلوس برآمد ہوا اس کی تعداد کی کثرت اور نعروں کے غصے نے دنیا کو حیران کرکے رکھ دیا۔ ہجوم نعرہ زن تھا کہ اگر نریندر مودی ڈھاکہ آیا تو پھر ہم سب دہشت گرد بن جائیں گے، پورا بنگال افغانستان بن جائے گا۔ مودی دہشت گرد ہے، اس نے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا ہے۔ غصے میں بپھرا ہجوم بھارت کے پرچم کو پاؤں تلے روندتا رہااور کہتا رہا ہم رسول اللہ ﷺ کا لشکر ہیں۔ اسوقت نریندر مودی اور بھارت کے خلاف غم و غصہ کی اس لہر اور عوامی احتجاج نے بنگلہ دیش میں ایک تحریک کی شکل اختیار کر رکھی ہے۔ عموماًیہ سمجھا جا رہا تھا مذہب کو جمہوری سیاست سے قانونی طور پر نکالنے کے بعد، اب مذہبی طبقہ مکمل طور پر دب چکا ہو گا۔ لیکن جمہوری سیاست سے مذہب کو قانوناً نکالنے کے بعد بنگلہ دیش میں دو نعرے بہت مقبول ہوئے۔ ایک "ہمیں جمہوریت نہیں بلکہ خلافت چاہیے " اور دوسرا "غزوہ ہند"۔
دنیا بھر کی تاریخ شاہد ہے کہ جب قوم بیدار ہوجائے تو اللہ اسے لیڈرضرور عطا کر دیتا ہے۔ اس وقت پورے بنگلہ دیش میں لاکھوں افراد کے جلوسوں اور جلسوں میں عوام کو خلافت کے قیام اور غزوہ ہند کے نعروں سے پرجوش ولولہ انگیز تقریروں سے گرمانے والی ایک شخصیت "علامہ مامون الحق" پورے بنگلہ دیش میں مقبول ہو چکی ہے۔ یہ شخص جامعہ رحمانیہ سے قرآن، حدیث اور فقہ کا عالم ہے۔ اس نے معاشیات میں ڈگری حاصل کی اور ایشیئن یونیورسٹی ڈھاکہ میں اکنامکس کا پروفیسر رہاہے۔ ایک صحافی کی حیثیت سے ماہنامہ رحمانی پیغام کا ایڈیٹر ہے۔ یہ شخص پانچ زبانوں پر دسترس رکھتا ہے۔ اس رہنما نے سیکولرازم، الحاد اور سوشل میڈیا پر توہین کے خلاف ایک پھرپور تحریک چلائی تھی۔ اس نے بابری مسجد کے انہدام کے بعد بنگلہ دیش میں ایک بابری مسجد بنائی۔ بنگلہ دیش عوامی لیگ سمیت 65 سیکولر سیاسی تنظیموں اور پارٹیوں نے اس کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنایا اور مطالبہ کیا کہ اسے گرفتار کر کے پھانسی دی جائے۔ لیکن اس کی عوام میں مقبولیت سے حکومت ہمیشہ خوفزہ رہی۔ یہ نابغہ روزگار شخص، دس اکتوبر 2020ء سے "بنگلہ دیشِ خلافت مجلس" کا سیکرٹری جنرل ہے اور 2010ء میں توہین رسالت و اسلام کے خلاف بننے والے اتحاد "حفاظت ِ اسلام بنگلہ دیش" کا جائنٹ سیکرٹری جنرل ہے۔ اس کی شعلہ بیانی کی وجہ سے لاکھوں لوگ اس کے جلسوں میں کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس نے نریندر مودی کی آمد سے پہلے جمعہ کے دن جو تقریر کی ہے اس میں سوائے جہاد کے کوئی اور تصور اور خیال نظر نہیں آتاتھا۔
وہ جب لوگوں سے کہتا ہے کہ آپ رسول اکرم ﷺ کی غزوہ ہند کی پیش گوئی والے جہاد کے لیے تیار ہو تو پورا ہجوم یک زبان ہو کر اس کا ساتھ دیتا ہے۔ اس نے کہا اس وقت صرف بنگلہ دیش کے 5کروڑ مسلمانوں، بھارت کے 25کروڑ، پاکستان کے 20کروڑ اور امت کے ایک ارب مسلمانوں کے خلاف سازش کا مرکز صرف بھارت اوردلّی ہے۔ اس نے کہا کہ اب وقت آگیاہے ہم میں سے ہر کوئی محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی اور شہاب الدین غوری بن جائے۔ اپنی تقریروں میں اس نے بار بار کہاکہ غزوہ ہند کا دروازہ نریندور مودی نے کھول دیا ہے اور اب اس میں مسلمان فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے اور یہ سید الانبیاء ﷺ کی پیش گوئی ہے جس کے درست ثابت ہونے کے دن آگئے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے سے مسلمان اس جہاد میں شرکت کریں گے اور مشرق سے بنگلہ دیش دنیا کے مسلمان کے شانہ بشانہ بھارت پر حملہ آور ہوگا۔ اس کی تقریر سننے کے بعد ایک دم اندرا گاندھی یاد آگئی جس نے 1971ء میں کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا۔ لیکن اللہ کے شیروں نے اسی خلیج بنگال سے دو قومی نظریہ "غزوہ ہند" کے نعروں سمیت باہر نکال کر زندہ کر دیا۔