جن لوگوں کی سیاسی بساط اس قدر کمزور تھی کہ وہ چالیس دنوں میں ایک دفعہ پٹرول کی قیمت بڑھانے کی جرأت نہیں کر پائے، انہیں ایک ایسی حکومت کو گرا کر پاکستان کی باگ ڈور پکڑائی گئی جس نے گذشتہ چھ ماہ میں 54 روپے پٹرول کی قیمت بڑھانے اور غیر مقبول فیصلے کرنے کا خطرہ مول لیا تھا۔ تیس سال کا تجربہ رکھنے والی "شہباز شریف جمع زرداری حکومت"، جب آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لے کر پہنچی تو انہوں نے کشکول کی سمت دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔
نہ کوئی وعدہ فردا اور نہ کوئی اُمید و دلاسہ۔ کہا گیا، جائو اور اپنے عوام کی مزید کھال کھینچو، بوٹیاں نوچو اور ان تمام بینکوں اور قرضہ دینے والے اداروں کا قرضہ واپس کرنے کا بندوبست کرو۔ جب تمہارے دامن میں عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر اتنے پیسے ہو جائیں کہ تم قرضے کی قسط ادا کرنے کے قابل ہو جائو، تو پھر تم اپنا بھکاریوں والا چہرہ ہمارے سامنے لانا۔ ہم تمہاری درخواست پر غور کریں گے۔
آئی ایم ایف پاکستان کو جو رقم دیتا ہے اس میں سے ایک ڈالر بھی خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ رقم ایک ضمانت کے طور پاکستان کے سٹیٹ بینک میں پڑی رہتی ہے۔ حکومت لوگوں پر ٹیکس لگا کر، بیرون ملک پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے ڈالروں کو اکٹھا کر کے اور برآمدات سے ملنے والے زرِمبادلہ کو ملا کر ان تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کے قرضے کی قسط ادا کرتی رہتی ہے، جن سے حکومتوں نے اپنی عیاشیوں کے لئے قرض لے رکھا ہے۔
یہ رقم اس لئے پڑی ہوتی ہے تاکہ یہ تمام بڑے بڑے بینک اور مالیاتی ادارے اس بات سے بے فکر ہو جائیں کہ ان کا سرمایہ کہیں ڈوب جائے گا۔ اسے آئی ایم ایف کا ساختمانی تطبیق (Structural adjustment programs) کہتے ہیں۔ یعنی ایک ایسا پروگرام جس کے تحت حکومتوں کے معاشی اور سیاسی ڈھانچوں کو قرض خواہ کی ضرورتوں کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔
کسی بھی ملک کو سرمایہ فراہم کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے تین مقاصد اور اہداف ہوتے ہیں: پہلا یہ کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حکومت نے جو قرضے لئے ہوئے ہیں انہیں واپس کرے گی۔ دوسرا یہ کہ معیشت کو حکومتی جکڑ بندیوں سے آزاد کرایا جائے اور عالمی منڈی میں موجود سرمایہ داروں کو اس ملک کے وسائل سے کھل کھیلنے کے مواقع فراہم کئے جائیں اور تیسرا لیکن سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ ملکوں کو پہلے سے لئے گئے قرضوں کی دلدل سے نکالے بغیر، دُنیا کے بینکوں سے مزید قرض لینے کے لئے راستہ ہموار کیا جائے تاکہ یہ مزید قرض کی دلدل میں پھنس جائیں۔
آئی ایم ایف ان پاکستانی حکمرانوں کو خوب پہچانتا ہے۔ وہ ان چہروں کو تواتر کے ساتھ 1988ء سے دیکھتا چلا آیا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ جب بھی عموماً سیاسی حکومتیں برسراقتدار آتی ہیں تو وہ اپنی تعیش اور اللّے تللّوں کے لئے قرض پر قرض لیتی جاتی ہیں اور اپنے سرمایہ دار سیاسی ڈونرز کو خوش رکھنے کے لئے ان پر کسی قسم کا سخت ٹیکس لگانے کی بجائے، مزید قرضہ لیتی ہیں، جو قسط کے طور پر عوام ادا کرتے ہیں۔
ان ٹوڈی اور کاسہ لیس حکومتوں کو عالمی مالیاتی فنڈ کے "گماشتے" جنہیں "Economic Hitman" کہا جاتا ہے وہ مسلسل شیشے میں اُتارتے رہتے ہیں۔ یہ "گماشتے" ایسے تمام ممالک میں جاتے ہیں، جن کے پاس معدنیات کے خزانے اور زرعی زمینیں ہوتی ہیں، مگر وہاں پر حکمران بددیانت اور کرپٹ ہوتے ہیں، جن کو رشوت، کک بیک اور بیرون ملک اثاثوں کا لالچ دے کر وہ ان سے ایسے بڑے بڑے منصوبوں کے لئے قرضے منظور کرواتے ہیں، جن کی انہیں بالکل ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی اہم ترین مثال موٹر وے ہے۔
موٹر وے اس مقصد کے لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ کھیتوں کی پیداوار اور صنعتوں کا سامان باآسانی منڈیوں تک پہنچے یا پھر معدنیات کو نکال کر بیرون ملک یا اندرون ملک بھیجا جائے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ نہ تو مزید صنعتیں لگانے کے لئے قرضہ لیا جاتا ہے اور نہ ہی معدنی وسائل کو استعمال کرنے کے لئے اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے قرض حاصل کیا جاتا ہے۔ صرف موٹر وے بنائی جاتی ہے جس کے بنانے کے لئے جو عالمی کمپنیاں پاکستان آتی ہیں، سارے کا سارا قرضہ واپس کما کر اپنے ملک لے جاتی ہیں۔
آج بھی ہمارے پہلے موٹر وے کے چار سو کلو میٹر کے دونوں جانب کروڑوں بھوکے ننگے، بیمار، غربت و افلاس کے مارے ہوئے آباد ہیں، جو کپاس اور چاول اُگا کر زرِمبادلہ کماتے ہیں تاکہ اس موٹر وے کا قرض ادا کریں جو ایک حکمران کے شوق کی تکمیل کے لئے حاصل کیا گیا تھا۔ کوئی بھی حکومت صحت، تعلیم، صاف پانی، سیوریج یا عام آدمی کی خوشحالی کے لئے قرض نہیں لیتی۔ لیکن بیرونی قرض کی واپسی انہی غریبوں پر ٹیکس لگا کر کی جاتی ہے۔
پاکستان میں ایسے تمام لوگ جو سرمایہ دار اور مالدار ہیں ان کی آمدن پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ملک کا نوے فیصد سے زیادہ ٹیکس عام آدمی سے وصول کیا جاتا ہے۔ صابن، تیل، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، دال، چاول، چینی، جوتے، کپڑے، بس کا کرایہ، ریل کا ٹکٹ، غرض ہر وہ چیز جو اس ملک میں بنتی اور پیدا ہوتی ہے، جب ایک عام شہری اُسے خریدنے جاتا ہے تو ٹیکس ادا کرتا ہے۔ لیکن وہ سرمایہ دار جو یہ تمام اشیا بناتا ہے یا وہ زمیندار جو، فصل اُگاتا ہے اس کی آمدن پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا۔
ایکڑوں پر پھیلے رقبے پر اُگنے والے ٹماٹروں سے منافع کمانے والا ٹیکس نہیں دیتا، ان ٹماٹروں سے چٹنی بنانے والا سرمایہ دار ٹیکس نہیں دیتا لیکن ایک عام آدمی جب وہ چٹنی کی بوتل خریدتا ہے تو اس پر سیلز ٹیکس دیتا ہے۔ یہ وہ گورکھ دھندا ہے جس سے ملکوں کی معیشت تباہ وبرباد ہوتی ہے اور ملک عالمی مالیاتی اداروں کے دروازوں پر مسلسل کشکول لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ اس سارے قضیے میں تین لوگوں کی چاندی ہوتی ہے۔
پہلے نمبر پر وہ عالمی بینک اور مالیاتی ادارے جو قرض دیتے ہیں اور سُود سمیت وصول کرتے ہیں دوسرے نمبر پر وہ بڑی بڑی کمپنیاں جو ان مقروض ملکوں میں انفراسٹرکچر منصوبوں پر کام کرتی ہیں اور تیسرے نمبر پر وہ بددیانت حکمران جو ان کمپنیوں سے کک بیک یا کمیشن لیتے ہیں یا پھر ان کے فرنٹ مین ان عالمی کمپنیوں کے پارٹنر بن کر منافع کماتے ہیں۔
آپ ان تینوں کے اثاثوں کا جائزہ لے لیں، آپ کو خودبخود اندازہ ہو جائے گا۔ بینک دن بدن وسیع ہوتے جاتے ہیں، عالمی کمپنیوں کا جال بھی پھیلتا چلا جاتا ہے اور بددیانت اور کرپٹ حکمرانوں کی ملک اور بیرون ملک جائدادوں میں دن دو گنا رات چوگنا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ ہے آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی سُودی نظام کا جال۔
لیکن ایک وقت ان ملکوں پر یہ آتا ہے کہ بیچنے کے لئے تن کے کپڑے بھی باقی نہیں رہتے۔ اور یوں پھر دُنیا بھر کی معاشی قوتیں خونخوار بھیڑیوں کی طرح ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے دوڑتی ہیں۔ 1974ء میں نائیجیریا دُنیا کی تیسری بڑی تیل برآمد کرنے والی معیشت تھا، لیکن آئی ایم ایف، عالمی مالیاتی اداروں اور کرپٹ حکمرانوں کی ملی بھگت سے آج نائیجیریا کے تمام تیل کے ذخائر جو ابھی بھی دُنیا کا تیسرا بڑا ذخیرہ ہیں، مگر وہ اب نائیجیریا کی نہیں بلکہ برٹش پٹرولیم(B.P)، شیل (Shell) اور ایکسون (Exon)کی ملکیت ہیں۔
یہ کمپنیاں ان تمام ذخائر سے تیل نکالتی ہیں اور پھر اسی نائیجیریا کے عوام کو ان کا اپنا تیل واپس بیچتی ہیں۔ پاکستان کے بھکاری حکمران بھی گذشتہ 61 سالوں میں 22 دفعہ آئی ایم ایف کے دروازے پر کشکول لے جا چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت کو سرمایہ فراہم نہیں کیا تو پھر امریکہ نے عمران حکومت کیوں تبدیل کروائی۔ میں نے ایک سال پہلے لکھا تھا کہ پاکستان میں حکومت اس لئے تبدیل کروائی جائے گی تاکہ پاکستان کو ڈیفالٹ کی سطح پر لایا جائے گا۔
ایسا اگر خدانخواستہ ہو گیا تو پھر عالمی معاشی بھیڑیئے ہمیں کسی بھی قسم کا ریلیف دینے سے پہلے ایک ہی چیز کا سوال کریں گے اور وہ ہے ہمارا ایٹمی پروگرام۔ اس سوال کا جواب کیا ہو گا، کون دے گا اور کیسے دے گا؟ یہ اگلے چند ہفتوں میں پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ، معاملہ اور سوال ہو گا۔